وجود

... loading ...

وجود

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

بدھ 07 اکتوبر 2015 سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

mina-stampede3

ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ بھی شروع کر دی ہے۔ یہ رائے قائم کرنے میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا ہے ، کیوں نہ ذرا ان کے اپنے کردار کا بھی تھوڑا سا جائزہ لے لیا جائے۔

ایک صاحب ہیں جو ہر محفل میں خود کو اسلام آباد کے با خبر صحافی کہلانے پر بضد ہوتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ ذیابیطس کے باعث ان کی نظر کمزور ہے اس لئے عینک لگاتے ہیں جب کہ احباب کا خیال ہے کہ ان کی نظر ان کی بد اعمالیوں کے باعث کمزور ہوئی ہے ۔ جب لاہور میں ہوتے تھے تو کمال کیا کرتے تھے ۔کسی تھانے سے موبائل وین مانگ کر ملتان روڈ پر جا کر سڑک کے کنارے کھڑے ہوجاتے اور جعلی ٹریفک مجسٹریٹ بن کر آنے جانے والے ٹرکوں اور ویگنوں کے (جعلی) چالان کیا کرتے تاکہ اپنی غربت مٹانے کا کچھ سامان ہو۔ وہ تو ایک دن اصلی مجسٹریٹ نے دھرلیا تو بھانڈا پھوٹ گیا ۔ احباب کی محفلوں میں بیٹھے اکثر اپنی جنسی فتوحات کے واقعات مزے لے لے کر بیان کرتے پائے جاتے ہیں لیکن اُسی سانس میں اپنے حج اور عمروں کی تعداد کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولتے تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ لیکن پوری گفتگو میں یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ ان دونوں کارناموں میں سے وہ کس بات پر فخر کر رہے ہوتے ہیں ؟ لیکن وہ کیا ہے کہ نظر کمزور ہے۔ حالانکہ ان کی گفتگو سن کر یہی لگتا ہے کہ موصوف کا کردار بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ موصوف کی گفتگو سن کر اکثر ایسے لگتا ہے کہ اپنے دن کا آغاز رب ذوالجلال کو نہیں بلکہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو سجدہ کر کے کرتے ہیں۔

سانحہ منیٰ کے بعد موصوف نے اپنے ٹی وی پروگرام میں کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس (مبینہ) سعودی شہزادے کی ایسی کی تیسی کر دی جو ایرانی بھائیوں کے ابتدائی طور پر جاری کردہ پروپیگنڈے کی پہلی قسط کے مطابق شیطان پر کنکریاں مارنے اپنی گاڑی میں بیٹھ کرآیا تھا اور اس کے لئے ٹریفک روکنا سانحہ منیٰ کا باعث بنا۔ موصوف کی دریدہ دہنی، کذب بیانی اور یاوہ گوئی جب تمام حدود پار کر گئی تواسی تحریک پر ہمیں اپنا لیپ ٹاپ نکال کر متعلقہ ویڈیو تلاش ہی کرنا پڑی جو موصوف اپنے پروگرام میں دکھا دکھا کر جھوٹ بول رہے تھے۔ مذکورہ ویڈیو پر تاریخ ترسیل سال ۲۱۰۲ ء لکھی ہوئی تھی۔ لگتا ہے یو ٹیوب والے بھی یا تو بک گئے یا پاکستان کے اس عظیم صحافی کے خلاف سازش کر گئے ۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں اس واقعے پر بے ہنگم تقریر فرماتے ہوئے جو ویڈیو موصوف چلا رہے تھے، وہ تین سال پرانی اور عام دنوں کی تھی یعنی حج کے دنوں کی نہیں تھی۔ لا حول ولا قوۃ۔۔۔

اگر آپ کو یاد ہو تو خود کو باخبر کہنے والے یہ وہی صاحب ہیں جومنی لانڈرنگ کے مقدمے میں نامزد پاکستانی سپر ماڈل ایان علی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اخلاق اور قانون کی تمام حدود پار کر گئے تھے۔ انہوں نے اپنے پروگرام میں یہ خبر ’’بریک ‘‘ کی تھی ،ایان علی کم از کم چھ ماہ کی حاملہ ہیں۔ اس الف ننگی گفتگو کا پیمرا یا اس طرح کا کوئی اور ادارہ نوٹس کیوں اور کیا لیتا کہ لوگ تو زبان کا چسکا مانگتے ہیں۔ لیکن اگر موصوف کی بات مان لی جائے تو سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ اب توموصوفہ کو اس مقدمے میں ملوث ہوئے کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ تو ان کی دی گئی ’’اندرونی خبر ‘‘ اب باہر بھی تو آجانی چاہیے۔ لیکن موصوف بھی دھواں دھار پروگرام کئے جا رہے ہیں، ایان بھی دھڑادھڑ تاریخیں بھگت رہی ہے اور ابھی تک کوئی بھی ’نتیجہ‘ منصہ شہود پر نہیں آیا۔ موصوف نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ایان علی کسی کو اپنی لکھی گئی ڈائری کے اوراق بھی بھجوا رہی ہے جو امانتاً کسی کے پاس ہیں ،لیکن ان کی رسائی میں ہیں اور وہ ان یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی چھپوائے گی۔لیکن کتاب تو کیا ڈائری ہی سرے سے غائب ہو گئی ہے۔

یار لوگوں نے بعد میں خبر دی کہ دو ارب روپے روزانہ کی دیہاڑی لگانے والی سابق سرکار نے موصوف کو حکم دیا تھا کہ لانچوں اور گھروں میں پکڑے جانے والے اربوں روپے کی خبروں سے توجہ ہٹائی جائے۔ تو موصوف نے یہ ڈگڈگی بجانا شروع کی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کارکردگی کے نتیجے میں موصوف کو فوراً ہی پیپلز پارٹی کے ایک کارندے کے ٹی وی چینل میں ایک اعلیٰ عہدے پر متمکن کر دیا گیا۔ لیکن

جس سعودی شہزادے کی ویڈیو چلا کر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے ، وہ تین سال پرانی یعنی 2012 ء کی ہے، پھر یہ ویڈیوحج کے دنوں کی بھی نہیں۔

ان پر ہی کیا موقوف ، ان سے بڑھ کر بھی ہمارے میڈیا میں کئی ذہنی بانجھ پڑے ہیں ۔ بات یہاں پر رک جاتی تو خیر تھی، ایک اور میڈیا ہاؤس نے مگر مچھ کے آنسو بہانا شروع کئے اور اسکرین پر ایک مذہب فروش مگر مچھ بھی بٹھا ڈالا، وہی مگر مچھ جس کے کردار کے بارے میں لاہور میں ’بی بی پاکدامن ‘ کے علاقے میں ناگفتہ بہ باتیں معروف ہیں۔

اس ٹی وی پر بیٹھی ایک خاتون اینکر چلاچلا کر کہہ رہی تھی کہ حاجیوں کی جانب سے دیوار توڑ کر نکلنے کی ویڈیو صرف انہی کے پاس ہے اور ساتھ میں مگر مچھ آنسو بہارہا تھا ۔ نیوز کاسٹر یہ چیخ چیخ کر دعویٰ کر رہی تھی کہ اس کرہ ارض پر چلنے والا واحد ان کا ٹی وی ہے جن کے پاس یہ بصری فیتہ موجود ہے۔ یعنی دنیا کا وہ تمام بین الاقوامی میڈیا جو واقعے کی لائیو کوریج کر رہا تھا ،اس کے پاس یہ بصری فیتہ موجود نہیں تھا لیکن ان کے ہیڈکوارٹر کراچی میں یہ موصول ہو گیا تھا ۔ مگر ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ، لگتا ہے یو ٹیوب کی انتظامیہ ہمارے میڈیا کو بے وقعت ثابت کرنے کے لیے ’را ‘ اور ’سی آئی اے ‘ کے ہاتھ میں کھیل گئی ،کیوں کہ جب ہم نے اس ویڈیو کو تلاش کیا تو اس پر بھی کئی سال پہلے کی تاریخ تھی۔اوپر سے مزید ظلم برادرعزیزسہیل جنجوعہ نے کر دیا، ان کا غصے سے بھرا فون آیا ، وہ بہت پریشان تھے ۔ فرمانے لگے کہ ان ویڈیوز میں دکھائے جانے والے حجاج کرام احرام میں نہیں ہیں۔ جب کہ رمی جمرات کے وقت لوگ احرام میں ہوتے ہیں۔ یار یہ لوگ ظلم کیوں کر رہے ہیں، اتنا جھوٹ بول کر یہ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟

اس سانحے کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب آنا ابھی باقی ہیں۔ جب یہ سانحہ ہوا تو ایران نے فوراً اپنے سابق سفیر غضنفر رکن آبادی ، اور بیسیوں پاسداران انقلاب کے نام جاری کر دئیے جو اس حادثے میں جان سے گزر گئے تھے۔ غضنفر رکن آبادی لبنان میں ایران کے سفیر رہ چکے ہیں، (ان کو ایران میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے کیوں کہ انہوں نے وہاں موجود حزب اﷲ ملیشیا کو لبنانی حکومت میں بزورِ بندوق شامل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا)۔ لیکن جب ان ناموں کو حجاج کی فہرستوں میں تلاش کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان ناموں کے حاجی تو سعودی عرب کی حدود میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوئے۔ تو ظاہر ہے کہ یا تو پھر یہ غلط ناموں سے سفر کر رہے تھے یا پھر غیر قانونی راستے سے آئے تھے۔ دونوں صورتوں میں ان کے مقاصد بھی نیک تو نہیں ہو سکتے جب کہ ابتدائی تحقیق کے مطابق گرنی والی کرین کے پیچ ڈھیلے پائے گئے تھے اور ایسا کرنے والے افراد بصری فیتوں میں پہچانے جا سکتے ہیں۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمان نے یمن میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اس سال کا حج ہم کروائیں گے ورنہ خون کی ندیاں بہیں گی۔ ایرانی حکومت نے کہہ دیا کہ جنرل قاسم سلیمان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ، اس لئے حج تو وہ نہ کروا سکے لیکن خون کی ندیاں بہہ گئیں۔

اس لئے یہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جواب ابھی آنا باقی ہیں۔ سعودی کہتے ہیں کہ اگر گھر میں لاشیں پڑی ہوں تو سیاست نہیں ہوتی۔ پہلے اﷲ کے مہمان لوٹ جائیں، ان لاشوں کو دفنا لیں تو پھر سب بصری فیتے بھی کھلیں گے اور کچھ لوگوں کے دامن ہائے بند قبا بھی۔ لیکن ہمارے ان لیری کنگز کو کون لگام ڈالے؟جو روزانہ اپنا اپنا چموٹا سنبھال کر بیٹھ جاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

اکھیاں دی لالی رضوان رضی - اتوار 18 اکتوبر 2015

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...

اکھیاں دی لالی

ہم بھی وہاں موجود تھے!! الیاس شاکر - پیر 12 اکتوبر 2015

حضرت ابراہیم ؑکو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی سے روکنے کیلئے بہکانے والا شیطان آج بھی اپنے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ یہ اس کی فطرت ہے اس نے مہلت مانگی تھی۔ 2015 کاحج اپنی خونریز یادیں چھوڑ گیا۔جمعرات 24 ستمبرصبح آٹھ سے نو بجے (سعودی وقت کے مطابق)منی میں جمرات پل ...

ہم بھی وہاں موجود تھے!!

منحرف ایرانی سفارت کار نے منیٰ حادثے کو ایران کی منظم سازش قراردے دیا! وجود - پیر 05 اکتوبر 2015

منیٰ حادثے کے بعد ایران اور سعودی عرب میں سخت تناؤ پایا جاتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حادثے کی براہِ راست ذمہ دار سعودی حکومت کو قرار دیا ہے۔ ایران میں اس ضمن میں احتجاجی مظاہرے بھی منظم کیے گیے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب نے اس مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کر...

منحرف ایرانی سفارت کار نے منیٰ حادثے کو ایران کی منظم سازش قراردے دیا!

سانحہ منیٰ: پاکستانی میڈیا کے تعصبات اور ابلیس کا حملہ ظفر محمود شیخ - اتوار 04 اکتوبر 2015

سانحہ منیٰ میں ہونے والے جانی نقصان پر پورا عالم اسلام اشکبار ہے۔ اکثریت کی تشو یش کا محور ان کے وہ احباب تھے جو سال رواں خود فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس گئے تھے۔ تاہم بہت سوں کی تشویش سانحہ کے بعد پیدا شدہ حالات کے باعث تھی کیونکہ دیگر مسلم ممالک کے ردعمل کے برخلاف براد...

سانحہ منیٰ: پاکستانی میڈیا کے تعصبات اور ابلیس کا حملہ

سانحہ منیٰ کا سبب ہمارے اندازوں سے مختلف ہوسکتا ہے: سائنسی ماہرین وجود - بدھ 30 ستمبر 2015

رواں سال حج کے دوران بھگدڑ اور اس میں سینکڑوں افراد کی شہادت ایک ایسا سانحہ ہے جو لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں تاعمر زندہ رہے گا۔ بھگدڑ جیسے لفظ کو سنتے ہی ہمارے ذہن میں جو تصور ابھرتا ہے وہ انتہائی بھیانک ہوتا ہے کہ لوگ دیوانہ وار اپنی جان بچانے کے لیے دوڑ رہے ہیں اور کسی...

سانحہ منیٰ کا سبب ہمارے اندازوں سے مختلف ہوسکتا ہے: سائنسی ماہرین

دورانِ حج انتقال کرنے والے 1100 افراد کی تصاویر ارسال وجود - منگل 29 ستمبر 2015

سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے تقریباً 1100 ایسے افراد کی تصاویر غیر ملکی سفارت خانوں کو جاری کی ہیں جو رواں سال حج کے دوران حجازِ مقدس میں جاں بحق ہوئے۔ یہ تصاویر پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لاشوں کی پہچان ابھی تک نہیں ہوسکی، انہیں لواحقین تک پہنچایا جا سکے۔ وزارت داخلہ کے تر...

دورانِ حج انتقال کرنے والے 1100 افراد کی تصاویر ارسال

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر