... loading ...
رات کی محیط تر تاریکیوں میں بھی اُن کی آواز روشنی کا کام دیتی ہے۔ دنیائے انسانیت میں دوسرا کوئی بھی نہیں، بخدا کوئی بھی نہیں!وہ کچھ نہ بولتے تھے، جب تک کہ اُن کے دل پر الہام بسیرا نہ کر لے یا القا کی چادر تن نہ جائے۔ مگر کیوں ، کیوں خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الھم حقائق الاشیاء کما ھی
(اے میرے رب مجھ پر مظاہر کی حقیقت ویسے ہی کھول دے، جیسی کہ وہ فی الواقع ہے)
ظاہر کتنا بڑا دھوکا ہے۔ اندیشوں اور وسوسوں سے دوچار دل اور حواس خمسہ کا قیدی دماغ ، کیسے فیصلہ کریں، جب ایک مصنوعی دنیا گردوپیش بن جائے۔ یوں ہی بس ایک خیال سا آتا ہے کہ انسان ظاہر کا فیصلہ بھی حاضر حقیقتوں کے ذریعے کرنے سے عاجز ہے تو وہ غائب پر کیسے فیصلہ کر سکتا ہے؟ مگر یہ ’’بیچارے‘‘ عقل کے مارے کیا کریں؟ اب دیکھیں کیسے انکشافات ہیں جو روز کراچی میں ہوتے ہیں مگر قومی دانش گھاس چرتی ہے اور کوئی سوال نہیں اُٹھاتی؟
اس سے ذرا قبل تمہیداً مصطفی اکیول کی کتاب کے اوراق اُلٹتے ہیں جو مسلم معاشروں میں شدت پسندی کے مظاہر کا جائزہ لیتا ہے اور آشکار کرتا ہے کہ یہ شدت پسندی جسے اسلام کے طفیل سمجھا گیا ، دراصل وہاں پہلے سے موجود قبائلی روایات کے باعث تسلسل سے چلی آتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک دفاع ہے مگر پھر بھی معذرت خواہانہ ، کہ تشدد انسانی نفسیات کے اندر انسانی معاشروں کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ ایک ہی طریقے سے موجود ہے اور ایک ہی طرح کی تاریخ بھی رکھتا ہے۔ مگر چھوڑیئے! وہ امریکا کے سدا بہار اداکار الپچینو کا ایک زبردست فقرہ ہمیں کتاب کے آغاز میں پڑھواتا ہے کہ
’’کوئی بھی چیز وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے۔‘‘
کیا یہ ایک سرسری سی بات ہے جسے قومی دانش نے نظر انداز کیا۔ سندھ رینجرز کا اعلامیہ ہماری قومی بصیرت وبصارت کا ہی نہیں اجتماعی دیانت کا بھی جنازہ ہے۔گزشتہ دنوں سندھ رینجرز نے اپنے ایک اعلامیے میں یہ انکشاف کیا کہ گلشنِ معمار سے اکبر حسین اور کونین حیدر رضوی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ رینجرز کے دعوے کے مطابق اکبر حسین ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا ایک اہدافی قاتل( ٹارگٹ کلر) ہے۔ جس نے رضا حیدر اور ساجد قریشی نامی ایم کیو ایم کے ہی دو اراکین اسمبلی کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ اُس کی دیگر وارداتوں کی تفصیلات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُس نے ہی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے انتخابی کیمپوں پر بموں سے حملے کیے۔ لیکن ان تمام کارروائیوں کی خاص بات کیا ہے؟ دراصل یہ تمام کارروائیاں وہ ہیں جس کے بعد کسی بھی تاخیر کے بغیر طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اور اس پر پورے پاکستان میں ایک خاص ماحول بنا یا گیا تھا۔ تب ان ہی سطور میں قارئین کو بار بار ، بتکرار اور بصد اصرار یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ طالبان کی طرف سے ذمہ داری لینے کا پورا نظام مشکوک ہے اور ان کارروائیوں کی قبولیت کے پورے عمل میں ایک خطرناک سازش موجود ہے۔ مگر تب دانشوروں کے پیٹ میں ایک اور مروڑ اُٹھا ہوا تھا۔ اور وہ اس پورے مصنوعی ماحول کی تخلیق میں ملک کی خدمت کے نام پر نامعلوم کن کی خدمت کررہے تھے؟ذرا واقعات کی تفصیلات پر غور کریں تو اندازا ہو کہ کس طرح قوم کو ایک مصنوعی بخار اور نفرت کی آگ میں دہکایا گیا۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی رضا حیدر کو کراچی کے ایک معروف علاقے ناظم آباد میں ۲؍ا گست ۲۰۱۰ء کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ تب پولیس نے رضاحیدر کے قاتلوں کی تلاش میں کوئی خاص گرمجوشی نہیں دکھائی تھی۔ اگرچہ تب بھی اُن کے پاس ایک ایسابصری فیتہ (ویڈیو فوٹیج) موجود تھا جس میں واضح طور پر جائے واردات سے ذرا دور اور غالب لائبریری کے پاس ایک موٹر سائیکل اور سفید کار میں سوار کچھ ملزمان کو دیکھا جاسکتا تھا جو گاڑیاں چھوڑ کر ویگنوں میں فرار ہورہے ہیں۔ بعد ازاں پولیس نے بھی دعویٰ کیا کہ رضا حیدر کے قاتل ایک موٹر سائیکل اور سفید کار میں ہی سوار تھے۔اب ذرا دیکھیے! کسی قتل سے بھی کہیں زیادہ منظم ذہن اس قتل کی ذمہ داری کہیں پر منتقل کرنے کے لیے کیسے بروئے کار آتا ہے؟
رضا حیدر کے قتل سے پہلے حملہ آوروں نے اﷲ اکبر کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ مقتول ایک خاص فرقہ وارانہ پس منظررکھتا تھا۔ اس لیے یہ نعرہ قتل کی اس واردات کو ایک مخصوص خانے میں ڈالنے اور اس کی تفتیش کو غلط سمت پر موڑنے کے لیے قاتلوں کی جانب سے ایک زبردست چال تھی۔ چنانچہ بہت آسانی سے اس واردات پر پولیس کی جانب سے لشکری جھنگوی نامی تنظیم کا نام ثبت کر دیا گیا۔جو کسی بھی واردات کے بعد صرف مکھی پر مکھی مارنے کے علاوہ اور کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور متعدد واداتوں کی تحقیقات میں وہ ایسے قاتلوں کو پیش کرتی رہی ہے جو واردات سے قبل ہی اُن کی تحویل میں رہے ہوتے ہیں۔ اب ذرا یہ بھی دیکھیے کہ اس واردات کے بعد شہر کراچی کے ساتھ کیا ہوا؟ کراچی کو تین روز تک ہنگاموں کا شکار رکھا گیا۔ جن میں پچاس کے قریب افراد قتل کر دیے گیے۔ رضاحیدر کے قتل میں تو کوئی فرقہ واریت ثابت نہیں ہوئی مگر اس ردِ عمل کی لہر میں ہونے والی قتل وغارت گری میں فرقہ واریت پوری طرح موجود تھی۔ لطف کی بات یہ تھی کہ اس قتل کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ۔ رضا حیدر کے قاتل کی طرح دس روز قبل ہی رینجرز نے ایک اور قاتل کو گرفتار کیا تھا ، اُس کا تعلق بھی متحدہ قومی موومنٹ سے تھا ، رینجرز نے اپنی تفتیش میں یہ انکشاف کیا کہ مذکورہ قاتل نے ہی جنوری ۲۰۱۳ء میں ایم کیو ایم کے ایک اور رکن اسمبلی منظر امام کو قتل کیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُن کے قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی تھی۔ اب تازہ انکشافات کی روشنی میں رینجرز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ منظر امام کا قتل بھی طالبان نے نہیں ، بلکہ متحدہ قومی موومنٹ نے کیا ہے۔
کچھ یہی ماجرا رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی کا ہے۔ساجد قریشی کو اُن کے پچیس سالہ بیٹے کے ہمراہ ۲۱؍ جون ۲۰۱۳ء کو نارتھ ناظم آباد میں ہی قتل کر دیاگیا تھا۔ ساجد قریشی کو ابھی انتخابات میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے صرف ایک ماہ ہوا تھا اور وہ نمازِ جمعہ پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ان کے قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے ’’خوش دلی‘‘ سے قبول کی تھی۔ تب پورے ملک میں اس دلیل کو بہت فروغ دیا گیا کہ طالبان کا کوئی مذہب نہیں، وہ مسجد سے باہرنکلنے والوں کو بھی نہیں بخشتے۔ اب رینجرز کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کا قتل بھی ایم کیوایم نے کیا ہے، کسی اور نے نہیں۔ یہاں یاد رہنا چاہیے کہ ساجد قریشی کے قتل کے صرف ایک ماہ بعد پولیس کے کرائم انوسٹی گیشن محکمے (سی آئی ڈی) کی حراست میں کالعدم تنظیم کے ایک مبینہ کارکن کی ہلاکت پر اس کی جواب دہی کے بجائے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ساجد قریشی کے قتل میں ملوث تھا۔ طالبان کے نام پر پولیس نے شہرکراچی میں نامعلوم کتنے ہی بے گناہوں کو کسی تفتیش وتحقیق کے بغیر موت کی نیند سلا دیا۔ آج تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔
اُن ہی دنوں انتخابات کے گرم ماحول میں ایم کیوایم یہ دعویٰ کررہی تھی کہ وہ طالبان کی زد پر ہے ۔ کیونکہ وہ ایک سیکولر جماعت ہے۔ تب ۲۰۱۳ء کے عام انتخابات سے قبل ایم کیوایم کے آٹھ انتخابی کیمپوں پر حملے ہوئے تھے جس میں متحدہ کے بے گناہ کارکن ہلاک وزخمی بھی ہوتے رہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی طالبان نے پورے خشوع وخضوع کے ساتھ قبول کی ۔ مگر اب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ تمام حملے بھی کسی اور نے نہیں خود متحدہ کے اہدافی قاتل اکبر حسین نے کیے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دانشوروں کی فوج ظفر موج اس پر خاموش کیوں ہے؟ وہ ایک مخصوص متعصبانہ ماحول کے فروغ میں شریک ہونے پر کسی ندامت کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہے؟
اگر صرف ان ہی وارداتوں کو ایک پیمانہ بنا کر حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے گردوپیش میں ہونے والے اکثر واقعات دراصل ایک زبردست فریب کاری سے پیدا کیے گیے ہیں۔ اس میں ایک خاص نوع کی روش کو ’’حب الوطنی‘‘سے منسلک کرکے دراصل مخصوص لوگوں کو اہداف بنانے کا قومی جواز ایسے تراش لیا گیا ہے کہ اس پر کسی قانون کے آگے جواب دہی کا مسئلہ باقی نہ رہے۔ یہ چند واقعات نہیں، بلکہ اکثر معاملات کچھ اسی نوع کے ہیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم جواز جوئی کی فریب کاری کے اس جدید میکانیکی عمل کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اپنے اپنے تعصبات کے اسیر رہتے ہیں۔یہ خوامخوہ نہیں کہا گیا کہ کوئی بھی چیز وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے اور الفاظ کو معانی دینے والے سرکار دوعالم ﷺ کا یہ فرمان کتنے جہان معانی کھولتا ہے کہ
’’اے میرے رب مجھ پر مظاہر کی حقیقت ویسے ہی کھول دے، جیسی کہ وہ فی الواقع ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا آج ہم پچھتا رہے ہیں، ہم حکومت چھوڑ دیں یہ کہنا بہت آسان ہے جو بھی وعدے ہم سے کیے گئے پورے نہیں ہوئے۔ ایک انٹرویو میں وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ جو مسائل آ رہے ہیں اس کی وجوہات ب...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما کامران خان ٹیسوری سندھ کے اچانک گورنر تعینات کر دیے گئے۔ گورنر سندھ کے طور پرعمران اسماعیل کے استعفے کے بعد سے یہ منصب خالی تھا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد مرکز میں پی ڈی جماعتوں کو حمایت دینے کے ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
یہ تصویر غور سے دیکھیں! یہ عمران فاروق کی بیوہ ہے، جس کا مرحوم شوہر ایک با صلاحیت فرد تھا۔ مگر اُس کی "صالحیت" کے بغیر "صلاحیت" کیا قیامتیں لاتی رہیں، یہ سمجھنا ہو تو اس شخص کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ عمران فاروق ایم کیوایم کے بانی ارکان اور رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ اُس نے ایم کیوای...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ عمران نے پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ نے ان کے شوہر کو بھلا دیا ہے۔ متحدہ کے شریک بانی ڈاکٹر عمران فاروق کی 12ویں برسی پر شمائلہ عمران نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ یا رب میرے لیے ایسا دروازہ کھول دے جس کی و...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں کامران ٹیسوری کی ڈپٹی کنوینئر کی حیثیت سے بحالی پر کئی ارکان ناراض ہوگئے، سینئر رہنما ڈاکٹر شہاب امام نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ ڈاکٹر شہاب امام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو میرا تحریری استعفیٰ جلد بھیج دیا جائیگا۔ انہوں نے...