... loading ...
آٹھ اکتوبر زلزلے کو دس برس بیت گئے، مگر غم ابھی تازہ ہے۔کوئی بھی بحران ایک زندہ قوم کے لیے زندگی کے نئے امکانات لے کر آتا ہے۔ وہ اِسے محض گریہ وزاری میں ضائع نہیں کرتی۔ سال 2005ء میں آنے والے اس زلزلے نے دنیا کے بڑے المیوں میں سے ایک کو جنم دیا تھا۔ یہ اس سال دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ اور تاریخ پاکستان کا سب سے بڑا زلزلہ تھا۔
اٹلی میں 1908ءمیں زلزلے نے 83 ہزار افراد نگل لیے تھے۔دنیا کی تاریخ کے بدترین زلزلے چین میں آئے۔ جہاں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 1927ء میں چین میں دو تباہ کن زلزلےآئے جس میں سے ایک میں 80ہزار افراد اور دوسرے زلزلے میں دولاکھ افراد زندگی ہار گئے۔ پھر جولائی 1976ء میں ایک اور لرزہ خیز زلزلے نے ڈھائی لاکھ افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے تھے۔1923ء میں جاپان کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔انڈونیشیا میں دسمبر 2004ء میں زیرسمندر زلزلہ آیا جس سے سونامی کی لہریں اُٹھیں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہا لے گئیں۔پاکستان میں آنے والا سال 2005ء کا زلزلہ انسانی المیے کے اعتبار سے اسی فہرست میں آتا ہے جس میں سب سے زیادہ ہلاکتیں آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوئیں جو سرکاری اعداوشمار کے مطابق74698 تھیں۔ مگر آزاد ذرایع کے اندازوں کے مطابق اس میں مجموعی طور پر ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ کے ہندسے کے آس پاس تھیں۔
دنیا میں زلزلوں سے آنے والی تباہیوں کی تاریخ نہایت بھیا نک ہے۔ مگر دنیا میں زلزلوں کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافے کی تاریخ بھی اتنی ہی شاندار ہے۔ انسان، تدبیر کے سامان سے ہی تقدیر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ آخری فیصلہ پھر تقدیر ہی جاری کرتی ہے۔ مگر انسان اپنے شعور کے ساتھ اپنی تدبیر آزمانے کا پابند ہے اور دنیا میں یہ کوششیں انتہائی سرعت اور نہایت بالغ نظری سے جاری ہیں ۔ مگر پاکستان کا المیہ زلزلے سے بھی بڑا یہ ہے کہ یہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قومی شعور و آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آٹھ اکتوبر پاکستانی تاریخ کا اس حوالے سے سب سے بڑا دن بن سکتا تھا مگر آج بھی یہ محض کچھ دیے جلانے اور تقریبات منعقد کرنے کا دن ہے۔ اور وہ جاری بھی ہیں۔ مگر اس دن کے تقاضے اس سے بڑھ کر ہیں۔
پاکستان میں آٹھ اکتوبر2005ء کو آنے والے زلزلے میں اس قوم نے اپنی زبردست قوتِ حیات دریافت کی تھی۔ مملکت کی سرزمین کے سارے راستے حادثے کی جانب مڑ گئے تھے۔ قوم ایک جھرجھری لے کر بیدار ہوئی تھی۔ غم سے غم کے مارے دیکھے نہ جاتے تھے۔ درد کا رشتہ کتنا بڑا ہوتا ہے اس کا نظارہ چہار سوبکھرا ہوا تھا ۔ جہاں سے غمگسار کھنچے کھنچے اپنے دکھی بھائیوں کے پاس چلے آتے تھے۔ اگرچہ تب اس ملک کے امراء وروساء نے ایثار کی اعلیٰ مثالیں قائم کر دی تھیں اور فراخدلی کی ناقابلِ فراموش روایتیں قائم کی تھیں۔ مگر اس سے بھی شاندار بات یہ تھی کہ اس ملک کے غرباء اور درمیانی درجے کے لوگ بھی ایثار میں سب سے آگے تھے۔جس کے پاس جو کچھ تھا وہ اس کو اپنے دکھی بھائیوں کے ساتھ تقسیم کرنے کو تیار تھا ۔ یہ غم بانٹنے کا شاندار مظاہرہ تھا۔ حکومت اور نظم اجتماعی کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم پر آنے والے ایسے بحرانوں میں اس کی قوتِ حیات کو دریافت کرتی ہے اور اِسے ایک سمت دے کر مستقل بندوبست میں ڈھالتی ہے۔ تب یہ موقع تھا کہ قومی شعوراور ایثار کو زندگی کی سچائیوں کی طرف موڑکر شاندار قومی خدمت کے اعلی نصب العین میں ڈھال دیا جاتا۔مگر یہ پاکستان کا بدقسمت ترین دورِ حکومت تھا جہاں پرویز مشرف کی حکومت تھی اور اُنہوں نے نئے آنے والے نجی ذرائع ابلاغ کے سب سے موثر ذریعے ٹیلی ویژن کے میزبانوں کے لیے یہ “زبانی”ہدایت جاری کردی تھی کہ زلزلے کے مذہبی اسباب پر بات کرنے سے مکمل گریز کیا جائے۔ یہ امریکا کی مکمل باجگزاری کا زمانہ تھا ۔امریکا افغانستان میں ایک غرور کے ساتھ آدھمکا تھا اور اب اُس کی نئی لڑائی میں مذہبی عناصر کو اُن کے مذہبی جذبات سمیت لپیٹنا شامل تھا۔ یہ اُس دور کا سب سے مضحکہ خیز پہلو تھا کہ یہاں امریکا کی تقدیس کے لیے نئی نئی کتابوں کے تراجم کیے جارہےتھے اور ایک منصوبے کے تحت اس پر غور کیا جارہا تھا کہ امریکا مخالف کتابوں کی فروخت کو کس طرح روک دیا جائے۔ یہ کام امریکا خود امریکا میں نہیں کر پارہا تھا ،مگر اس کے “برخوردار” یہاں کرنے کے لیے تیار تھے۔ مشرف حکومت تب لبرل ازم اور سیکولر ازم کی کوکھ سے جنے گئے نئے نئے بچوں کو روشن خیالی اور آزاد روی کی لوریاں سناتے پھرتے تھے۔ جہاں موقع ملے ،کتے پکڑ کر تصاویر کھنچواتے تھے۔ کہیں مشروب پکڑ کر رقص کے نئے زاویے بھی بُن لیتے تھے۔ ایک نئی دنیا کے طور پر کچھ من چلوں کو یہ سب اچھا بھی بہت لگتا تھا۔ مگر زندگی کی آفاقی سچائیوں سے یہ منہ موڑنےکی بدترین روش تھی۔ جس کے باعث افسوس ناک طور پر قومی بیداری کا وہ سنہری موقع ضائع ہو گیا۔ ایثار کی تمام مثالیں انفرادی بن گئیں اور یہ کسی بھی قومی تعمیر کے مستقل منصوبے میں نہیں ڈھل سکیں ۔ عوام کا ریاست کے کردار پر اعتبار مزید کمزور ہو گیا۔ اور اہلِ خیر نے یہی سمجھا کہ کسی کی خدمت انفرادی طور پرہی زیادہ قابلِ اعتبار طریقے سے کی جاسکتی ہے۔ اگر ریاست اپنے دیانت دار ہونے کا کوئی بھی تاثر قائم کرنے کی اہل ہوتی تو آج وزیراعظم آزاد کشمیر ابھی تک کھلے آسمان تلے پڑے ڈیڑھ لاکھ بچوں کے لیے فکرمندی کا اظہار نہ کر رہے ہوتے۔ افسوس ناک طور پر انسانی المیوں کے حوالے سے بھی ہماری حکومتوں کے وعدے سیاسی ثابت ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنے وہ وعدے بھی پورے نہیں کرتی جو اس کی ذمہ داریوں سے کم تر ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں زلزلے کے بعد لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے جس کے لیے پاکستانی حکومت نے کچھ وعدے کیے تھے۔ مگر وہ وعدے ابھی تک ایفاکا روپ نہیں دھار سکے۔ دس برس بعد بھی اگر قدرتی آفات سے متاثر لوگ وعدوں پر جی مر رہے ہوں تو ایسی حکومتوں پر کسی آسمانی قہر کے ٹوٹنے کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...