... loading ...
صوبہ خیبرپختونخوا میں بنوں کے قریب ایک شہر ہے ستمبر۔ وہاں کے کالج کے ایک استاد جناب عدنان جانے کیا سمجھ کر ہمیں مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ ’’لکھیں اورلکھیے‘‘ میں کیا فرق ہے مثلاً مضمون لکھیں یا مضمون لکھیے۔‘‘ کوئی سچ مچ کا استاد ہی فرق بتا سکتا ہے۔ہم تو اتناجانتے ہیں کہ اگر کسی کو ہدایت دی جائے‘ جسے فعل امر کہتے ہیں‘ اس میں لکھیں اور لکھیے دونوں صحیح ہیں‘ لکھو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور بے تکلفی ہو تو آپ ’’لکھ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں دو چشمی ھ ہے تو یہ ہندی ہی کا لفظ ہوگا۔ ’’لکھا‘‘ ہندی‘ اسم مذکر ہے۔ مطلب سب کو معلوم ہے‘ نَوشتہ (بعض لوگ اسے نوش۔ تہ پڑھتے اور بولتے ہیں ) تحریر شدہ‘ رقم زدہ رقوم اس کے علاوہ حکم ازلی‘ قضا‘ سرنوشت‘ بھاگ‘ تقدیر‘ قسمت‘ مقدر وغیرہ۔ جسے کہتے ہیں کہ ’’قسمت کا لکھا پورا ہوا۔‘‘ ایک شعر ہے:
اسی سے لکھنا‘ لکھوانا ہے۔ لکھیں اور لکھیے میں ایک فرق محل استعمال کا ہے۔ غالب کا مصرع دیکھیے:
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ۔ یا ہم ایک مضمون لکھیں گے۔ ہم جو سمجھے وہ یہ ہے کہ ’’لکھیں‘‘ میں اختیار ہے‘ لکھیں نہ لکھیں۔ مثلاً بھئی آپ کہتے تو ہیں مگر ہم نہیں لکھیں گے۔ دوسری طرف حکم ہے کہ ’’لکھو‘‘۔ اس میں درجہ بندی ہے‘ لکھیے میں احترام کا پہلو زیادہ ہے اور شاگردوں یا طالبان (وہ والے نہیں) کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں فائدہ ہی ہے کہ وہ آپ کا احترام کریں گے۔ کہتے ہیں ’’یہ صدا گنبد کی ہے‘ جیسا کہو ویسا سنو‘‘ اب تو استاد شاگرد میں احترام کا پہلو ہی نہیں رہا اسی لیے ڈگری تو مل جاتی ہے علم نہیں آتا۔
ہم جمعہ کو ایک ٹی وی چینل پر بڑے معروف وکیل احمد رضا قصوری کو سن رہے تھے جو پرویز مشرف پر چلنے والے غداری کے مقدمہ پر اپنے ان خیالات کا اظہار کررہے تھے جو پہلے دن سے آتے آئے ہیں۔ اپنے تبصرے میں انہوں نے فرمایا ’’یہ بیل منڈیرے نہیں چڑھے گی۔‘‘ منڈیر کی جگہ منڈیرے اہل پنجاب کا تعرف ہے۔ ایک گانے کا بول بھی ہے ’’آج میرے منڈیرے کا گا بولے۔‘‘منڈیر عام لفظ ہے اور ہر گھر میں ہوتی ہے‘ سرِدیوار‘ دیوار کا وہ بالائی حصہ جو ڈھلوان بنا ہوا ہوتا ہے تاکہ پانی اوپر سے دیوار کے اندر سرایت نہ کرے‘ پشتہ‘ کیاری یا کھیت کی اونچی جگہ وغیرہ۔ منڈیر کی تصفیہ منڈیری ہے لیکن جہاں تک محاورے کا تعلق ہے اس میں منڈیر یا منڈیرے نہیں ہے اور اس میں غلطی میں احمد رضا قصوری تنہا نہیں ہیں۔ ان کی زبان کی غلطیوں پر گرفت بھی نہیں کرنی چاہیے‘ گرفت کرنے کے لیے اور بہت سی باتیں ہیں۔ مثلاً وہ وکیل استغاثہ کو ’’موٹے میاں‘‘ کہہ رہے تھے۔ محاورہ ہے ’’یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔‘‘ اب لوگ بھول بھال گئے کہ منڈھا کیا ہوتا ہے۔ باغات‘ خاص طور پر انگور کے باغوں میں لکڑیوں کی مدد سے ایساڈھانچا بنایا جاتا ہے جس پر بیل چڑھائی جاتی ہے۔ اس سے نازک بیلوں کو سہارا بھی ملتا ہے اور انگور وغیرہ زمین پر پھیل کر خراب نہیں ہوتے۔ پان کی بیلوں کو بھی منڈھے چڑھایا جاتا ہے۔ کبھی چمن کی طرف جانا ہو تو وہاں انگور کے باغات اور منڈھے پر چڑھی بیلیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ منڈھے کا ایک مطلب اور بھی ہے۔ اس کی نسبت سے شادی بیاہ میں ایک رسم بھی ہوتی ہے جو پہلے صرف ہندوؤں میں ہوتی تھی۔ ایک منڈپ یا شامیانہ سا بنا کر اس کے نیچے پھیرے ہوتے ہیں۔ بعض مسلمان گھرانوں میں بھی منڈھے کی رسم دیکھی جس کو اس طرح مسلمان کرلیا گیا کہ سات سہاگنیں دولہا کے سر پر ڈوپٹہ یا چادر تان کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور پھر دیگر رسومات یا خرافات ہوتی ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ بیل منڈیرے نہیں چڑھتی اور بیل تو نہ منڈیر پر چڑھتا ہے نہ منڈھے پر۔
اسی سے ہمیں ایک اور محاورہ یاد آگیا۔ ’’داغ بیل ڈالنا۔‘‘ اب یہ بیل نہ تو بیل بوٹوں والی ہے او رنہ ہی گائے‘ بیل والی۔ داغ بیل ڈالنے کا استعمال عام ہے۔ بیلچہ تو آپ نے بھی سنا اور دیکھا ہوگا۔ دراصل یہ والا ’’بیل‘‘ بڑا بیلچہ یا کدالی ہے۔ جب کوئی تعمیر ہونے لگتی ہے تو بیلی‘ پھاوڑے یا کدال سے زمین پر حد بندی کے نشانات لگائے جاتے ہیں یہ ہے داغ بیل یا بیل کے نشانات۔ یہ وہ داغ نہیں جن کے بارے میں کب سے کہا جارہا ہے کہ ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ اور اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ہمارے حکمران اپنے دامن پر داغ لگائے چلے جارہے ہیں۔ داغ فرقت کا بھی ہوتا ہے‘ داغ ندامت کا بھی اور ایک شاعر حضرت داغ دہلوی بھی تھے۔ ا یک شعر حاضر ہے:
بات پرانے زمانے کی ہے۔ آج کی ہوتی تو جواب ملتا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘ دھونے‘ دھلانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ مصرع شاید فیض احمد فیض کا ہے ’’ہرداغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔‘‘
لاہور سے ایک صاحب منور بخاری کا خط آیاہے۔ انہوں نے بھی اردو زبان میں رائج کئی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے بہت پرانی بحث چھیڑ دی ہے کہ انگریزی حرف S سے شروع ہونے والے الفاظ کو جب اردو میں لکھتے یا بولتے ہیں تو ’’س‘‘ سے پہلے الف کیوں لگاتے ہیں جیسے اسپیشل‘ اسکول وغیرہ ایسے اور بھی الفاظ ہیں مثلاً اسٹیشن‘ اسٹول یہ بحث بہت پرانی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسکول‘ اسٹیشن وغیرہ الف سے لکھیں یا بغیر الف کے‘ اسکولوں میں تعلیم اور اسٹیشنوں پر انتظام اچھا ہونا چاہیے۔ یہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں تلفظ کا فرق ہے۔ ہماری ساری تعلیم بہاولپور اور لاہور میں اور پنجابی اساتذہ ہی کے ذریعہ ہوئی ہے۔ وہ اساتذہ بہت واضح طور پر ’’اسکول‘‘ کہتے اور پڑھاتے تھے۔ اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا لیکن ہمارے خیال میں انگریز‘ جن کی یہ زبان ہے‘ وہ ایسے الفاظ کی ادائیگی اس طرح کرتے ہیں کہ الف کی آواز آتی ہے۔ گو کہ یہ بہت ہلکی سی ہوتی ہے۔ لیکن الف نہ لگانے سے ہمارے پنجابی بھائیوں میں سے بہت سوں نے تلفظ مزید بگاڑ لیا ہے۔ مثلاً ’’سٹے شن یا پے شل‘‘ وغیرہ۔ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے لیکن گمان یہ ہے کہ دوسرے صوبوں‘ خاص طور پر خیبرپختونخوا میں بھی اسکول ہی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ایک صاحب عقیل احمد نے اسی مراسلے کے حوالے سے کہا ہے کہ اردو‘ عربی‘ فارسی وغیرہ میں کوئی حرف ’’ساکن الاول‘‘ نہیں ہوتا۔ یعنی اس میں حرکت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں کہ S سے شروع ہونے والا ہر حرف الف کے ساتھ ہوتا ہے۔ ویسے ہم نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی انگریزی اردو لغت میں اسکول تلاش کیا تو انہوں نے الف کے ساتھ اور بغیر الف دونوں ہی دے دیے کہ اب آپ کی مرضی ہے۔ بہرحال یہ بحث کسی نتیجے پر پہنچنے والی نہیں کیونکہ الف نہ لگانے والوں کے پاس اپنی دلیل ہے۔
ایک لفظ ہے ’’پس منظر۔‘‘ اسے عام طور پر ’’پسے منظر‘‘ بولا جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ پس منظر میں ’’س‘‘ ساکن ہے اور اس کا مطلب ہے پیچھے کا منظر۔ جب کہ ’’پسے منظر‘‘ کا مطلب ہوا منظر کے پیچھے۔ ایک اور لفظ ہے ’’تشیع۔‘‘ اسے بھی عام طور پر ’’تشی ع‘‘ بروزن رفیع‘ شفیع کہا جانے لگا ہے۔
ٹی وی پر آنے والے کئی شیعہ علماء میں سے کم ہی ا س کا صحیح تلفظ ادا کرتے ہیں ۔یہ تلفظ شاید مشکل ہونے کی وجہ سے زبان پر آسان کرلیا گیا ہے۔ اس کا صحیح تلفظ ہے ’’تشی یوع‘‘ بروزن تمشع۔ اب کیا پتا لوگ تمشع کا تلفظ کیا کرتے ہیں۔
اردو ادب کے معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس گزر گئے۔ فیض احمد فیض نے جہاں اپنی شاعری میں لوگوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی وہیں ان کی غزلوں اور نظموں نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔ اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں فیض احمد فیض نے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اٹ...
سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی گئیں۱۶دسمبر۱۹۷۱ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعدپھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعدکب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہارخون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعدتھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کےتھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعددل تو چاہا پر شکست...
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
ہم نے سوچا آپ کو شریک مطالعہ کرلیں۔ ڈیفنس کراچی کے فیز آٹھ میں چھ ماہ پہلے تک ایک اتوار بازار لگا کرتا تھا، اب نہیں لگتا۔ بازار کا ٹھیکیدار بے ایمان تھا اور مجاز افسران عالی مقام سخت گیر، نازک مزاج۔ خالصتاً عسکری نقطۂ نگاہ رکھنے والے کہ If you are not with us , you are against...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...