... loading ...
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اِسے عالمِ انسانیت کے لیے امید کی آخری کرن قراردیاگیا تھا۔ مگر اب یہ عالم انسانیت کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک برہنہ چیلنج بن چکا ہے۔ ماہِ ستمبر میں یہ ایک سالانہ ستمگر روایت بن چکی ہے کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں عالمی رہنما ایک چھت کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں۔اور اپنے اپنے عوام کا ہی نہیں مجموعی طور پر دنیا بھر کے مظلوموں کا ایک طرح سے مزاق اڑاتے ہیں۔ پُر تکلف کھانوں سے لے کر زرق برق ملبوسات تک عالمی حکمرانوں کی ہر چیز میں ایک مشینی انداز کارفرما ہوتا ہے۔ ہاتھ ہِلانے سے لے کر ہاتھ ملانے تک ہر عمل ایک خاص معنی میں ڈھالا جاتا ہے۔ اور عالمی حکمران اپنی اس مشینی نقل وحرکت میں مکمل طور پر ایک ایسے نظام کے تابع رہتے ہیں جو خود اُن کے ماتحت اُنہیں اپنی ماتحتی میں لے کر سکھاتے سمجھاتے ہیں ۔ اس سب کا آخر دنیا کے لیے کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ عراقی سفارت کار اور سیاست دان محمد سعید الصحاف نے ایک موقع پر کہا تھا کہ
’’اقوام متحدہ امریکا کے پاؤں تلے دراصل جسم فروشی کی ایک جگہ ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کا کردار اتنا بدتر ہے کہ بد سے بدتر الفاظ میں بھی اس کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ اقوام متحدہ کے اس سالانہ اجلاس میں ہرطرح کے حکمران ہوتے ہیں۔ جس میں جمہوری ، جرنیلی اور شاہی قسم کے حکمران اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے الفاظ میں دنیا کو کچھ ایسے’’ بھاشن‘‘دیتے ہیں جو خود اُن کے لیے بھی اجنبی ہوتے ہیں ۔ اِسے اُن کے ماتحت سفارت کار اپنی ’’مہارت‘‘ سے اپنے اپنے حکمرانوں کے لیے ترتیب دیتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یہاں کچھ تفریح ِ طبع کا سامان بھی ہوتا تھا۔ مثلا ہیوگو شاویز، فیڈل کاسٹرو، احمدی نژاد اور وہ عجیب وغریب کرنل قذافی جو ایٹم بم کو گھوڑے کی طرح کی شے سمجھ کر خریدنے نکلا تھا۔ اور اپنے آخری ایام میں اُس ہتھیار کو بھی استعمال نہ کر سکا جو اُس کے پاس پڑا رہتا تھا۔ اقوام متحدہ کے اس منچ پر ہیوگو شاویز کے الفاظ کچھ گونج گمک پیدا کرتے تھے۔ مگر دنیا کی موجودہ بناوٹ میں’’ انقلابی الفاظ‘‘کا کوئی شاندار مصرف بھی باقی نہیں رہ گیا۔ چنانچہ اب لاطینی امریکا میں بیداری کی لہر کا تذکرہ تک معدوم ہوتا جارہا ہے۔ وینزویلا کا بدلاؤ ابھی موضوع نہیں۔ اقوام متحدہ کے اسی سالانہ میلے میں ایک موقع پر کاسٹرو نے اپنی جیب سے رومال نکال کر گھڑی پر باندھ لیا تھا۔ وہ دراصل یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ امریکا اور بالادست ممالک کے حکمرانوں کے لیے وقت کی کوئی قید کیوں نہیں ۔اور ہم وقت کے پابند کیوں ہیں؟ مگر اب کاسٹرو کو پوپ نے کچھ سمجھا بجھا دیا ہے اور باقی جو کچھ بچا تھا وہ عمر رفتہ کو آواز دیتے دیتے یادداشت تک سے محو ہوتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں گھڑی وہی اور وقت کی رفتار بھی جوں کی تُوں ہے۔ بس کاسٹرو صاحب ِ فراش ہوگئے۔احمدی نژاد کے نام پر عشقیہ داستانیں گھڑنے والے اب ایران کے کردار پر لب کشائی سے گریزاں ہیں ۔ کیا حسن روحانی کے الفاظ اور احمدی نژاد کے الفاظ میں امریکا اور اقوام متحدہ کے لیے ایک ہی لغت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں یاکردار کی طرح لغت بھی بدل چکی ہے؟دراصل یہ حکمران موجودہ دنیا کی بناوٹ میں بس کچھ وقت کے لیے ذرا سی تفریح طبع کا سامان اور کچھ دیر کے لیے ذائقہ بدلنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔ مگر اب وہ سب منظر سے ہٹ چکے ہیں۔ اندازا کیجیے ان حضرات کی غیر موجودگی میں موجودہ سالانہ اجلاس کتنا بے روح ، بے بو ، بے رنگ اوربے ذائقہ ہوگا۔ پھر اس میں خیر سے میاں نوازشریف نے بھی شرکت کی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جن حالات نے اقوام متحدہ کی ضرورت کا احساس دلایاتھا۔ وہ شکلیں بدل بدل کر جوں کے توں ہیں ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یورپ کی نظریاتی تقسیم سردجنگ کے خاتمے کے ساتھ ہوا ہوگئی۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں جن ملاقاتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جارہی تھی وہ ہو چکی ہیں ۔ امریکی اور روسی صدر نوے منٹ پر محیط ایک ملاقات کر چکے ہیں ۔ جسے شاندار الفاظ میں ملفوف کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر عملاً ملاقات کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل سکا ہے۔ یوکرائن بحران پر دونوں رہنماؤں کے موقف الگ الگ ہی رہے۔ شام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ دونوں رہنما داعش اور بشارالاسد کے معاملے میں اپنی ترجیحات تک ایک دوسرے سے تبدیل نہیں کراسکے۔ مگر ذرا اس ملاقات کے احوال کو بیان کرنے والے سفارتی الفاظ پر غور کیجیے۔ بس یہی دنیا ہے جس نے الفاظ کے ظروف سے معانی کو نکال پھینکا ہے اور اِسے فن ِ سفارت کاری کا شاندار نام دے دیا ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ بھی بس اِسی کا بڑھاوا ہے۔ روسی صدر نے اس موقع پر بھی برطانوی وزیر اعظم سے ملنے سے گریز کیا مگر وہ خوش دلی سے ایک برطانوی گلوکار جان ایلٹن سے ملے جو ہم جنس پرستی کے حوالے سے اُن کے ایک بیان پر قدرے مختلف رائے رکھتا ہے۔ ذرا غور کیجیے دنیا کے مسئلوں میں ہم جنس پرستی کا مسئلہ بھی کتنا بڑا بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ زندہ باد۔
اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے پہلو بہ پہلو دوسری بڑی ملاقات امریکی صدر اور چینی صدر کے مابین تھی۔ مگر اس ملاقات میں بھی سمندری تنازع سے لے کر سائبر حملوں تک کے تمام مسائل وہیں کے وہیں کھڑے رہے۔ اگر کوئی چیز سب سے نمایاں تھی تو وہ استقبال اور خاتون اول مشل اوباما کا لباس تھا۔ مشل اوباما کے لباس کی داستانیں بھی خوب ہیں ، وہ کوئی بھی لباس زیب تن کر لیں لباس سے بڑھ کر خود نمایاں رہتی ہیں اور ذرایع ابلاغ کی کوششیں یہ ہوتی ہیں کہ وہ مشل سے بڑھ کر لباس کو نمایاں کریں۔ افسوس ناک طور پر مشل کے لباس سے بھی زیادہ اہمیت اُن موضوعات کو نہیں مل سکیں جو دونوں ممالک کے درمیان پائے جاتے ہیں اور جس کا اثر باقی دنیا پر مستقل پڑتا رہتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ 70واں اجلاس ہے۔مگر دنیا ان ستّر برسوں میں پہلے سے زیادہ تنازعات سے بھرپور، پہلے سے زیادہ خطرناک اور پہلے سے زیادہ جنگوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ جب امریکا کسی ملک پر پہلا میزائل داغتا ہے تو اس سے سب سے پہلے وہ ملک نہیں اقوام متحدہ نشانا بنتا ہے۔ جو امریکا کے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کا محض ایک آلہ، حیلہ اور وسیلہ بن چکا ہے۔ کسی اور کے نہیں یہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل (یکم جنوری 1992 ء تا 31 دسمبر1996ء) بطروس بطروس غالی کے الفاظ ہیں کہ
’’یہ اقوام متحدہ کی ناکامی ہے ، یا شاید میری ناکامی کہ میں سلامتی کونسل کے ارکان کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرسکا۔‘‘
یہ الفاظ دراصل اس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے یہ برہمن ممالک دراصل اقوام عالم کے لیے مسائل کے حل کی بنیاد نہیں بلکہ خود مسائل کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ مگر ظاہر ہے یہ ایک بڑی حقیقت کا بہت ہی معمولی الفاظ میں ایک ناکافی اعتراف ہے۔ وہ دراصل یہ کہنے سے کتراگیے کہ وہ عہد جدید کے ایک غلام ادارے کے غلام کے طور پر ریٹائر ہوئے۔جسے دنیا اپنے جدیدتصورِ غلامی میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سمجھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں اس سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ یہاں میاں نواز شریف شرکت کریں یا پھراپنے جثے اور کردار دونوں میں ہی عجیب وغریب حافظ طاہر اشرفی۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دنیا سے پاکستان کو پھر موسمیاتی انصاف دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی سیلاب سے زیادہ جانیں لے سکتا ہے۔ اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان صحت عامہ کی تباہی کے دہانے ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
داعش نے ابو الحسن الہاشمی القریشی کو اپنا نیا سربراہ مقرر کیا ہے جن کے بارے میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ ماہ داعش کے سربراہ ابو ابراہیم القریشی نے اپنے ٹھکانے پر امریکی حملے کے وقت خاندان سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے بعد اب د...
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یوکرین سے روسی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کرنے والی قرارداد پر جاری بحث میں اپنی باری پر حصہ نہیں لیا۔ اجلاس میں بھارت کے ووٹ دینے سے گریز سے متعلق سوال پر امریکی محکمہ خارجہ نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ انفرادی طور پر مخصوص مم...
اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...