... loading ...
حصہ دوم
ذکر تھا کہ ہماری مملکت اسلامیہ پاکستان پر اللہ کا خصوصی کرم ہے ۔ ایران ،شام، ترکی اور مصر کے سفر میں خاکسار کو پہلی دفعہ علم ہوا کہ فوجی صلاحیتوں اور ایٹمی طاقت ہونے کے حوالے سے پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالی نے کیا برتر مقام عطا کیا ہے۔ ان سب ممالک میں پاکستان کو ان معاملات میں ایک نگاہ ٔرشک و تحسین سے دیکھا جاتا ہے۔
بات کو ذرا اصل موضوع کی طرف لے جاتے ہیں ۔سول سروس سے متعلق ایک رفیق کار کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی ایک ایسے بین الاقوامی ادارے میں ہوگئی جہاں وہ تمام اسلامی ممالک کے افراد سے اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں بہت باقاعدگی سے ملا کرتے تھے ۔کئی برس کے مشاہدے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنی انفرادی حیثیت میں ایک عام پاکستانی دنیا کے تمام مسلمانوں سے زیادہ ذہین ، باصلاحیت اور جفاکش ہے۔ مقامی طور پر اقوام عالم میں ان کے بارے میں بگاڑ اور گرواٹ بھرے تاثر کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ پاکستانیوں کو بطور ایک گروہ یا گروپ کے دیکھتے ہیں۔ گروہی طرز عمل کے لحاظ سے یہ دنیا کے پس ماندہ ترین گروپوں میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔
وہ جہاں اپنی تعریف میں ایک حد فاصل سے تجاوز کرگئے تھے۔وہیں انہیں یہ کہنے میں بھی کوئی خوف خمیازہ یا کسی ہچکچاہٹ کا سامنا نہ تھا کہ 1970 ء کے بعد کی پاکستانی جنریشن میں Group Behavior کے حوالے سے اتنی بھی صلاحیت نہیں جتنی پہاڑی گوریلاؤں کے ایک گروپ میں ہوتی ہے۔ خاکسار کو علم تھا کہ وہ ڈایان فوسی کی روانڈا کے پہاڑی گوریلاؤں پر، جین گوڈ آل کی چمپنزیوں پر اور گالڈیکاز کی بندروں کی ایک قسم (orangutans) پر کی جانے والی ریسرچ سے بہت متاثر تھے۔انہیں اپنی تلہ گنگ کے ایک تھکے ماندے کالج کی تعلیم یافتہ بیگم سے یہ بہت بڑا شکوہ تھا کہ جس خوش دلی اور انہماک سے یہ تین گوری بیبیاں ان بندروں کے درمیان رہیں اگر ایسی ہی فراخ دلی اور دل جمعی سے وہ بھی کراچی میں محمود آباد میں ان کے والدین اور اپنے سسرال والوں میں رہتیں اور ان کے والدین اور بھائی بہنوں کو ان خواتین کے سبھاؤ اور لگاوٹ سے نہ سہی کم از کم ڈارون کے نظریۂ ارتقا (Theory of Evolution) والے فہم سے دیکھ لیتیں تو خاندان میں ناراضیوں کا تناسب بہت کم ہوتا۔
اہلیان مملکت کے اجتماعی طرز عمل کے حوالے سے سیاست، قبرستان میں تدفین ، وہاں موجود قبلے کی درست سمت کے معاملے میں برسرپیکار اور الجھتی قبریں، شادی پر بارات سے طعام تک کی تکا فضیحتی ،اسکول سے یونی ورسٹی تک کلاسوں کے ٹائم ٹیبل ، بس کا سفر ،ڈاکٹروں کے احتجاج سے لے کر ہنگاموں اور ملزمان کو گرفتار کرتے وقت پولیس کی افراتفری تک کی کئی تفصیلات اور مثالیں ان کے پاس تھیں۔
وہ کہہ رہے تھے کہ حالت ابتلا میں بھی فلسطینیوں کی وہ ویڈیوز یا تصاویر جو احتجاج یا بمباری سے متعلق ہوتی ہیں ان کے کپڑے کیسے صاف ستھرے ہوتے ہیں ان کی خواتین کے اسکارف عبایا بے داغ، چہرے اجلے اور دھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ کو اگر تحریر اسکوائر ،قاہرہ کے گزشتہ برسوں کے مظاہروں کی تصاویر اور فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو ان کے لباس اور حلیے دیکھیں ،ان مظاہروں کے دوران تحریر اسکوائر میں جو کچرا اور کوڑا کرکٹ جمع ہوا تھا وہ میڈیکل یونی ورسٹی اور جامعہ ازہر کے طالب علم اور دیگر رضاکار رات آکر اُٹھاتے تھے اور پولیس کے سامنے انہیں اپنی مقررہ جگہ پر ٹھکانے لگاتے تھے۔
وہ تین سالہ ایلان کردی جس کی سمندر کے کنارے پڑی لاش کی تصویر نے ساری دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے کپڑے کس قدر صاف ستھرے تھے ۔ غور کریں تو اس کے جوتوں کے تلوے بھی اس کی روح اور اس کی تلاش مسکن کی طرح اُجلے تھے۔سمندر نے اس کی جان تو لے لی مگر وہ اس کی Elegance ساحل پر بے رحمی سے پٹخنے کے بعد بھی چھین نہ سکا۔
ذرا دیکھیں ،اور تو اور اگر اس کی تدفین کے مناظر آپ نے دیکھے ہوں تو شام کے اس شہر کوبانی میں جہاں دولت اسلامیہ اور شامی افواج کے مظالم جاری ہیں وہاں شرکائے تدفین کے لباس ا اور حلیے کس قدر مہذب ہیں۔ اس کی نسبت آپ پاکستان کی کچھ تصاویر بطور تقابل ملاحظہ فرمائیں۔ ان تصاویر میں ایک ایسی تصویر بھی شامل بھی ہے جو قبرستان میں تدفین سے پہلے کی ہے یہ ہستی پاکستان میں اعلی ترین عہدے پر فائز رہ چکی تھی۔
ہمارے اس رفیق کار کو یہ بھی بہت شکوہ تھا کہ جب کہیں گلی کوچوں پبلک مقامات، یا اجتماعات میں نگاہ ڈالیں، پاکستانیوں کی اکثریت یا تو کہیں نہ کہیں خارش کررہی ہوتی ہے، یا ناک کان آنکھ میں اُنگلیاں گھونپ رہی ہوتی ہے یا پان نسوار اور گٹکے سے کھد بدائے ان کے دہانہ ہائے مبارک کے گٹر باہر ابل رہے ہوتے ہیں۔ مسجد میں جماعت میں بھی وضوکرکے آنے کے باوجود گلے کھنکھاررہے ہوتے ہیں۔بلکہ غریب بستیوں میں تو موذن فجر کی اذان سے پہلے اپنے سستے بھیانک ساؤنڈ سسٹم والے لاؤڈ اسپیکر پر بطور الارم ایسے کھنکھارتا ہے کہ فرشتے اسرافیل کے دل میں یکبارگی یہ خیال آتا ہوگا کہ اللہ میاں اسی کو صور پھونکنے کی ذمہ داری دے دیتے تو اچھا تھا۔
ہم سے ملنے سندھ سیکرٹریٹ آئے تو وہاں پرانی پان کی پیک اور خاک سے آلودہ پرانی ناکارہ سرکاری گاڑیوں اور دیگر کاروں کے بے ہنگم پارکنگ دیکھ کر کہنے لگے ’’جو افسران اپنے دفتر کے اندر صفائی اور باہر کار پارکنگ ٹھیک نہ کرسکیں وہ صوبے کا انتظام و انصرام کیوں کر سدھار کرسکتے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا ع
ڈاؤ یونی ورسٹی نے ان دنوں کالج کا پرانا برقعہ اتار کر یونی ورسٹی کا نیا پولیسٹر عبایا پہنا تھا۔ وائس چانسلر شپ کے لیے دو پروفیسروں میں جوتم پیزار ہورہی تھی۔ وہاں کوئی پروفیسر ان کے دوست تھے ہم دونوں اُن سے ملنے گئے تو یہ وہاں موجود طالب علموں کو دیکھ کر کہنے لگے یا ر اس موبائل فونز کے سائز کا اثر ان کے قد کاٹھ پر کچھ زیادہ ہی ہوا ہے۔ اتنے پاکٹ سائز نوجوان کہاں سے پیدا ہوگئے۔ پروفیسر نے تائید کی کہ کھیل کے میدانوں ، پارکوں اور روزمرہ آؤٹ ڈور سہولتوں کی کمیابی سے نئی نسل کا سائز چھوٹا ہوتا جارہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بے پناہ انفرادی قابلیت کو کیسے ایک گروہی صلاحیت میں بدلا جائے تاکہ بطور ایک قوم ہماری جسمانی ساخت ’’Personal Hygiene‘‘ ذاتی صفائی ،برداشت کی قوت، نظم و ضبط اور وقت کی پابندی جیسے اہم معاملات میں ہم یکجا ہوجائیں۔ اس کا ایک فوری دیرپا علاج ہے جو بہت کم خرچ بھی ہے اور جس کے اثرات دور تک جانے کی امید ہے۔یہ علاج ہے نوجوانوں کی لازمی فوجی تربیت ۔
پاکستان میں ایسے نوجوان افراد جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے یونی سیف کے مطابق35 فی صد ہیں۔الیکشن کمیشن کے اندازے کے مطابق ایسے نوجوان جو اٹھارہ سال سے چھبیس سال کی عمر کے ہیں ان کی تعداد ملکی ووٹرز کی تعداد کا 26 فی صد ہے۔اگر اس تعداد کو آبادی کے پیمانے پر پرکھا جائے تو33.3فیصد وہ بچے ہیں جو1 سے 14 سال کی عمر کے ہیں اور21.5 فیصد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں15 سال سے24 سال کے درمیان ہیں۔ معمولی سے فرق سے ان میں مرد اور خواتین کی تعداد تقریباً آدھی آدھی ہے۔
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے پرے ہٹ کر سوچیں تو پاکستان کی کل آبادی میں سے کم از کم ہر وقت 25سے 30 فیصد آبادی ایسے نوجوان افراد پر مشتمل ہے جو لازمی فوجی تربیت کے لیے ہمہ وقت موزوں ہیں۔اس حقیقت کو سب سے پہلے مولانا مو دودی نے بھانپ لیا تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ بنا ڈالی جس کے تمام اہم رہنما انہیں وقت آنے پر داغ مفارقت دے کر انفرادی طور پر کہیں کہ کہیں جانکلے۔ ان میں جاوید ہاشمی، کوثر نیازی، اعجاز شفیع گیلانی، حسین حقانی اور فیاض چوہان( پی ٹی آئی ) نمایاں ہیں۔بعد میں نوجوانوں کے اس بہت بڑے حلقہ ٔ اثر کا فائدہ شیخ مجیب الرحمن نے اٹھایا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی اٹھارہی ہے۔ درمیان میں جو ایک طویل صحرائے افکار ہے اس میں یہ نوجوان جہادی تنظیموں کی بھینٹ چڑھ گئے جو انہیں اپنے ایجنڈے پر چلاتی رہی۔ اس گروپ کو گیلی لکڑی جان کر کسی نے صحیح وقت پر قومی مفاد میں نہیں موڑا۔ یہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے اور المیۂ عظیم بھی۔
مگر ایسی کیا بے چارگی اور کم مائیگی ہے کہ ایک فرد کے مشاہدے کو جس سے متعلق بیشتر خامیوں ،کوتاہیوں اور دکھ بھری مثالوں سے آپ بھی بارہا دوچار ہوئے ہیں مگر آپ نے ان کے بارے میں کوئی اجتماعی علاج کا نہیں سوچا ۔ اگر کبھی ان پر کسی کی نگاہء غلطاں و پیچاں پڑ بھی گئی ہوگی تو آپ اسے تعلیمی نظام کی کمزوری اور گھریلو تربیت کا فقدان جان کر دل مسوس کر رہ گئے ہوں گے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...