... loading ...
اس میں شک نہیں کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے اور اﷲ رب العزت دنیاوی سردوگرم کے جواب میں جب انعام یا عذاب نازل کرتا ہے تو اسی زمین کے اسباب کو اس کا ذریعہ بناتا ہے۔ لیکن اسباب پرست افراد یا قومیں فطرت کے اس ردعمل کو محض زمینی اسباب کا شاخسانہ قرار دے کر اس کی نفی کردیتی ہیں اس طرح سے خالق اور مخلوق کے درمیان جزا اورسزا کا جو تعلق قائم ہے، اسے اسباب کی بھول بھلیوں میں گم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کے تمام افکار ہمیں مغربی معاشرے میں ملتے ہیں جو تقریبا گزشتہ نصف صدی سے ایک’’بے خدا‘‘یا لادین معاشرہ بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بائبل میں درج بنی اسرائیل کے خروج مصر کے واقعے سے لی جاسکتی ہے۔ بائبل کے بیان کے مطابق موسی علیہ السلام اور فرعون کے درمیان بنی اسرائیل کی آزادی کے سلسلے میں جو کشمکش ہوئی اس میں اﷲ تعالی کی جانب سے موسی علیہ السلام کی نصرت کے لئے دس معجزات وقوع پزیر ہوئے تھے انہیں مصری قوم پر دس آفتیں Biblical 10 Plagues in Egyptبھی کہا جاتا ہے ۔ان میں سے نو کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے ۔عہد نامہ قدیم (توریت)کے دوسرے باب خروج میں اس کی تمام تفصیل درج ہے۔
اسباب پرست مغربی ماہرین اور سائنسدانوں نے ان آفاقی آفات کے زمینی اسباب کوکس طرح کھوجا اس میں سے کچھ کی تفصیل اس طرح سے ہے کہ جب فرعون نے بنی اسرائیل کو آزادی دینے سے انکار کیا تو دریائے نیل کا پانی خون کی طرح سرخ ہوگیاجس کا مطلب تھا کہ مصری گھروں اور شاہی محل کے استعمال میں آنے والاپانی بھی خون بن چکا ہے۔مغربی ماہرین کے مطابق 1500ق م میں بحیرہ روم میں واقع ایک آتش فشاں پہاڑــSantorini زور دار دھماکے سے پھٹا تھا ۔یہ وہی دور ہے جب مصر پر رعمسیس ثانی کی حکومت تھی اور بنی اسرائیل اس کے دور اقتدار میں غلام تھے۔ اس آتش فشاں نے لاوے کے ساتھ ساتھ راکھ کاطوفان بھی برپا کردیا تھا جو مصر کے آسمان تک چھا گیا تھا اور اس راکھ کے آثار ماہرینِ آثار قدیمہ کو مصر میں بھی ملے ہیں۔مغربی ماہرین کے مطابق زمین کی نچلی سطح پر کچھ ’’پاکٹس‘‘ قدرتی طور پر ہوتے ہیں جس میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جمع ہوجاتی ہے ۔اس قسم کے ’’پاکٹس‘‘ دریائے نیل کی تہہ کے نیچے واقع زمین میں بھی پائے جاتے ہیں جب کسی وجہ سے دریا کے نیچے کی زمین کی نچلی سطح کی پلیٹیں حرکت کرتی ہیں تو یہ گیس خارج ہوکر پانی میں شامل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے پانی کا رنگ خون کی مانند سرخ ہوجاتا ہے اور یہی عمل اس وقت ہوا تھاجب فرعون نے بنی اسرائیل کو آزادی دینے سے انکار کردیا تھا ۔آتش فشانی دھماکے کے بعد بحیرہ روم اور اس کے ساحل سے ملحقہ علاقوں میں شدید زلزلے کی کیفیت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے دریائے نیل کی تہہ کے نیچے ارضیاتی پلیٹں سرک گئیں اور گیس کے پانی میں شامل ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ سرخ ہوگیا ۔
دوسرا عذاب مینڈکوں کی شکل میں سامنے آیا۔مغربی ماہرین کے مطابق چونکہ دریائے نیل کا پانی گیس کی وجہ سے سرخ اورآلودہ ہوگیا تھا اور مینڈک کبھی آلودہ پانی میں نہیں رہتااس لئے اس مقام پر موجود ہزاروں مینڈکوں نے شہر کا رخ کیا اور وہ مصریوں کے گھروں اوران کے برتنوں تک جاپہنچے۔
پھر اسی سے وبائی عذاب کی ایک شکل برآمد ہوئی۔ مغربی ماہرین کے مطابق دریائے نیل کا پانی آلودہ ہوجانے کی وجہ سے دریائے نیل کے مینڈک وہاں سے نکل گئے اور مچھلیاں زیادہ تر مینڈکوں کے انڈے کھاتی ہیں اس لئے خوراک نہ ملنے سے وجہ سے مچھلیاں مرگئیں جبکہ ساحلی علاقوں پر مینڈکوں کی ہلاکت کی وجہ سے وہائی امراض پھوٹ پڑے جس کی وجہ سے مصریوں کے سروں میں جوؤں کی کثرت ہوگئی اس کے ساتھ ساتھ پھوڑے پھنسیاں بھی نکل آئے۔
آگ ،کڑک اور اولوں کا عذاب بھی اسی تسلسل میں آیا۔ آتش فشانی عمل سے جو راکھ آسمان پر پہنچی وہ راکھ اور پانی کا آمیزہ تھا ۔دھماکا خیز کڑک اور دھمک نے مصر کو لرزا دیا تھا اور اس سے نکلنے والی راکھ اور دھویں کے بادل مصر پر چھا گئے تھے جس نے تمام مصر کو اندھیرے میں ڈبو دیا ۔اس آتش فشانی عمل سے موسم میں زبردست تغیر رونما ہوا ۔راکھ آسمان پر بہت بلندی پر تھی جس کی وجہ سے نیچے پانی کے بادل سردی کی وجہ سے جم گئے اور بڑے اولوں کی شکل میں مصریوں پر برسنا شروع ہوگئے ۔یہ ان کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔۔۔۔
ٹڈی کا عذاب اور غلے کی تباہی کے متعلق مغربی ماہرین کہتے ہیں کہ ٹڈی اس وقت زمین پر اترتی ہے جب ہوا کا تناسب انتہائی کم اور خشک ہوجائے۔ ٹڈی اپنے انڈے ریت میں چار سے چھ انچ گہرائی میں دباتی ہے ۔تب موسمی تغیر نے زمین کو بری طرح خشک کردیا تھا اس لئے ٹڈی دل زمین پر اتر آئے اور کسی بھی قسم کا پودا اور درخت سلامت نہ رہا۔۔۔
پہلوٹھی کے لڑکے کی ہلاکت کا عذاب تاریخ میں بہت مشہور ہے۔ مغربی ماہرین کے مطابق اس کے دو سبب ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مصری پہلوٹھی کے بیٹے کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ باپ کے بعد یہی خاندان کا سربراہ بنتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ پہلوٹھی کا بیٹا ہر موسم میں کمرے میں سوتا تھا جبکہ باقی سب اولاد ہمیشہ گھر کی چھت پر نیند لیتی تھی۔ جس وقت دریائے نیل کے پانی میں کاربن ڈائی آکسائیدکی مقدار داخل ہوگئی تو یہ بھاری ہونے کی وجہ سے زمین سے زیادہ نہیں اٹھ سکتی تھی اس لئے جب یہ زہریلی گیس غیر محسوس طریقے سے مصری شہروں میں داخل ہوئی توثقیل ہونے کی وجہ سے سطح زمین پر سونے والے پہلوٹھی کے بیٹوں کی جان لے گئی جبکہ جو بچے اور افراد چھت پر سوتے تھے وہ اس سے محفوظ رہے۔ دوسرا یہ کہ غلہ کے قحط کی وجہ سے بہت تھوڑا محفوظ ذخیرہ مصری خاندانوں کے پاس رہ گیا تھا جو چھوٹے گوداموں میں محفوظ تھا لیکن موسمی تغیر نے اسے بری طرح خشک کرکے زہریلا بنادیا تھا ۔ مصری پہلوٹھی کے بچے کو یہ غلہ کھلانے پر مجبورتھے جس کی وجہ سے وہ بچے ہلاک ہوگئے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ مغربی ماہرین ایسا دعوی بھی کرتے ہیں جس کی ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں موسی علیہ السلام چونکہ بچپن میں مصری شاہی خاندان کے فرد کے طور پر اشرافیہ کی درگاہوں کے فارغ التحصیل تھے اور بہت سے علوم پر دسترس رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے جدید علم کی وجہ سے اس بات کا پہلے سے ہی اندازا تھا کہ جلد ہی جغرافیائی اور موسمی تغیرات رونماہونے والے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اپنے اس علم کی بدولت فرعون مصر کو چیلنج دے دیا اور فرعون کے انکار کے بعد چونکہ ان تغیرات نے رونما ہونا ہی تھا۔ اس لئے فرعون اور اس کا شاہی دربار خوفزدہ ہوگئے۔ اور اسی خوف کی بنیاد پر انہوں نے بنی اسرائیل کو مصر چھوڑنے کی اجازت دے دی۔یہ ہے اسباب پرست مغرب کی وہ تشریح جو اس نے اﷲ کی جانب سے بھیجے گئے عذابوں کے حوالے سے کی ہے۔ ممکن ہے کسی حد تک ایسا ہی ہوا ہو کیونکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اﷲ رب العزت کی یہ سنت ہے کہ وہ زمین کے معاملات زمینی انداز میں ہی نمٹاتا ہے لیکن کہیں کہیں وہ اپنے برگزیدہ نبیوں کی نصرت کے لئے اپنے ہی بنائے ہوئے طبعی قوانین بھی توڑ دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ صرف خالق کے دست قدرت میں ہے مخلوق ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔اسباب پرست صرف اسباب تک محدود رہتے ہیں ان اسباب سے قبل ایک ارادہ خداوندی بھی ہے جو ظواہر کی آنکھ سے دور مگر فراست کی نگاہ سے قریب ہوتا ہے۔ اہل مغرب کی یہ مشکل رہی ہے کہ انہیں سخت زمین اور سرد موسموں کی وجہ سے اسباب زندگی درکار تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسباب زندگی کی تلاش میں طبعی معاملات میں درجہ کمال حاصل کرلیا لیکن اس سے آگے نہ جاسکے جبکہ اہل مشرق کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ جہاں بیٹھتے تھے وہیں سے پانی بھی نکال لیتے تھے اور فصل بھی اگا لیتے تھے اس لئے اسباب زندگی تک ان کی پہنچ مشکل نہ تھی یہی وجہ ہے کہ اہل مشرق نے طبعیات سے زیادہ مابعد الطبعیات کی جانب ذہن دوڑایا۔
آج اگر امریکا اور دیگر دنیامیں تباہی مچانے والے طوفانوں کا اسباب کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو اس کی وجوہات یقینا جغرافیائی اور موسمی تغیرات میں ہی ملیں گی لیکن ارادہ خداوندی پر نظریں جمائے افراد اسباب کی دنیا کے اسیر نہیں ہوتے وہ اس کی وجوہات یقینا انسانی اعمال کی بنیاد میں تلاش کریں گے ان کے نزدیک اسباب محض آلات کی مانند ہیں جو ارادہ خداوندی کی بنیاد پر حرکت میں آتے ہیں۔عاد اور ثمود کی تباہ حال بستیاں اسباب کے آلات سے ہی زیر وزبر ہوئی تھیں اگر انہیں محض ایک آتش فشانی عمل کا نتیجہ قرار دے کر اس کی آفاقیت کی نفی کرنا مقصود ہو تو اسے محض عقل کا اندھا پن کہا جائے گا۔ اﷲ رب العزت نے اسباب عذاب کے طور پر ایک قوم کو دوسری قوم کے لئے بھی استعمال کیا ہے اور اس کی جابجا مثالیں دیگر آسمانی کتب کے علاوہ قرآن حکیم میں بھی بکھری پڑی ہیں۔بابل کے بادشاہ بخت نصر کا بنی اسرائیل پر ٹوٹنا اور انہیں غلام بناکر بابل لے جانا بھی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اگر دنیاوی اسباب میں اس واقعے کی کھوج لگائی جائے تو ایک مکمل سیاسی اور عسکری روزنامے کی ضرورت پیش آئیگی لیکن حقیقت میں اس واقعے کا مرکز ثقل ارادہ خداوندی ہی ہے۔ امریکامیں تباہی کا تازہ واقعہ ایک پیغام عبرت ہے جو قومیں اس غلطی فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہیں کہ دنیاوی طور پر اب ان کا کوئی مقابل نہیں رہا تو انہیں فطرت کی اس تعزیر کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جو ارادہ خداوندی سے نموپاتی ہے۔
مصرکی جیلوں میں قید اخوان کی قیادت نے ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی دینی درس گاہ الازہر کے سربراہ الشیخ احمد الطیب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ثالثی کریں اور ان کی سزائیں معاف کرانے کے لیے مداخلت کریں۔ ریاست کے ساتھ مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اخوان المسلمون کے یوتھ گر...
مصر میں ایک شہری کی دوران نماز سجدے کی حالت میں انتقال کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ،عرب میڈیا کے مطابق یہ واقعہ مصری شہر سموحہ میں پیش آیا جہاں ایک اسٹور میں شہری کی نماز کے دوران روح قبض ہوگئی۔سجدے میں شہری کے انتقال کا واقعہ سی سی ٹی وی میں قید ہوگیا جس میں دیکھا جاسکتا ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
مصر کے سرکاری میڈیا نے آٹھ خاتون میزبانوں کو ان کے موٹاپے کی وجہ سے معطل کردیا ہے۔ مصری ریڈیو اور ٹیلی وژن یونین نے ان خواتین کو ایک ماہ تک اپنی خوراک کم کرنے اور وزن گھٹانے کا عندیہ دیا ہے ورنہ انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ یونین کی سربراہ صفا حجازی نے آٹھ خواتین میزبان ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...