... loading ...
مشرقی و مغربی جرمنی کے اتحاد کو سرد جنگ کے خاتمے کی گھڑی سمجھا جاتا ہے۔ 3 اکتوبر 1990ء کو، دیوارِ برلن گرنے کے تقریباً ایک سال بعد، کمیونسٹ مشرقی جرمنی اور سرمایہ دار مغربی جرمنی ایک مرتبہ پھر یکجا ہوگئے۔ آج 25 سال گزر جانے کے بعد گو کہ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن درونِ خانہ آج بھی ایک دوراہے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف مہاجرین کا سیلاب ہے، دوسری جانب گاڑیاں بنانے والے ملک کے اہم ترین ادارے ووکس ویگن پر بے ایمانی کے الزامات ہیں۔ اب جرمنی کو ان دونوں بحرانوں سے نمٹنا ہے تبھی سلور جوبلی جشن کی حقیقی خوش ملے گی۔
نومبر میں اپنے اقتدار کے 10 سال مکمل کرنے والی خاتون چانسلر انجیلا مرکل جنگ اور سخت حالات سے بھاگ کر یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں، جن کی تعداد رواں سال کے اختتام تک 10 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ پڑوسی ملک ہنگری کے سخت گیر وزیراعظم نے تو یہ تک کہا کہ مرکل کو “نیکی کا بخار” چڑھا ہوا ہے۔ کچھ مخالفت لازماً ملک کے اندر سے بھی ہے لیکن بحیثیت مجموعی عوام کی بڑی تعداد نے مہاجرین کو قبول کرنے کے فیصلے کے سراہا ہے۔ رضاکاروں کی بڑی تعداد نے ان مہاجرین و تارکین وطن کا شاندار استقبال کیا ہے۔ عوام کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے خود مرکل بھی کہہ اٹھیں کہ “انہیں اپنے ملک پر فخر ہے۔” لیکن مہاجرین کا اضافی بوجھ یورپ پر لادنے پر انہیں اندرون اور بیرون ملک مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
انجیلا مرکل کا کہنا ہے کہ “جرمنی کو آج اسی جذبے کی ضرورت ہے جو دیوار برلن گرنے اور مشرقی و مغربی جرمنی کے اتحاد کے درمیانی مہینوں میں تھا۔ بلاشبہ ہدف مشکل ہے، پتھر بہت بھاری ہے، حالات قابو سے باہر دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمیں حوصلے ہارنے کی ضرورت نہیں، ہم ہر وہ کام کرسکتے ہیں، جو ممکن ہے اور اپنی تاریخ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔”
جرمن تاریخ دان پال نولٹے کہتے ہیں کہ “ہوسکتا ہے کہ چند ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے، خدشات کا اظہار کرنے والے اور برعکس رائے رکھنے والے بھی موجود ہیں لیکن جرمنی میں آزاد خیال مڈل کلاس بڑی تعداد میں موجود ہے، خاص طور پر مغربی جرمنی میں، جو اقتصادی طور پر خوشحال ہے اور مہاجرین کے معاملے پر مرکل کے ساتھ ہے۔” البتہ ایک اور مورخ اینڈریاس روئیڈر کا کہنا ہے کہ “جب بھی جرمنی نے آگے بڑھ کر قیادت کرنے کی کوشش کی ہے، اسے ہمیشہ غلبے کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔”
آج 25 سال گزر جانے کے بعد متحدہ جرمنی کے 67 فیصد باشندے کہتے ہیں کہ ملک کے دونوں حصوں کا دوبارہ ملاپ اکی درست فیصلہ تھا لیکن مغربی جرمنی کے 71 اور مشرقی جرمنی کے 83 فیصد باشندے اب بھی کہتے ہیں کہ “بڑے اختلافات” بدستور موجود ہیں۔ دونوں حصوں میں معاشی طور پر کافی فرق پایا جاتا ہے۔ مغربی حصے کے مقابلے میں مشرقی ریاست میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے۔ فرینکفرٹ میں ہفتہ بھر جاری رہے والے جشن میں رنگ و نور کی برسات بھی ہوگی اور برلن میں تاریخی برینڈنبرگ دروازے پر ایک شایان شان تقریب کا اہتمام بھی ہے، لیکن کیا جرمنی اکیسویں صدی کے ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوپائے گا؟ اس کے لیے آنے والے چند سال بہت اہم ہوں گے۔
جرمنی میں بدھ سے جمعرات اٹھارہ نومبر کے درمیان پینسٹھ ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ ابھی چند روز قبل چوبیس گھنٹوں میں پچاس ہزار سے زائد نئی انفیکشنز کے نئے ریکارڈ کا بتایا گیا تھا، جو اب ٹوٹ گیا ہے۔جرمن میڈیا کے مطابق جرمنی اس وقت وبائی بیماری کووڈ انیس کی چوتھی ل...
ترکی میں مقیم کئی شامی مہاجرین کو کیلا کھانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرنے کی پاداش میں بے دخلی کا سامنا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ترک حکام نے بتایاکہ کیلے کھانے کی ویڈیو کو اشتعال دلانے اور مقامی شہریوں اور مہاجرین کے درمیان نفرت پر اکسانے کے الزام کے تحت ان افراد کو ترکی سے وا...
کامیڈی کے بے تاج بادشاہ،میزبان، فلمساز، ہدایتکار، شاعر، موسیقار، کہانی نویس اور مصور لیجنڈمحمد عمر المعروف عمر شریف 66برس کی عمر میں جرمنی میں انتقال کر گئے ، شوبز شخصیات نے عمر شریف کے انتقال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے انتقال سے فن کا ایک باب ہمیشہ ...
فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ترکی سے شمالی شام میں کردوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے ۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اس حملے کے سنگین انسانی اثرات مرتب ہوں گے اور سخت گیر جنگجو گروپ داعش کو پھر سے سر اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے ۔فرانسیسی ...
تصور کیجیے کہ برطانیہ کی پوری آبادی کو مجبوراً اپنا گھربار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑے، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک اس سے زيادہ افراد دنیا بھر میں بے گھر ہوں گے جو دوسری جنگ عظیم سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ شام و اف...
یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے تقریباً 500 افراد بحیرۂ روم میں کشی ڈوبنے سے مارے گئے ہیں۔ یہ حادثہ اٹلی اور لیبیا کے درمیان سمندر میں پیش آیا اور اس کی خبر دو بین الاقوامی اداروں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور بین الاقوامی انجمن برائے مہاجرت نے ان 41 بچ جانے والے افراد کے بیا...
شام اور خانہ جنگی کے شکار دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے یورپ کی ہجرت کیا کی، نسل پرست اور اسلام مخالف گروہ بلوں سے نکل کر باہر آ گئے ہیں۔ گزشتہ روز مہاجرین کے سب سے بڑے مسکن جرمنی سمیت یورپ کے مختلف ملکوں میں اسلام مخالف مظاہرے کیے گئے جن کی سرخیل جرمن تنظیم پگیڈا تھی۔ پ...
شام میں پانچ سالہ خانہ جنگی کے بعد حالات بدترین ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں، بد حال ہیں اور جسمانی، ذہنی و نفسیاتی امراض سے دوچار ہیں اور ان کی بحالی کے لیے صرف 2016ء میں کوئی معمولی نہیں پورے 9 ارب ڈالرز کی امداد کی ضرورت ہوگی، جو ایک ریکارڈ ہوگا۔ شامی مہاجرین و متاثرین کے ...
2007ء کے مالیاتی بحران کے حوالے سے مائیکل لوئس نے ایک کتاب لکھی تھی، جس کا ایک فلمی ورژن بگ شارٹ کے نام سے جاری ہو چکا ہے۔ اس فلم کے اختتام پر ایک کردار مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرتا ہے کہ "مجھے لگتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں جب معیشت بری طرح ناکام ہو جائے گا تو لوگ وہی کریں گ...
دائرہ قطب شمالی میں یہ سال کا شدید ترین وقت ہوتا ہے۔ چھ مہینے تک سورج طلوع نہیں ہوتا۔ درجہ حرارت منفی 30 درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور یہ سب ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں آبادی موجود ہے۔ غیر آباد علاقوں میں تو موسم کی شدت ناقابل بیان ہے اور سوئیڈن نے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی...
پیرس میں مبینہ طور پر داعش کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد امریکی باشندوں کی بڑی تعداد پریشان دکھائی دیتی ہے کہ کہیں اگلا حملہ امریکا میں نہ ہوجائے۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت سمجھتی ہے کہ وہ بنیاد پرست اسلام کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ اے بی سی اور واشنگٹن پوسٹ کے مشترکہ سروے میں ...
شام اور دیگر ممالک سے آنے والے مہاجرین کو روکنے کے لیے یورپ اس وقت مکمل طور پر سرگرم ہوگیا ہے اور ترکی کو تین ارب یوروز کی بھاری امداد کے ساتھ ساتھ ترک باشندوں کے لیے یورپ کے آسان ویزے اور یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات کو دوبارہ تیز کرنے جیسی پرکشش پیشکشیں کررہا ہے۔ صر...