وجود

... loading ...

وجود

بے جرم سزا

جمعه 23 اکتوبر 2015 بے جرم سزا

pak-dollars-1312

آج پاکستان کا اقتصادی محاذ پر سب سے بڑا مسئلہ اس کے سکے (کرنسی) ’روپے ‘کی قدرمیں توازن کوبرقرار رکھنا ہے۔ہمارے ہاں انسان کے بنائے ہوئے مروج نظام میں موجود سقم کے باعث آئی آئی چندریگر روڈ کی آسمان کو چھوتی عمارتوں میں بیٹھے ، کچھ کلرک نما بابو حضرات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اُس مخصوص دن پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ کیا ہوگی۔ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے کمپیوٹر چلانے اور چند سافٹ وئیر کھاتوں کا حساب کتاب رکھنے کی تربیت لے کر آنے والوں کو آپ زیادہ سے زیادہ کیا کہیں گے؟ شاندار کلرک ( Glorified Clerk?)۔ کرنسی کی قدر طے کرنے کی یقینا ان کے پاس کوئی دلیل ، کوئی طریقہ کار یا پھر کوئی ایسا فارمولا ہو گا، جس کی مدد سے وہ یہ جمع تفریق کرتے ہوں گے ۔ لیکن ہماری مبلغ معلومات کے مطابق شرحِ تبادلہ کے تعین کرنے کا تعلق معیشت کی مبادیات یا اتار چڑھاو سے ’’زیادہ سبز پشت ‘‘ یا امریکی ڈالر (ہم گرین بیک کا ترجمہ سبز پشت ہی کریں گے) کی مسلسل فراہمی سے زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی بیرونِ ملک پاکستانی کتنا زرمبادلہ بھیج رہے ہیں اور ہمارے برآمد کنندگان کتنا زرِ مبادلہ کما کر دے رہے ہیں۔ ہمارے برآمدکنندگان دن رات محنت کرتے ہیں ، دن رات ایک کر کے معیاری مال بناتے ہیں، اور دنیا کا سب سے بڑا غنڈہ ملک ، کاغذ پر چند تصویریں اور پشت پر ایک آنکھ والے دجال کی تصویر چھاپ کر تیسری دنیا کے تمام ممالک کے عوام کی کی دن رات کی پیداوار سمیٹ کرلے جاتاہے۔ پھر یہ تو غلامی کی جدید شکل ہوئی ناں؟جس کا مطلب ہے ، مکمل غلامی ، ذہنی غلامی ، جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔اور ادھر ہماری یہ حالت کہ

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے ،
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اپنے قوانین کے تحت چونکہ وہ پاکستان میں کوئی آزاد ادارہ نہیں رہا بلکہ آئی ایم ایف کے نمائندہ کے طور پر رو بہ عمل ہے۔ ہر دوسرے دن امریکا اور آئی ایم ایف کے ذریعے یہ جو مطالبہ آتا ہے کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی کو یقینی بنایا جائے یعنی مقامی حکومت مرکزی بنک کے معاملات میں مداخلت نہ کرے ، یعنی اسے ایمانداری سے غیر ملکی آقاوں کورپورٹ کرنے دے۔

تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو دنیا کی کوئی تہذیب یا نظریہ ایسی جاندار اور بارعب شخصیت پیدا نہیں کر سکا ، جیسی ہم نے کی تھی۔ کیوں کہ انہیں ایسی صحبت میسر تھی جس صحبت کے تصور سے ہی آج عاصی اور گناہ گار مسلمان کی آنکھیں بھی جگمگانے لگتی ہیں۔

اونٹوں کے چرانے والوں نے اُس شخص ﷺکی صحبت میں رہ کر
قیصر کے تبختُر کو روندا کسریٰ کا گریباں چاک کیا

ایمان کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا کیسا حکم ہے؟ اے نیل،اگر تو اس دنیا میں کسی اور کے حکم سے بہتا ہے تو اپنا پانی اپنے پاس رکھ ، ہمیں اس کو کی کوئی ضرورت نہیں ، اور اگر تو میرے رب کے حکم سے بہتا ہے ، تو میں عمر بن خطاب، اس کے خلیفہ کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ بہنا شروع کردے۔ اور دریائے نیل نے چودہ سو سال سے اس حکم سے اب تک سرتابی نہیں کی۔ اپنی راہ میں آنے والے کئی ممالک کو سیراب کرتا ہوا بے چون و چراں بہتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جب عمر بن خطاب ؓ خلیفہ بنے تو اُس وقت تک درہم و دینار کی قدر اُس وقت کے دارلحکومت ، مدینہ النبی کے گردو نواح میں کسی ’آئی آئی چندریگر روڈ ‘ یا پھرکسی ’ وال سٹریٹ ‘ پر بیٹھے کچھ مالدار سنار طے کیا کرتے تھے اور اتفاق سے یہ سارے کے سارے یہودی ہو اکرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان میں سے کوئی نہ کوئی دیوالیہ ہو کر غائب ہو جاتا یا اس کے ہاں ڈاکہ پڑ جاتا اور یہ ربی صاحب یہاں سے کاروبار سمیٹ کر کہیں اور جا کر بنک کھول لیتے۔ خلیفہ دوم نے فرمایا کہ سکے کی قدر کا تعین کسی بھی ریاست کی خودمختاری کا مظہر ہوتا ہے، اس لئے کسی بھی سکے کی قوتِ خرید اور قوتِ فروخت طے کرنا ریاست کا حق اور ذمہ داری ہے، اسے چند نجی ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے درہم و دینار کی قوت خرید اور قوتِ فروخت کیا ہوگی یہ ریاست طے کرے گی۔نبی آخرالزمان ﷺ سود کی حرمت کے بارے میں جو عملی احکامات لے کر آئے تھے ، ان کے اطلاق کے لئے عملی اقدامات عمر بن خطاب کے ذریعے سرانجام پارہے تھے، اور طریقہ کار کی باریکیاں شائد اذنِ الٰہی سے ہی طے ہو رہی تھیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ کے ایک حکم سے انسانی تاریخ میں پہلی بار یہودیوں کی صدیوں سے رائج کرنسی کی قدرکے تعین پر قائم اجارہ داری ختم ہو گئی تھی۔

یوں انسانی تاریخ میں پہلی (اور شائد آخری مرتبہ) یہودیوں کی صدیوں سے رائج کرنسی کی قدرکے تعین پر قائم اجارہ داری ختم ہو گئی ۔یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی حکمران نے ان مالدار سنار یہودیوں کی اجارہ داری کو یوں ہوا میں اڑایا ہو۔ ان یہودیوں اور اُن کے ایجنٹوں کو آج تک اس کا بہت شدید رنج ہے، اس لئے کوئی بھی یہودی یا ان کا ایجنٹ ہو، اس چوٹ کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ظاہر ہے چوٹ بہت کاری تھی جس کی تکلیف آپ کو ہر گلی محلے میں آج بھی نظر آئے گی۔یہ بھی فرمایا کہ ریاست کی حدود کے اندر آنکھ کھولنے والے ہر بچے کی کفالت کی ذمہ داری ریاست کی ہے ۔ اس طرح آپ نے غریب ماں باپ کو ان امیر سونے کے تاجروں سے سود پر قرض لینے سے بھی جان چھڑا دی۔ پھر فرمایا کہ ریاست کے اندر ہر نئی فصل کی پیداوار کے آنے پر ریاست ایک خریدار کے طور پر منڈی میں موجود ہو گی تا کہ پیدا ہونے والی ہر فصل کے کسان کو مناسب نرخوں پرخریداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ پھر یہ بھی قرار دیا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس خرید کردہ اناج کو ذخیرے کے طور پر محفوظ رکھے اور قحط کے دنوں میں استعمال کرے۔پھر فرمایا کہ اگر کسان کی فصل تباہ ہو جائے تو ریاست اس کو زرعی مداخل کے علاوہ گذارے کے طور پر بھی کچھ بلاسود قرض اور امداد بھی دے گی۔مقصد اس کا یہ تھا کہ کوئی بھی کسان ، بھلے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنی فصل تباہ ہو جانے کی صورت میں ، ان سودخوروں کے ہتھے نہ چڑھے۔

علمِ معیشت کے ماہرین کو تو کہیں بیسویں صدی عیسوی میں آ کرپتہ چلا کہ اگر کسی فصل کی کل پیداوار کا دس فی صد ریاست کے پاس ذخیرہ ہو تو وہ کھلی منڈی کی قوتوں کو قیمتوں کے مصنوعی اتار چڑھاو سے روک سکتی ہے۔ لیکن سیدنا عمرؓ بن خطاب نے یہ پیمانہ چودہ سو سال پہلے مقرر کردیا تھا اور ریاست کی ذمہ داری قرار دے دیا تھا جس کو بعد میں آنے والے حکمران چالیس فی صد تک لے گئے۔

انسانی تاریخ میں اس قدر دور رس اور انسانیت نواز اقتصادی فیصلے شاید ہی کسی ایک شخصیت نے کبھی کیے ہوں۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ سودخور یہودیوں کی معیشت پر صدیوں سے قائم اجارہ داری ختم ہوئی۔لیکن سودخورویہودیوں نے اس کو یاد رکھا۔ یہودیوں نے اپنے معاشرے میں تو ان اقدامات کو رواج دیا کیوں کہ ان ہی اقدامات سے قومی خوشحالی کے دروازے کھولے جا سکتے تھے لیکن دوسری قوموں کے استحصال کے لئے ان کو سود کے جال میں الجھا لیا ہے ۔


متعلقہ خبریں


انٹربینک میں ڈالر مزید سستا وجود - منگل 02 نومبر 2021

انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...

انٹربینک میں ڈالر مزید سستا

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

شوکت ترین کو ایک مرتبہ پھر مشیر خزانہ وریونیو تعینات کردیا گیا۔ شوکت ترین کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردیا گیا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر شوکت ترین کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شوکت ترین...

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

ملک کے تیل کی درآمد کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد سے بڑھ کر 4.59 ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی اضافے کی وجہ بنی ہے۔تیل کے درآمدی بل میں مسلسل ...

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط وجود - جمعه 15 اکتوبر 2021

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے قرض پروگرام بحال کرنے کیلئے پاکستان کے سامنے نئی شرط رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرط رکھی ہے جس کے تحت حکومت نے جن اشیا پر ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے ، ان پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانا ہوگا۔آئی ایم ایف کی نئی شرط کے تحت ...

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے وجود - منگل 12 اکتوبر 2021

عرب دنیا کے پیرس کہلانے والے لبنان میں گزشتہ کچھ عرصے سے معاشی حالات اس تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں کہ ملک قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے اور سنہ 2019 کے اختتام کے بعد سے معاشی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کوروز مرہ ایندھن ، ادویات ...

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

مرکزی بینک آف انڈیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقروض ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھو...

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ڈائریکٹر ایف آئی اے ناصر محمود ستی نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہنڈی اور کرنسی کاروبار میں گرفتار ملزمان کے کیس کی پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی ے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 54 افراد ا...

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

حکومت نے شوکت ترین سے وزارت خزانہ واپس لے کر انہیں مشیرخزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق 16 اکتوبرکوشوکت ترین سے وفاقی وزیرکا عہدہ واپس وزیراعظم کے پاس چلا جائیگا۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی غیرمنتخب شخص کو 6 ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوکت ترین بطور...

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں وجود - جمعرات 07 اکتوبر 2021

ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بینکنگ محتسب کو گزشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں تاہم رواں سال پہلے ...

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم وجود - منگل 05 اکتوبر 2021

کوئلہ مہنگا، اضافی کرایہ اور روپے کی گرتی قدر نے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بڑھا اور کھپت 12 فیصد گھٹا دی۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی کھپت 45 لاکھ 89 ہزار ٹن رہی، جو ستمبر 2020 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی مق...

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر