... loading ...
ہم روز رونا روتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنے بے گناہ مارے گیے ۔ فلاں جگہ ڈاکو اتنی نقدی اور طلائی زیورات لے کر گھر والوں کوایک کمرے میں بند کر کے چلے گیے ۔ محلے داروں نے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ توڑااور لٹیروں کے ہاتھوں برباد ہونے والے یر غمالیوں کو رہائی دلوائی۔چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی روز کا معمول بن چکی ہے ۔ میڈیا پر شور شرابہ پڑ جائے تووقتی طور پر تھوڑا بہت ایکشن لیے جانے کا ڈراما رچا کر کیسوں کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ اگر واقعہ کے گواہ اور مدعی تگڑے ہوں تو بھی فیصلہ کمیٹیوں کے ہاتھ میں غیر معینہ مدت کے لیے دے دیا جاتا ہے ۔ اب اگر پیروی ہوتی رہے تو کیس کسی جانب لگتا ہے ورنہ طاقتور ظالم دندناتے پھرتے ہیں ۔متاثرین کو نئے مخمصوں میں الجھ کر مزید ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔پڑھے لکھے اور سمجھدار سفید پوش سارا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنا نقصان کروا کے بھی زبان نہیں کھولتے بلکہ عافیت اسی فارمولے میں سمجھتے ہیں کہ اگر جمع پونجی سے عزت بچ جائے تو اس پر جمع پونجی کی قربانی دے دینی چاہیے۔اگر تو عزت واقعی ہی بچ جائے تو جمع پونجی صرف کرنے کی تکلیف نہیں ہوتی مگر خون پسینے کی کمائی سے اولاد کا فیوچر تاریکی میں ہچکولے کھائے تو اس سے بہتر ہے کہ بچوں کو پڑھنے لکھنے کی بجائے کسی مزدوری کے کیے بھیج دیا جائے ۔کسی مولوی نے نوجوان کا نکاح پڑھایا ۔ مولوی صاحب نے نوجوان سے اعزازیہ طلب کیا ۔نوجوان نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ میاں جی کتنے پیسے دوں ؟مولوی صاحب نے جواب دیا کہ برخوردار جتنی تمہاری دلہن حسین ہے اس کے مطابق دے دو۔دلہا نے ایک سو روپے مولوی صاحب کو پکڑائے تو مولو ی صاحب سخت ناراض ہوئے اور دانت پیس کر وہاں سے تلملاتے ہوئے رفوچکر ہونے ہی والے تھے کہ ہوا کے جھونکے سے دلہن کا گھونکھٹ چہرے سے سرکا تو اچانک مولوی صاحب کی نظر دلہن کے چہرے کو چھو گئی جو کہ انتہائی بد صورت تھی۔ مولوی صاحب نے اپنی جیب سے اسّی روپے نکالے اور دلہا کے ہاتھ پر رکھ دیے۔لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب یہ کیا؟ تو وہ بولے کہ یہ ابھی میں نے کم واپس کیے ہیں ۔دلہن کو دیکھ کر تو دل چاہا
کہ پورے کے پورے سو روپے واپس کر دوں مگر میں نے دلہا میاں کا دل رکھنے کے لیے بیس روپے رکھ لیے ہیں ۔ دیکھا آپ نے کہ اس طرح کے مولا نا صاحب جو کہ انتہائی لالچی ہوتے ہیں ان کے بھی وضع کردہ زندگی کے کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بچہ زندگی کرنا اگر چہ اپنے گھر سے سیکھتا ہے مگر زندگی کے اصول و ضوابط تعلیمی اداروں سے سیکھتا ہے ۔والدین اس مقصد کے لیے ڈھیروں روپیہ صرف کرتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے اپنے ملک کے تعلیمی نظام کو دیکھ کر کہ جن لوگوں نے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل تعمیر کرنا ہوتا ہے وہ بجائے تعمیر کے ،نسلوں کی بربادی کا باعث بنتے ہیں ۔آنے والے ہر سال میں تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت بھی تعلیم کے شعبے کے لیے بجٹ بڑھا رکھتی ہے اور والدین بھی مہنگائی اور فیسوں کے بوجھ تلے کراہ رہے ہوتے ہیں ۔شنید ہے کہ اب ہر ضلع میں ہماری گورنمنٹ مقامی یونی ورسٹیاں بنائے گی۔یوں تو یہ اچھا قدم ہے ۔
ڈر اس بات کا ہے کہ جس طرح گاؤں اور قصبہ جات میں مسجدوں پر مسجدیں بنتی جاتی ہیں لیکن نمازی گھٹتے جاتے ہیں خاکم بدہن کہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اسی ریشو سے ویران ہوتے جائیں ۔ایک اندازے کے مطابق ایک سو پچاسی ملکی یونی ورسٹیاں تو پہلے ہی بغیر این او سی کے چل رہی ہیں ۔ حکومت اورایچ ای سی کو پہلی فرصت میں اس بات کا نوٹس لینا چاہیے کہ یہ یونی ورسٹیاں طلبہ کی کیسی پنیر ی تیار کر رہی ہیں۔ جن بچوں بچیوں نے کل کو ملک کی باگ ڈور سمبھالنی ہے،ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، مسیحا بننا ہے اور لیڈران وقت بننا ہے معاف کیجیے گا وہ پرائیوٹ پرائمری سکول ٹیچر بننے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ہماری دانش یہاں ایک ایگزیکٹ کو رو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ قانون ساز اداروں کو چاہیے کہ یہ جو’’ نکی نکی‘‘ کوٹھیوں میں ہائر ایجوکیشن بانٹنے کامصنوعی دھندہ چل رہا ہے مستقل بنیادوں پر اس کا سد باب کرے۔ جس کی پناہ میں طلبہ کا قیمتی وقت اور ان کا پیسہ ضائع ہورہا ہے ۔ یہ ڈگریاں بانٹنے والی فیکٹریاں لگانے والوں کا احتساب بہت ضروری ہے۔طلبہ کا دھیان معیار اور کوالٹی کی بجائے ڈگری کی جانب ہوتا ہے۔جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان کو دوسرے ادارے تھوڑی تھوڑی تنخواہیں دے کر ان ڈگری ہولڈرز کو ہائر کر لیتے ہیں اور پھر اسٹوڈنٹ سے بھاری فیس بٹور کر ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بیچ کر ان کو عملی میدان میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسی تعلیم یافتہ پود تو پنکچر لگانے کے قابل بھی نہیں ہوتی چہ جائیکہ وہ کسی کلیدی عہدہ سے انصا ف کر سکے۔ ڈگری ہولڈرز میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے اور تعلیم میں کمی۔علمیت و بصیرت کے سوتے سوکھ کر کانٹا بنتے جاتے ہیں اور جہالت کے جوہڑ پھیلتے جا رہے ہیں ۔ کم سخن وبے ہنر تحقیق و تدقیق سے نظریں چرا کر بے منفعت جگالی میں کوشاں رات دن جتے ہوئے ہیں ۔ علمی وا دبی رجحان ، ڈگری کے پیچھے بھاگ کر توانائیوں کا زیاں کرنے والوں کی شکل کو ترس گیا ہے ۔ یہی ڈگری عملی زندگی میں مذاق بن جاتی ہے جب اس سے مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوتے۔ چند مفاد شناس ریٹائرڈ بوڑھے ڈنگ ٹپاؤ کے لیے پرائیویٹ یونی ورسٹیوں میں اپنے کنٹریکٹ پکے کرواتے ہیں اور اپنے نالائق اور انتہائی نکمے تیسرے درجے کے طلبہ کی فوج ظفر موج وہاں اپنے ساتھ بھرتی کرا دیتے ہیں تا کہ نہ تو کوئی موازنہ کرنے والا وہاں موجود ہو ، نہ معیار متعین کرنے کی زحمت ہو اور نہ ہی کوالٹی پرکھنے کی نوبت آئے۔ ادارہ مالکان کو سب اچھا کی رپورٹ جاتی رہے اور مفت کے ’’راشن کا کاروبار ‘‘چلتا رہے۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس سال بھی دنیا کی پانچ سو ٹاپ کی یونی ورسٹیوں کی فہرست میں ہماری ایک یونی ورسٹی بھی جگہ نہیں بنا پائی۔خدا جانے ایچ ای سی ان کا کڑا احتساب کیوں نہیں کرتی ۔گزشتہ دنوں ایک یونی ورسٹی کو منہ کی کھانی پڑی جب اس نے ایم فل طلبہ کے لیے ایک ایم اے پاس ٹیچر ہائر کرنے کی کوشش کی تو مطلوبہ ٹیچر نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ جو کلاس میں نے خود نہیں پڑھی اس کو پڑھانا میرے بس میں نہیں ہے۔ متعلقین نے اسے مجبور کیا اور اس کا حوصلہ بڑھایا کہ آپ کوالیفیکیشن کا ذکر نہ کرنا کسی کو پتا نہیں چلے گا۔پھر بھی وہ ٹیچر ایسا کرنے پر راضی نہ ہوئی۔ہم اس غیرت مند ٹیچر کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں۔ جس نے اس مقدس پیشے کی لاج رکھی اور وقتی طور پر فائدہ لینے کی بجائے جھوٹ اور فریب پر لعنت بھیجی اور سچے استاد کا رتبہ بلند کیا۔پاکستان میں ایسا کرنا کوئی ان ہونی بات نہیں ۔کیو ں کہ فرضی اسائنمنٹس،فرضی ورکشاپس اور فرضی نمبر زکو ئی نہیں دیکھتا، دھیان ڈگری پر ہوتا ہے اور ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ ۔۔۔۔۔ !!!!!!۔۔۔۔اپ گریڈیشن کے چکر میں کھوج پرکھ کی بجائے ڈگری چاہیے، وہ چاہے کسی بھی طریقے سے حاصل ہو۔ جعلی ا دارہ مالکان کے محل نظر لالچ ہوتی ہے، چاہے اس کے لیے نوجوانوں کا مستقبل رہن رکھنا پڑے۔ جانور میں خواہش اور فرشتے میں صرف عقل ہوتی ہے انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس میں دونوں قوتیں پائی جاتی ہیں ۔اگر وہ عقل دبا لے تو جانور بن جاتاہے اور اگر وہ خواہش دبالے تو فرشتہ کہلواتا ہے۔اب انسان چوں کہ شعور رکھتا ہے اسے خود سوچنا ہے کہ بھلائی کس میں ہے۔کیا ہم نے بے لگام خواہشات کو فروغ دینا ہے یا شعور بانٹنا ہے؟
وہ اکثر محافل میں زیادہ بات چیت نہیں کرتا ۔ہاں البتہ اپنے بے تکلف دوستوں اور اپنے والد مبارک احمد مرحوم کے بزرگ دوستوں کی منڈلیوں میں خوب چہکتا اور محفل میں رنگ جماتا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پھر ایک سرکاری ادارے سے فون آیا کہ اپ اپنا بائیو ڈیٹا ، شناختی کارڈاورایک عدد تصویر بھیج...
دعوے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ثابت ہو گیا تو دعویٰ کرنے والا معتبر اور اگر بد قسمتی سے دعوے دار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو نہ صرف اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں بلکہ لوگ اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اسے صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کا نہ پورا ہ...
دوزخ نامہ بنگالی زبان میں لکھا جانے والا شاہ کار ناول ہے جس میں پہلی بار منٹو بہ مکالمہ غالب دکھایا گیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نام دوزخ نامہ اور گفتگو منٹو اور غالب کی۔۔۔جی ہاں! تو جنابِ والایہ دونوں کردار اس ناول میں جہنم میں محو کلام ہیں ۔اس سے قبل بھی اس عظیم ناول نگا ر،ربی س...