... loading ...
آخر کیوں خورشید قصوری نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ بھارت جاکر اپنی کتاب کی تقریب رونمائی فرمائیں؟ایک سیاہ رنگ کا پینٹ اُن کی تقریب کے منتظم کے چہرے پر پوٹ دیا گیا۔ اگر خورشید قصوری ہندوؤں کو نہیں جانتے اور اُن کے مذہبی مزاج ِ علم وعمل سے آگاہ نہیں تو اُنہوں نے کتاب میں کیا لکھا ہوگا؟ مگر اس پر تبصرہ کسی اور تحریر پر اُٹھائے رکھتے ہیں۔ ابھی تو محمود دورویش کو پڑھیے !
’’آخری سرحدیں پار کر نے کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟ حدِ آسماں ختم ہو گی تو پرندے کہاں پرواز کریں گے؟ ہوا کے آخری جھونکے کے بعد گُل بوٹے کہاں سوئیں گے؟زمین ہم پہ تنگ ہورہی ہے۔‘‘
کہیں اور یہ ہو نہ ہو ، بھارت کا منظرنامہ یہی ہے۔ جہاں گیت کے بول ، تاریخ کے الفاظ ، مذہب کے ا وراد اور ثقافت کے رنگوں سمیت ہر چیز کو ہندو ، ہندو دیکھنا چاہتے ہیں۔ جہاں آج زمین سب پر تنگ ہورہی ہے۔بھارتی دانشور چیخ اُٹھے ہیں ۔ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ مگر پاکستانی دانشور؟ الامان والحفیظ !
خورشید محمود قصوری کو نہ جانے کیا سوجھی؟ وہ اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں اُتاؤلے اُتاؤلے بھارت پہنچے۔مگر اُن کی تقریب کے منتظم سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر شیوسینا کے جنونیوں نے کالک پوٹ دی۔ وہ اپنے سیاہ چہرے کے ساتھ اُس کتاب کی تقریب میں شریک ہوئے جو یہ تعلیم کرتی ہے کہ انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ سیاہی تقریب کے منتظم کے چہرے پرمَلی گئی یا کتاب کے اس نتیجے پر پھیری گئی۔ خورشید قصوری کی کتاب اِسی ہیر پھیر کا شاہکار ہے۔ غزل گائیک غلام علی کا پروگرام ۹ ؍ اکتوبر کو ممبئی میں شیوسینا کے دباؤ پر منسوخ ہوا۔ ذرا دیر بعد سمجھوتا ایکسپریس کو بھارت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر واپس بلانا پڑا تھا۔ پاکستان کے پاپ اسٹار گلوکار عاطف اسلم کو پانچ ماہ قبل پونے میں اپنا پروگرام منسوخ کرنا پڑا تھا۔ خورشید قصوری یقینا اس سے واقف ہوں گے۔ وہ تازہ تاریخ کے اُن واقعات سے بھی آگاہ ہوں گے جو ۱۹۹۱ء سے ایک بہاؤ میں چلتے چلے آتے ہیں۔اُسی سال شیوسینا نے ممبئی کے ایک اسٹیڈیم کی پچ اس لیے اُکھاڑ دی تھی کی پاک بھارت کرکٹ میچ نہ ہوسکے۔ یہ ہندو ؤں کی مسلم دشمنی کے جنون کا نیا باب جسے آئندہ برسوں میں ورق ورق کھلنا تھا ۔ پھر ۶؍ جنوری ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد شہید کردی گئی۔ اور مسلم دشمنی میں اندھے بھارت نے مسلمانوں کے خلاف ایک مستقل محاذ بنا دیا۔ اس دوران میں بھارت میں ہر نوع کی شناخت رکھنے والوں کی حکومتیں آئیں مگر ہندو انتہا پسندی کا رخ ایک ہی رہا اور ہر طرح کی حکومت نے اس سے منہ موڑے رکھا۔ سار ا بھارت ایک ہی زبان اور ایک ہی انداز فکر کا قیدی نظر آیا ۔ بس ان میں فرق صرف تیوروں کا ہے۔ اور تو اور خود غزل گلوکار جگجیت سنگھ نے چند سال قبل ہماری غیرت کو ایک چرکا لگاتے ہوئے کہا تھا کہ غلام علی یہاں بھاگے بھاگے کیوں آتے ہیں ، میں تو کبھی پاکستان نہ جاؤں ! افسوس ناک طور پر غلام علی پھر بھی کھنچے کھنچے بھارت جاتے رہے۔ یہاں تک کہ ممبئی میں اُنہیں اپنا پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ پھر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اُنہیں دسمبر میں دہلی میں پروگرام منعقد کرنے کی دعوت دے ڈالی، جو اُنہوں نے فوراً ہی قبول بھی کر لی۔ یہ شاید ٹھیک ہو کہ سنگیت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ مگر کیا بے غیرتی، بے شرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی؟مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے میں عاطف اسلم ، غلام علی، راحت فتح علی خان ، وینا ملک،حمیمہ ملک اور خورشید قصوری کے درمیان بھارت میں بروئے کار آنے کی سوچ کے حوالے سے کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔ یہ الگ الگ ذہنی صلاحیتوں کے لوگ بھارت کے حوالے سے ایک جیسے ہی کیوں دکھائی دیتے ہیں؟
دراصل امریکی گرداب سے اُٹھنے والی سرمایہ پرست روشن خیالی کی لہر نے پاکستان کے اندر بھارت کے حوالے سے حقیقی تجزیئے کی راہ روک رکھی ہے۔ جو دراصل پاکستانی کے نظریاتی جواز کی طرف لے کر جاتی ہے۔ پاک فوج کے اعلیٰ دماغ بھی اب حب الوطنی کو قوم پرستی کے مرہون ِ منت رکھنا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان سے محبت کے نظریاتی جواز کی تحلیل پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دراصل ہندو، مسلمان اور پاکستان کو ہم معنی سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوا۔ یہ مفروضہ نہیں بھارت کے روزوشب میں ہر وقت وحشیانہ اور خونی رقص میں محو کرتا بھارتی نقطۂ نظر ہے۔ جسے تقسیم ِ ہند کے بعد ابھی تک کوئی تبدیل نہیں کر سکا۔ اور خورشید قصوری صاحب مزید دس بیس ہزار اور کتابیں بھی لکھ لیں ،یہ تبدیل نہیں ہوگا۔ بس ایک تازہ مثال سامنے رکھیے! خورشید قصوری کے بھارت پہنچنے سے صرف ایک روز قبل ’’ہندو یوداو ہنی‘‘ کے صوبائی صدر سنیل سنگھ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ’’آتنک واد‘‘ (دہشت گردی) کی نرسری قرار دیتے ہوئے یہ کہاکہ ’’آتنک واد کی زبان بولنے والا ہر مسلمان یا تو پاکستان جائے گا، یا اُسے قبرستان میں دفنا دیا جائے گا۔‘‘ ان الفاظ کا تجزیہ کر لیجیے! تاریخی حقائق کی میزان پر بھارت میں رونما ہونے والے تمام واقعات کو اس میں تول لیجیے!بس یہی ایک نتیجہ نکلے گا کہ ہندو پاکستان کو مسلمان کے ہم معنی اور ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ اُنہیں مارتے پیٹتے ، لوٹتے اور تاراج کرتے ہیں۔ اور اس عمل میں ہر سیاسی جماعت ہندو انتہا پسندوں کی معاون ہے اورہر حکومت اُن سے چشم پوشی کرتی ہے۔تنوع کی تہذیب اور سیکولرازم کی شناخت کے جو الفاظ بھارت کے لیے بولے جاتے ہیں وہ کتابوں میں بھی اپنی آبرو نہیں رکھتے۔ حقیقت کی دنیا سے تو اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ محمو ددوریش نے کہا کہ
’’ حدِ آسماں ختم ہو گی تو پرندے کہاں پرواز کریں گے؟ ‘‘
بھارت میں مظلوم یہی سوچتے ہیں اور روز مرتے ہیں!خورشید قصوری کو کتاب کی تقریب رونمائی مبارک ہو!
ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور بھارت میں خواتین مسلسل جنسی زیادتیوں اور ہراسگی کا شکار ہو رہی ہیں، روزانہ 86 خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی بھارتی خواتین کی ایک طویل داستان بن گئی، ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور بھارت میں خواتین ...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔وفاق...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
بھارت میں مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کے استعمال کے الزام میں گوگل پر 161 ملین ڈالر (13 ارب بھارتی روپے) کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ کمپیٹیشن کمیشن آف انڈیا نے بیان میں الزام عائد کیا کہ گوگل اپنے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے متعدد اسمارٹ فونز، ویب سرچز، برازنگ اور ویڈیو ہوسٹ...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...