... loading ...
بات ہے پرانی مگر ہے دلچسپ کہانی !ایک دور تھا جب ایک ایسے ادارے میں کام کرتے تھے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کا بڑا اشاعتی ادارہ ہے ستر کی دہائی میں چھاپ بھی ایسی ہی لگی تھی۔ ادارے کے ذمے داروں نے سوچا جب ایک سے زائد لسانی گروہ ہیں تو کیوں نہ اسّی کی دہائی میں احساس محرومی کے شکار گروہ کوبھی حصہ دیا جائے۔ ستر کے عشرے کی چھاپ بھی ہٹ جائے گی۔ حل یہ تجویز ہواکہ قوم پرست جماعت کی سفارش پر مطلو بہ تعلیمی قابلیت کے حامل کو ملازمت دی جائے ۔
اب اتفاق کی بات ہے ایسے ہی کوٹے پر بھرتی ایک صاحب کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع بھی ملا۔ ان کی صلاحیتوں سے بھی خوب واقفیت ہوئی۔ ایسے میں ان کی اہلیت اور حاصل عہدے کے درمیان فرق انتظامی ذمہ داروں کی نظر میں واضح ہونے لگا۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ ان صاحب کی حامی قوم پرست تنظیم کے سر برا ہ کی کال ادارے کے چیف ایگزیکٹو کو موصول ہوئی اور انہوں نے کہا کہ آپ سے ہمارا ایک آدمی بھی برداشت نہیں ہورہا۔ بس اس کے بعد تو سارے اقدامات واپس ہوگئے۔
ہمارے ایک دوست جب طویل عرصے کے بعد پریس کلب میں ملنے آئے تو کچھ دل برداشتہ تھے۔ کہنے لگے آپ اکثر بات کرتے ہیں کہ کراچی میں اسکول ایجو کیشن سرکاری شعبے میں ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے آخری مرتبہ سرکا ری اسکول کی میٹرک بورڈ میں پوزیشن کب آئی تھی؟ میں نے بے اختیار کہا، انیس سو ستانوے ۔ کہنے لگے کیا آپ اپنے یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچوں کو یقین دلاسکتے ہیں کہ سرکار ی یا پیلے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی پہلے پوزیشن لے لیا کرتے تھے ۔ کہا، نہیں یقین کریں گے بولے، تعلیم کو طبقات میں تقسیم کرنے والو ں کا اگلا منصوبہ کیا ہے ؟وہ انٹر کی سطح پر بھی تعلیم کو سر کاری شعبے سے چھین لینا چاہتے ہیں یہ جو تم اکا دکا سرکاری کالج کا نام پوزیشن ہولڈرز میں دیکھ لیتے ہو، اگلے چند برس بعد یہ بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اب ہمیں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ ہم نے کہا کہ طبقاتی تقسیم کے حامی اس گروہ کے اور مقاصد کیا ہیں ؟وہ چاہتے یہ ہیں کہ اب ان پیلے اسکول والے افسروں سے بھی جان چھڑائی جائے جو ان کے مقاصد کی راہ میں حائل ہیں ۔ کہنے لگے : ابھی حال ہی میں اس کی مثال انٹر بورڈ کے ناظم امتحانات عمران چشتی کی ہے ۔ اُسے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیونکہ وہ اس طبقے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ اس نے کالجز کی بنیاد پر پوزیشن دینے کے بجائے میرٹ پر دیں ۔ ہم نے کہا کہ صاحب ان پر تو خود پوزیشن بیچنے کا الزام ہے۔ بولے بھائی صاحب ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا! ابھی پوزیشن ہولڈرز کے انٹرویوز کرلیجیے۔ ان کے والدین کی ما لی حالت کا اندازا کرلیجیے ۔ آپ جان جا ئیں گے وہ تو خود اس سسٹم کا مارا آدمی ہے۔ میں تو اسے بچپن سے جانتا ہوں والد کثیر العیال تھے محنت سے تعلیم حاصل کی۔ مگر چونکہ کوچنگ سینٹر اور دیگر سہولتیں نہ تھیں۔ علاقے میں بھی ایسا ماحول نہ تھا اس کے انٹر میں اچھے نمبر نہ آسکے سو، کسی پروفیشنل تعلیمی ادارے میں داخلے کی خواہش دم توڑ گئی مگر اس نے محنت سے جی نہ چرایا چھوٹے بھائیوں کو پروفیشنل تعلیمی اداروں تک پہنچایا خود محنت کر کے ایک کلرک سے ناظم امتحانات انٹر بورڈ بن گیا۔ جب اس نے اپنی کلاس کے لوگوں کو آ گے بڑھانے کی پالیسیز بنائیں تو تعلیمی اسناد کو پیسے کے بل پر خریدنے والی مافیا سے یہ برداشت نہ ہوا۔۔ہم نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے عمران چشتی پیلے اسکول میں محنت کرنے والوں کو آگے لانے کی پالیسیز بنا رہا ہے مگر اس سے توامیر طبقے کا استحصال ہو گا؟ بولے نہیں محنت کرنے والے آگے آئیں گے ۔ ظاہر ہے جب تک پاکستان میں ایک فیصد بھی میرٹ باقی ہے ہمارے طبقے کا ذہین بچہ ہرحال میں آگے آئے گا۔ ڈاکٹر قدیر خان سے ڈاکٹر اقبال چوہدری تک اور صدر ممنون حسین سے عمران چشتی تک لوگ آگے آتے رہیں گے پیلے اسکولوں کی نمائندگی باقی رہے گی۔
ہم نے کہا کہ اچھا تو یہ قصور ہے عمران چشتی کا، بولے جناب آپ نظر ڈالیے صوبے اور وفاق پر، لے دے کے چند لوگ ہی نظر آتے ہیں جو پیلے اسکولوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ انہیں بھی ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے کیا بالادست طبقے کے لوگوں کے دلوں میں اس ملک کے نچلے متوسط طبقے کے لیے بالکل ہی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ نہ وہ سیاست میں ، نہ اسمبلیوں میں نہ ملازمتوں میں ، انہیں کہیں برداشت کرنے پر کوئی تیار نہیں، ہم بولے ، بھائی ان سے اب کہیں بھی بااختیار پوزیشن میں ہمارے آدمی برداشت نہیں ہورہے، وہ طبقات کی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں ، اب ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا بولے کیا کریں گے ؟ ہم نے کہا کہ آغاز آپ کے دوست سے ہی کرتے ہیں اس کے ادارے اور حکومت کے اعلی عہدے داروں سے وہی بات کہتے ہیں جو قوم پرست تنظیم کے سربراہ نے کہی تھی کہ تم سے ہمارا ایک آدمی برداشت نہیں ہورہا!!!