... loading ...
مسلمان سالِ نو میں داخل ہوتے ہیں ۔ برنارڈ لیوس جانتا ہے مگر مسلمان نہیں۔ افسوس بالکل بھی نہیں۔ مغرب کا سب سے بڑا زندہ فلسفی، مورخ اور مستشرق برنارڈ لیوس اسلام کے خلاف بروئے کار آیا اور مسلم تہذیب کی باریکیوں کا اداراک کیا ۔ انسانی عقل کو دنگ کردینے والے نکات نکالے اور بتایا کہ مسلمان دراصل ایک تہذیب کی ہمہ گیریت کا تجربہ رکھنے والی قوم ہے جو تاریخِ انسانی کے بہاؤ میں دائم ان امکانات کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہے۔ اُسی نے مغرب کو فلسفیانہ بنیادوں پر باور کرایا کہ یہ تہذیب ، مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ’’تہذیبوں کے تصادم ـ‘‘کی ترکیب سب سے پہلے برنارڈ لیوس نے ہی استعمال کی تھی ،جسے ہنٹنگٹن نے ایک نظریئے کے طور پر کتابی شکل میں پیش کیا۔
ابھی ٹھہریئے ! پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دراصل مغرب کیا ہے؟ مغرب کا مسلم ریاستوں پر سیاسی تحکم دراصل جدید ریاستوں کی تشکیل کی جس صلاحیت پر قائم ہے، وہ بے اندازا اُس کی قوت (معاشی اور فوجی )کی مشنری ہے۔ مگر یہ ایک مکمل تجزیہ نہیں ۔ دراصل مغرب نے آج کی دنیا کی تشکیل کے لیے اپنا ایک نظم العلم یعنی (knowledge order) بنا کر نہ صرف دکھایا ہے بلکہ اِسے دنیا سے منوایا بھی ہے۔ یہ نظم العلم دنیا بھر میں علم کی جتنی بھی فکری اور عملی صورتیں ہو سکتی ہیں اُس کی تعبیر پر مغرب کی’’ Episteme‘‘یعنی کلیدِ علم کی حکمرانی کے ساتھ کارفرما ہے۔ اِسی سے وہ سیاسی اورسماجی علوم کی تشکیل کرتا ہے۔ یہیں سے وہ مابعد الطبیعات کا راستا روکتا ہے۔ انسان کو خدا بنا کر اس کی پرستش کراتا ہے۔ اور ایک تناظرِ عالم قائم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جو ذہن بھی سوچتا ہے، اُسے وہ قائل نہیں کرتا ۔ بلکہ علمی سطح پر اُسے نشانۂ تضحیک بناتاہے۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا ، آج کی دنیا وہی ہے جو مغرب کی بیان کردہ ہے۔ مگر برنارڈ لیوس یہ کہتا ہے کہ اس دنیا کو حقیقی خطرہ دراصل مسلمانوں سے ہیں جو کہیں پر ، کسی بھی تہذیب میں اور کسی بھی سیاسی تحکم میں ہوں، دراصل اپنا تہذیبی تجربہ خلق کرتے ہیں۔ اوریہ تجربہ مغرب کے تناظرِ عالم کے لیے اور اُس کے نظم العلم کے لیے ایک جوہری خطرہ پیدا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
برنارڈ لیوس ۳۱؍ مئی ۱۹۱۶ء کو برطانیا میں پیدا ہوا۔اب وہ ننانوے برس کا ہے۔اُس نے ۱۹۳۹ء میں تاریخ اسلام میں ڈاکٹریٹ کی ۔ اور جب سے آج تک ۷۶ برسوں سے وہ مسلسل اسلام کے متعلق لکھ رہا ہے۔ اُس کی تحریروں سے کماحقہ آگاہی کے لیے بھی مسلمانوں کو ایک پورے ادارے کی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہاں نوگیارہ کے بعد اُس کی کتاب ’’What went wrong?‘‘ کے ایک پہلو کو سامنے لانا مقصود ہے۔ اُس نے اپنی کتاب میں یہ سوال اُٹھایا ہے کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر حکومت کرتی تھی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک ترقی یافتہ ریاست تھی۔ اس کی شان وشوکت اور علمی وراثت بھی قابل قدر تھی۔ اور تب مسلمان سائنسی ایجادات میں بھی حصہ لے رہے تھے۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ خلافت عثمانیہ کے پورے عرصے میں مسلمانوں کو گھڑی ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ برنارڈ لیوس کے مطابق اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان اپنے اوقات کے تعین کے لیے موذن کی اذان کو معیار بناتے تھے۔ تب موذن کی اذان سے زندگی کے تمام اُمور کا آغاز وانجام ہوتا تھا۔ برنارڈ لیوس یہاں مغربی انسان اور مسلما ن کے درمیان اس جوہری فرق کو آشکار کرتا ہے کہ جو انسان مشین کے پرزوں سے اپنی حرکت کا تعین کرتا ہو، اور جو انسان موذن کی اذان سے اپنے معمولات کو متعین کرتا ہو ، اُن کے درمیان بہت بڑا جوہری فرق ہوگا۔ اُس نے اپنی کتاب میں اصرار کیا کہ مسلمانوں کی خلافت کسی بھی سطح پر کوئی سیاسی ادارہ نہیں ، بلکہ یہ ایک روحانی ادارہ ہے۔ اور اس اعتبار سے یہ اُس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جتنا مغرب اُسے اب تک سمجھا ہے۔ بس یہی فرق نظم العلم کا ہے۔ تب مسلمان اپنا ایک نظم العلم رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ کسی کے محتاج نہیں تھے۔ مسلمان دنیا کی تشکیل جیسی بھی کر رہے تھے وہ اُن کی اپنی ’’ Episteme‘‘ کی بدولت تھی۔ مسلمانوں کی اصل غلامی یہ نہیں ہے کہ وہ معاشی ، عسکری ،یا سیاسی طور پر مغرب کی تحویل میں چلے گیے ہیں۔ اُن کی اصل غلامی یہ ہے کہ وہ مغرب کے نظم العلم اور اُس کی محیط تر کلید ِ علم ’’Episteme‘‘ کے تابع مہمل رہ کر بروئے کار ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمان اپنے تہذیبی تجربے سے رفتہ رفتہ دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ اور اس معاملے میں مغری جارحیت کا درست انداز اتک نہیں لگا پاتے۔ چونکہ ہمارا قومی اور ملی شعور مکمل طور پر سیاسی تناظر سے آلودہ ہوچکا ہے ، جس کے باعث ہماری ذہنی تشکیل کا غالب حصہ اخبار اور ٹیلی ویژن کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ یہ وژن کی پستی کا سب سے تاریک دور ہے۔ جس میں معلومات کے انبار تلے دبے شخص کو سمت سفر کا پتا ہوتا ہے اور نہ وہ معلومات اور علم کے درمیان کے فرق میں اپنے شعور کی تعلیم وتہذیب کر پاتا ہے۔ بس اِسی کے زیراثر مسلمان اپنے تہذیبی شعور کو مغرب کی بنائی دنیا میں شعوری یا لاشعوری طور پر ترک کرنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ایک معمولی مسئلہ نہیں بلکہ زندگی کو جینے یا اُس سے دستبردار ہونے سے متعلق معاملہ ہے۔ سالِ نو کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ بھی اسی دائرے میں آتا ہے۔ مسلمان کے لیے ہجری تقویم میں یکم محرم نیے سال کا آغاز ہے ۔ اسلام کی تاریخ وتہذیب وقت کے جس دھارے میں متشکل ہوئی وہ ہجری تقویم سے یادگار ہے۔ اس کا مطلب برنارڈ لیوس جانتا ہے مگر مسلمان نہیں جانتے۔ افسوس بالکل نہیں جانتے۔پھر بھی ، سالِ نو مبارک ہو!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...