وجود

... loading ...

وجود

پولیس رینجرز تنازع :اشتہار کے جھگڑے نے تنازع کو بھی اشتہاری کر دیا

جمعه 09 اکتوبر 2015 پولیس رینجرز تنازع :اشتہار کے جھگڑے نے تنازع کو بھی اشتہاری کر دیا

rangers & police

وزیر اعلی سندھ مسلسل فرما رہے ہیں کہ کوئی ہے جو رینجرز اور سندھ پولیس کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کی تحقیقات کی جائے گی۔دونوں فورسز ہی صوبے اور خاص طور پر کراچی میں امن وامان کے قیام میں اہم کردارادا کررہی ہیں۔ادھرسندھ رینجرزکےترجمان نے پولیس کی جانب سےاخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کو کراچی میں امن کے خلاف سازش قرار دیاہے۔رینجرزکے بیان کو آسان کیاجائے تومطلب یہ بنتاہے کہ کراچی پولیس نے رینجرز اہلکاروں کے خلاف اشتہار شائع کراکے درحقیقت شہر کا امن خراب کرنے کی سازش کی ہے۔ جبکہ پولیس کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہی اپنے علاقے یا صوبے میں امن کا قیام ہے ۔

سندھ پولیس کے حکام سے جب بات کی گئی تو سرکاری طور پر وجود ڈاٹ کام کو یہی کہاگیاکہ آئی جی صاحب نے ثنا اللہ عباسی صاحب کی سربراہی میں کمیٹی(اب کمیٹی کی شکل اور سربراہی میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے) قائم کردی ہے مگراس نمائندے کے اصرارپر اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پریہ بھی بتایا کہ قانونی طور پر پولیس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ ثنا اللہ عباسی صاحب کی کمیٹی بھی اس میں سے کچھ برآمد نہیں کرسکے گی ۔(اس کی وجہ بھی آگے چل کر واضح ہوجائے گی۔) ذرایع کا کہناہے کہ وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبرسے ملاقات کے بعدنئی کمیٹی بنادی گئی ہے جس کے سربراہ کراچی پولیس کے سربراہ اورایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر کو بنایا گیا ہے اور اراکین میں ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنااللہ عباسی ، ڈی آئی جی ٹریفک امیر شیخ اور رینجرز کا نمائندہ شامل ہیں۔ ذرایع کا کہناہے کہ سب سے پہلے تنازع کی اصل وجہ کا پتہ لگانا ہوگا۔

یہ امر فطری ہے کہ ایک جنگل میں دو شیربیک وقت بادشاہ نہیں بن سکتے مگر کراچی میں دو سے زائد فورسز کو چھاپوں اور گرفتاریوں کا اختیار ہے بلکہ بعض فورسز کودوسری فورس پر بھی چھاپے مار کر گرفتار کرنے کی چھوٹ بھی ملی ہوئی ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، اورنگی ٹاؤن میں ہی رینجرز اہلکار ایک پولیس اہلکار کا پیچھا کرتے ہوئے مومن آباد تھانے میں داخل ہوگئے تھے اور اسے زبردستی اٹھا کر لے گئے ۔پولیس اہلکاروں نے اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے کےلیے مزاحمت بھی کی تھی ۔ بارہ جون کو پیش آنے والے واقعے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایس پی اظفر مشیر نے کہا تھا کہ رینجرز اہلکاروں نے ایس ایچ او کی موجودگی میں پولیس اہلکار محمد عرف جانو کو تھپڑ مارے اور پولیس کے متعلق توہین آمیززبان بھی استعمال کی گئی انہوں نے کہاکہ وہ رینجرز کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کریں گے اس واقعے میں وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مداخلت کی اور بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر پولیس افسران اور اہلکاروں کےدل میں یہ واقعہ پھانس بن کر چبھ گیا۔ ذرایع کہتے ہیں کہ اشتہارات کا واقعہ اس کا ردعمل بھی ہوسکتاہے۔

رینجرز ترجمان کا کہناہے کہ وہ پولیس کی جانب سے اشتہار کی اشاعت کےخلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں ۔ اس پر جب قانونی ماہرین سے پوچھا گیاکہ قانون کی کس دفعہ یا شق کےتحت کارروائی کی جاسکے گی تو ان کا کہناتھاکہ پولیس نے انتہائی پُر کاری اور تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ اشتہارات شائع کرائےہیں۔ کوئی بھی شہری اپنے عزیز کی گمشدگی یا اغواکی ایف آئی آر درج کراسکتاہے۔ اس کےلیے عدالتیں بھی شہری کے حق میں ہی احکامات جاری کرتی ہیں ۔ایف آئی درج ہونے کے بعد پولیس کے لیےلازم ہوجاتاہے کہ وہ قانونی کارروائی کرے چاہے سست رفتارہی کیوں نہ ہو۔گمشدگی کی ایف آئی ردرج ہونے کے بعد بائیس اے اور بی کی کارروائی کے تحت پولیس افسراپنے فرائض انجام دیتی ہے جس کے مطابق اخبار میں اشتہار دیا جا سکتاہے۔ مذکورہ واقعے میں ایس پی انویسٹی گیشن لطیف صدیقی نے بھی محکمہ اطلاعات سندھ کو اشتہار کی اشاعت کےلیےکورنگ لیٹر فراہم کیا ۔سینئر صوبائی وزیر اطلاعات وتعلیم نثار کھوڑو نے تصدیق کی ہے کہ ایس پی کے کورنگ لیٹر کے بعد ہی محکمہ اطلاعات نے اشتہار جاری کیا ۔ ذرایع کا کہناہے کہ ایس پی کی سطح کا افسر بغیر پڑھے تو کورنگ لیٹرپر دستخط کرکے نہیں دے گااس لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ انہوں نے نادانستہ طور پر لیٹر بھیج دیا انہوں نے اپنا قانونی حق استعمال کیا اور اس سے اُنہیں کوئی نہیں روک سکتاتھا۔

قانونی ماہرین کاکہناہے کہ بظاہر تو رینجرز کے تشخص کو خراب کرنے اوراسے بدنام کرنے کے الزام میں ہرجانے کا دعوی کرنے کے سوا کوئی قانون ایسا نہیں کہ پولیس کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جاسکے۔ رینجرز ترجمان یہ کہتے ہیں کہ یہ امن خراب کرنے کی سازش ہے تو پھر اس سازش کو ثابت کرنے کےلیے جس قدر مشقت کی ضرورت ہے وہ ناممکن کی حدود کو چھوتی ہے۔

پولیس ذرایع کا یہ بھی کہناہے کہ رینجرز کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے جس طرح نوے دن کا ریمانڈ لے لیتی ہے۔ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی )نے بھی اسی طرح گرفتار ملزمان کا نوے روزہ ریمانڈ لینا شروع کردیاہے۔ جس پر رینجرز اور پولیس کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے۔ اب اگر سی ٹی ڈی کے سربراہ ثنااللہ عباسی اس کمیٹی کے سربراہ رہتے تو شاید وہ اپنے محکمے کو اس جنگ میں سرنگوں نہ ہونے دیتے ۔ ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو مشتاق مہر کی سربراہی سے بدلنے کی پشت پر بھی یہی وجہ بتائی جاتی ہے۔ وجود ڈاٹ کام کو اپنے ذرایع سے پتا چلا ہے کہ یہ تبدیلی وزیراعلی اور ڈی جی رینجرز کی ملاقات کے بعد عمل میں آئی ہے ۔

زیادہ وقت نہیں گزرا، اورنگی ٹاؤن میں ہی رینجرز اہلکار ایک پولیس اہلکار کا پیچھا کرتے ہوئے مومن آباد تھانے میں داخل ہوئے اور اسے زبردستی اٹھا کر لے گئے تھے۔

سندھ حکومت کی اعلی شخصیت کے قریبی ذرائع کے مطابق رینجرز کے حوالے سے پیپلزپارٹی میں تحفظات پائے جاتے ہیں اور اس معاملے میں ان کی ہمدردیاں پولیس کے ساتھ ہیں۔ کراچی میں امن وامان کا کریڈٹ وہ رینجرز کو نہیں دیتی بلکہ وہ پولیس کو برابر کا حصے دارسمجھتی ہے ۔پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے مقتدر ادارے کے حوالے سے پشاور میں کی گئی اپنی متنازع تقریر سے پہلے کراچی میں رزاق آباد پولیس ٹریننگ کالج میں خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاتھاکہ کوئی دعوی نہ کرے کہ اس نے امن قائم کیا ،یہ پولیس ہے جس کے دم سے شہر اور صوبے امن قائم ہو اہے ۔ مئی کے مہینے میں زرداری کے خطاب نے واضح کردیا تھاکہ وہ رینجرز کے بجائے پولیس کو اہمیت دینا چاہتے ہیں ۔اگلے دنوں میں مقتدر اداروں سے کشیدگی نے ثابت کردیا کہ وہ پہلے ہی حالات کا اندازا کرچکے تھے۔ اگرچہ وفاق کے دباؤ پر سندھ حکومت بھی رینجرز کے ساتھ ورکنگ ریلیشن رکھنا چاہتی ہے مگر سندھ کے حکومت مخالف بعض حلقوں کا کہناہے کہ تحقیقات میں اس معاملے کودبانے کا پروگرام تھاجسے رینجرز نے فی الحال ناکام بنا دیا ہے ۔

اب سوال یہ ہے امن وامان کے قیام کے ذمہ دار دو اداروں کے درمیان کشیدگی کسی طوفان کا پیش خیمہ بنے گی یا پھر معاملات جو ں کے توں چلتے رہیں گے ۔۔اور سندھ حکومت کا اس جنگ میں کیا کردار ہوگا؟اس کے جواب جو بھی ہو مگر اس حقیقت پر ابھی بہت کم لوگوں کی نظریں ہیں کہ اشتہاروں کے اس کھڑے کیے گیے کھڑاگ کا نتیجہ جو بھی نکلے مگر اس سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی جلدی ممکن نہ ہو۔ ہر سال بعض قوتوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں میں پاکستان کے خلاف لاپتہ لوگوں کا مقدمہ زور شور سےسامنے لایا جاتا ہے۔قانونی ماہرین کےمطابق ان اشتہارات سے اب یہ ثابت کرنا کچھ زیادہ مشکل نہ رہے گا کہ یہ کام اصل میں قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے ہی کرتے ہیں۔ اس لیے ان اشتہارات کے بھیانک نتائج بہت دور تک جاتے ہیں۔ جسے قومی اداروں کو نہایت ہوشمندی سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کسی نوع کے تنازعات کو ہوا دینے کا مطلب عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر خطرناک فضا پیدا کرنے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر