وجود

... loading ...

وجود

زمین تنگ ہورہی ہے!

جمعرات 15 اکتوبر 2015 زمین تنگ ہورہی ہے!

Sudheendra-Kulkarni-Khurshid-Kusuri

آخر کیوں خورشید قصوری نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ بھارت جاکر اپنی کتاب کی تقریب رونمائی فرمائیں؟ایک سیاہ رنگ کا پینٹ اُن کی تقریب کے منتظم کے چہرے پر پوٹ دیا گیا۔ اگر خورشید قصوری ہندوؤں کو نہیں جانتے اور اُن کے مذہبی مزاج ِ علم وعمل سے آگاہ نہیں تو اُنہوں نے کتاب میں کیا لکھا ہوگا؟ مگر اس پر تبصرہ کسی اور تحریر پر اُٹھائے رکھتے ہیں۔ ابھی تو محمود دورویش کو پڑھیے !

’’آخری سرحدیں پار کر نے کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟ حدِ آسماں ختم ہو گی تو پرندے کہاں پرواز کریں گے؟ ہوا کے آخری جھونکے کے بعد گُل بوٹے کہاں سوئیں گے؟زمین ہم پہ تنگ ہورہی ہے۔‘‘

کہیں اور یہ ہو نہ ہو ، بھارت کا منظرنامہ یہی ہے۔ جہاں گیت کے بول ، تاریخ کے الفاظ ، مذہب کے ا وراد اور ثقافت کے رنگوں سمیت ہر چیز کو ہندو ، ہندو دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں آج زمین سب پر تنگ ہورہی ہے۔بھارتی دانشور چیخ اُٹھے ہیں ۔ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ مگر پاکستانی دانشور؟ الامان والحفیظ !

خورشید محمود قصوری کو نہ جانے کیا سوجھی؟ وہ اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں اُتاؤلے اُتاؤلے بھارت پہنچے۔مگر اُن کی تقریب کے منتظم سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر شیوسینا کے جنونیوں نے کالک پوٹ دی۔ وہ اپنے سیاہ چہرے کے ساتھ اُس کتاب کی تقریب میں شریک ہوئے جو یہ تعلیم کرتی ہے کہ انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ سیاہی تقریب کے منتظم کے چہرے پرمَلی گئی یا کتاب کے اس نتیجے پر پھیری گئی۔ خورشید قصوری کی کتاب اِسی ہیر پھیر کا شاہکار ہے۔ غزل گائیک غلام علی کا پروگرام ۹ ؍ اکتوبر کو ممبئی میں شیوسینا کے دباؤ پر منسوخ ہوا۔ ذرا دیر بعد سمجھوتا ایکسپریس کو بھارت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر واپس بلانا پڑا تھا۔ پاکستان کے پاپ اسٹار گلوکار عاطف اسلم کو پانچ ماہ قبل پونے میں اپنا پروگرام منسوخ کرنا پڑا تھا۔ خورشید قصوری یقینا اس سے واقف ہوں گے۔ وہ تازہ تاریخ کے اُن واقعات سے بھی آگاہ ہوں گے جو ۱۹۹۱ء سے ایک بہاؤ میں چلتے چلے آتے ہیں۔اُسی سال شیوسینا نے ممبئی کے ایک اسٹیڈیم کی پچ اس لیے اُکھاڑ دی تھی کی پاک بھارت کرکٹ میچ نہ ہوسکے۔ یہ ہندو ؤں کی مسلم دشمنی کے جنون کا نیا باب جسے آئندہ برسوں میں ورق ورق کھلنا تھا ۔ پھر ۶؍ جنوری ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد شہید کردی گئی۔ اور مسلم دشمنی میں اندھے بھارت نے مسلمانوں کے خلاف ایک مستقل محاذ بنا دیا۔ اس دوران میں بھارت میں ہر نوع کی شناخت رکھنے والوں کی حکومتیں آئیں مگر ہندو انتہا پسندی کا رخ ایک ہی رہا اور ہر طرح کی حکومت نے اس سے منہ موڑے رکھا۔ سار ا بھارت ایک ہی زبان اور ایک ہی انداز فکر کا قیدی نظر آیا ۔ بس ان میں فرق صرف تیوروں کا ہے۔ اور تو اور خود غزل گلوکار جگجیت سنگھ نے چند سال قبل ہماری غیرت کو ایک چرکا لگاتے ہوئے کہا تھا کہ غلام علی یہاں بھاگے بھاگے کیوں آتے ہیں ، میں تو کبھی پاکستان نہ جاؤں ! افسوس ناک طور پر غلام علی پھر بھی کھنچے کھنچے بھارت جاتے رہے۔ یہاں تک کہ ممبئی میں اُنہیں اپنا پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ پھر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اُنہیں دسمبر میں دہلی میں پروگرام منعقد کرنے کی دعوت دے ڈالی، جو اُنہوں نے فوراً ہی قبول بھی کر لی۔ یہ شاید ٹھیک ہو کہ سنگیت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ مگر کیا بے غیرتی، بے شرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی؟مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے میں عاطف اسلم ، غلام علی، راحت فتح علی خان ، وینا ملک،حمیمہ ملک اور خورشید قصوری کے درمیان بھارت میں بروئے کار آنے کی سوچ کے حوالے سے کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔ یہ الگ الگ ذہنی صلاحیتوں کے لوگ بھارت کے حوالے سے ایک جیسے ہی کیوں دکھائی دیتے ہیں؟

پاک فوج کے اعلیٰ دماغ بھی اب حب الوطنی کوقوم پرستی کے مرہون ِ منت رکھنا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان سے محبت کے نظریاتی جواز کی تحلیل پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔

دراصل امریکی گرداب سے اُٹھنے والی سرمایہ پرست روشن خیالی کی لہر نے پاکستان کے اندر بھارت کے حوالے سے حقیقی تجزیئے کی راہ روک رکھی ہے۔ جو دراصل پاکستانی کے نظریاتی جواز کی طرف لے کر جاتی ہے۔ پاک فوج کے اعلیٰ دماغ بھی اب حب الوطنی کو قوم پرستی کے مرہون ِ منت رکھنا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان سے محبت کے نظریاتی جواز کی تحلیل پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دراصل ہندو، مسلمان اور پاکستان کو ہم معنی سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوا۔ یہ مفروضہ نہیں بھارت کے روزوشب میں ہر وقت وحشیانہ اور خونی رقص میں محو کرتا بھارتی نقطۂ نظر ہے۔ جسے تقسیم ِ ہند کے بعد ابھی تک کوئی تبدیل نہیں کر سکا۔ اور خورشید قصوری صاحب مزید دس بیس ہزار اور کتابیں بھی لکھ لیں ،یہ تبدیل نہیں ہوگا۔ بس ایک تازہ مثال سامنے رکھیے! خورشید قصوری کے بھارت پہنچنے سے صرف ایک روز قبل ’’ہندو یوداو ہنی‘‘ کے صوبائی صدر سنیل سنگھ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ’’آتنک واد‘‘ (دہشت گردی) کی نرسری قرار دیتے ہوئے یہ کہاکہ ’’آتنک واد کی زبان بولنے والا ہر مسلمان یا تو پاکستان جائے گا، یا اُسے قبرستان میں دفنا دیا جائے گا۔‘‘ ان الفاظ کا تجزیہ کر لیجیے! تاریخی حقائق کی میزان پر بھارت میں رونما ہونے والے تمام واقعات کو اس میں تول لیجیے!بس یہی ایک نتیجہ نکلے گا کہ ہندو پاکستان کو مسلمان کے ہم معنی اور ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ اُنہیں مارتے پیٹتے ، لوٹتے اور تاراج کرتے ہیں۔ اور اس عمل میں ہر سیاسی جماعت ہندو انتہا پسندوں کی معاون ہے اورہر حکومت اُن سے چشم پوشی کرتی ہے۔تنوع کی تہذیب اور سیکولرازم کی شناخت کے جو الفاظ بھارت کے لیے بولے جاتے ہیں وہ کتابوں میں بھی اپنی آبرو نہیں رکھتے۔ حقیقت کی دنیا سے تو اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ محمو ددوریش نے کہا کہ

’’ حدِ آسماں ختم ہو گی تو پرندے کہاں پرواز کریں گے؟ ‘‘

بھارت میں مظلوم یہی سوچتے ہیں اور روز مرتے ہیں!خورشید قصوری کو کتاب کی تقریب رونمائی مبارک ہو!


متعلقہ خبریں


بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود - بدھ 21 اگست 2024

ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور بھارت میں خواتین مسلسل جنسی زیادتیوں اور ہراسگی کا شکار ہو رہی ہیں، روزانہ 86 خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی بھارتی خواتین کی ایک طویل داستان بن گئی، ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور بھارت میں خواتین ...

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

سنی اتحاد کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل وجود - منگل 07 مئی 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔وفاق...

سنی اتحاد کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل

رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال، بھارت میں گوگل پر 16 ملین ڈالر جرمانہ وجود - هفته 22 اکتوبر 2022

بھارت میں مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کے استعمال کے الزام میں گوگل پر 161 ملین ڈالر (13 ارب بھارتی روپے) کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ کمپیٹیشن کمیشن آف انڈیا نے بیان میں الزام عائد کیا کہ گوگل اپنے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے متعدد اسمارٹ فونز، ویب سرچز، برازنگ اور ویڈیو ہوسٹ...

مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال، بھارت میں گوگل پر 16 ملین ڈالر جرمانہ

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر