وجود

... loading ...

وجود

آپ سے ہمارا ایک آدمی بھی برداشت نہیں ہورہا

اتوار 18 اکتوبر 2015 آپ سے ہمارا ایک آدمی بھی برداشت نہیں ہورہا

Imran-Chisthi

بات ہے پرانی مگر ہے دلچسپ کہانی !ایک دور تھا جب ایک ایسے ادارے میں کام کرتے تھے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کا بڑا اشاعتی ادارہ ہے ستر کی دہائی میں چھاپ بھی ایسی ہی لگی تھی۔ ادارے کے ذمے داروں نے سوچا جب ایک سے زائد لسانی گروہ ہیں تو کیوں نہ اسّی کی دہائی میں احساس محرومی کے شکار گروہ کوبھی حصہ دیا جائے۔ ستر کے عشرے کی چھاپ بھی ہٹ جائے گی۔ حل یہ تجویز ہواکہ قوم پرست جماعت کی سفارش پر مطلو بہ تعلیمی قابلیت کے حامل کو ملازمت دی جائے ۔

اب اتفاق کی بات ہے ایسے ہی کوٹے پر بھرتی ایک صاحب کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع بھی ملا۔ ان کی صلاحیتوں سے بھی خوب واقفیت ہوئی۔ ایسے میں ان کی اہلیت اور حاصل عہدے کے درمیان فرق انتظامی ذمہ داروں کی نظر میں واضح ہونے لگا۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ ان صاحب کی حامی قوم پرست تنظیم کے سر برا ہ کی کال ادارے کے چیف ایگزیکٹو کو موصول ہوئی اور انہوں نے کہا کہ آپ سے ہمارا ایک آدمی بھی برداشت نہیں ہورہا۔ بس اس کے بعد تو سارے اقدامات واپس ہوگئے۔

ہم نے کہا کہ اچھا تو یہ قصور ہے عمران چشتی کا، بولے جناب آپ نظر ڈالیے صوبے اور وفاق پر، لے دے کے چند لوگ ہی نظر آتے ہیں جو پیلے اسکولوں کی نمائندگی کرتے ہیں

ہمارے ایک دوست جب طویل عرصے کے بعد پریس کلب میں ملنے آئے تو کچھ دل برداشتہ تھے۔ کہنے لگے آپ اکثر بات کرتے ہیں کہ کراچی میں اسکول ایجو کیشن سرکاری شعبے میں ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے آخری مرتبہ سرکا ری اسکول کی میٹرک بورڈ میں پوزیشن کب آئی تھی؟ میں نے بے اختیار کہا، انیس سو ستانوے ۔ کہنے لگے کیا آپ اپنے یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچوں کو یقین دلاسکتے ہیں کہ سرکار ی یا پیلے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی پہلے پوزیشن لے لیا کرتے تھے ۔ کہا، نہیں یقین کریں گے بولے، تعلیم کو طبقات میں تقسیم کرنے والو ں کا اگلا منصوبہ کیا ہے ؟وہ انٹر کی سطح پر بھی تعلیم کو سر کاری شعبے سے چھین لینا چاہتے ہیں یہ جو تم اکا دکا سرکاری کالج کا نام پوزیشن ہولڈرز میں دیکھ لیتے ہو، اگلے چند برس بعد یہ بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اب ہمیں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ ہم نے کہا کہ طبقاتی تقسیم کے حامی اس گروہ کے اور مقاصد کیا ہیں ؟وہ چاہتے یہ ہیں کہ اب ان پیلے اسکول والے افسروں سے بھی جان چھڑائی جائے جو ان کے مقاصد کی راہ میں حائل ہیں ۔ کہنے لگے : ابھی حال ہی میں اس کی مثال انٹر بورڈ کے ناظم امتحانات عمران چشتی کی ہے ۔ اُسے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیونکہ وہ اس طبقے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ اس نے کالجز کی بنیاد پر پوزیشن دینے کے بجائے میرٹ پر دیں ۔ ہم نے کہا کہ صاحب ان پر تو خود پوزیشن بیچنے کا الزام ہے۔ بولے بھائی صاحب ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا! ابھی پوزیشن ہولڈرز کے انٹرویوز کرلیجیے۔ ان کے والدین کی ما لی حالت کا اندازا کرلیجیے ۔ آپ جان جا ئیں گے وہ تو خود اس سسٹم کا مارا آدمی ہے۔ میں تو اسے بچپن سے جانتا ہوں والد کثیر العیال تھے محنت سے تعلیم حاصل کی۔ مگر چونکہ کوچنگ سینٹر اور دیگر سہولتیں نہ تھیں۔ علاقے میں بھی ایسا ماحول نہ تھا اس کے انٹر میں اچھے نمبر نہ آسکے سو، کسی پروفیشنل تعلیمی ادارے میں داخلے کی خواہش دم توڑ گئی مگر اس نے محنت سے جی نہ چرایا چھوٹے بھائیوں کو پروفیشنل تعلیمی اداروں تک پہنچایا خود محنت کر کے ایک کلرک سے ناظم امتحانات انٹر بورڈ بن گیا۔ جب اس نے اپنی کلاس کے لوگوں کو آ گے بڑھانے کی پالیسیز بنائیں تو تعلیمی اسناد کو پیسے کے بل پر خریدنے والی مافیا سے یہ برداشت نہ ہوا۔۔ہم نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے عمران چشتی پیلے اسکول میں محنت کرنے والوں کو آگے لانے کی پالیسیز بنا رہا ہے مگر اس سے توامیر طبقے کا استحصال ہو گا؟ بولے نہیں محنت کرنے والے آگے آئیں گے ۔ ظاہر ہے جب تک پاکستان میں ایک فیصد بھی میرٹ باقی ہے ہمارے طبقے کا ذہین بچہ ہرحال میں آگے آئے گا۔ ڈاکٹر قدیر خان سے ڈاکٹر اقبال چوہدری تک اور صدر ممنون حسین سے عمران چشتی تک لوگ آگے آتے رہیں گے پیلے اسکولوں کی نمائندگی باقی رہے گی۔

ہم نے کہا کہ اچھا تو یہ قصور ہے عمران چشتی کا، بولے جناب آپ نظر ڈالیے صوبے اور وفاق پر، لے دے کے چند لوگ ہی نظر آتے ہیں جو پیلے اسکولوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ انہیں بھی ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے کیا بالادست طبقے کے لوگوں کے دلوں میں اس ملک کے نچلے متوسط طبقے کے لیے بالکل ہی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ نہ وہ سیاست میں ، نہ اسمبلیوں میں نہ ملازمتوں میں ، انہیں کہیں برداشت کرنے پر کوئی تیار نہیں، ہم بولے ، بھائی ان سے اب کہیں بھی بااختیار پوزیشن میں ہمارے آدمی برداشت نہیں ہورہے، وہ طبقات کی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں ، اب ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا بولے کیا کریں گے ؟ ہم نے کہا کہ آغاز آپ کے دوست سے ہی کرتے ہیں اس کے ادارے اور حکومت کے اعلی عہدے داروں سے وہی بات کہتے ہیں جو قوم پرست تنظیم کے سربراہ نے کہی تھی کہ تم سے ہمارا ایک آدمی برداشت نہیں ہورہا!!!


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر