... loading ...
ملک بھر میں ان دنوں جگہ جگہ مویشی منڈی سجی ہیں۔ ان منڈیوں سے جانور گلی گلی اور گھر گھر پہنچ رہے ہیں۔ خوب پزیرائی ہورہی ہے بچوں کی تو عید سے پہلے عید ہوگئی ہے اورلڑکے بالے دوڑیں لگاتے پھررہے ہیں۔ ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات دن رات مویشی منڈیوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ کراچی کی منڈی کے متعلق دعوی ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی یہی ہے۔ اب دعوے کا کیاہے کوئی بھی کردے کچھ بھی کردے۔ ہمیں اس منڈی پر کوئی اعتراض ہے نہ دعوے پر۔۔ہمارا کہنایہ ہے کہ ایشیا کی دیگر منڈیوں کے بارے میں بھی قارئین کو بتایاجائے ! مثلا گائے، بکرے اور اونٹ کی اس منڈی کے بارے میں تو کہہ دیا گیا کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ مگر کسی نے یہ نہیں بتایاکہ ایشیامیں گدھوں کی سب سے بڑی منڈی کب اور کہاں لگتی ہے ؟ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہم نے بحیثیت قوم گدھوں کو نرا گدھا ہی سمجھاہے۔ اُسے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔مغرب میں تو پہلے ہی گدھے کو دانشمندسمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہاں گدھوں کی تعداد اتنی نہیں جتنی مشرق میں ہے۔ اگر گدھوں کو دانشمند سمجھنے والوں کو بھی اس میں شمار کر لیا جائے تو پھر ترتیب بدل سکتی ہے۔
خیر گدھوں کی تعداد پر توبات ہوتی رہے گی۔ ہم ذکر کررہے تھے گدھوں کے میلے یا منڈی کا جو، ہرنئے ہجری سال کی نودس اور گیارہ تاریخ کو ٹنڈو غلام علی، ضلع بدین میں لگتی ہے۔میلہ اسپاں ومویشیاں تو ملک کے کئی مقامات پر منعقد ہوتے ہیں۔ ان کی سرکاری سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔مگر گدھوں کوہر سطح پر نظرانداز ہی کیاجاتارہا۔ بدین میں گدھوں کے اس میلے کے منتظمین کا کہنایہ ہے کہ وہ برسوں سے یہ میلہ منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بہرحال ہماری طرح اہل وطن کی اکثریت گدھوں کے حوالے سے اس صحت مندانہ سرگرمی سے بے خبرتھی اور ہے۔
ہمارے یہاں گدھوں کے بارے میں تاثر منفی ہی رہاہے اب جیسے بقر عیدمیں دیگر جانوروں کو ہار اور زیور پہنائے جارہے ہیں۔ اُسے کبھی ہار پہنانا تو دور کی بات ہے، عوام البتہ کبھی غم وغصے کا اظہار کریں تو کسی بھی ناپسندیدہ شخصیت کے نام کا طوق گدھے کے گلے میں ڈال کر اس پر جوتے یا انکے ہار ڈال دیتے ہیں۔ پھولوں کے ہا رتو گدھوں کو مراکش میں ہی پہنائے جاتے ہیں۔ جہاں ہرسال گدھوں کے میلے میں گدھے ہی مہمان خصوصی بنتے ہیں۔ بات گدھوں کی ہورہی ہے تو آپ کی توجہ رواں سال جون میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کی جانب مبذول کر اتے ہیں۔ جس کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد گز شتہ برس کے مقابلے میں ایک لاکھ بڑھ گئی ہے۔رپورٹ تو یہ اب آئی ہے۔ ہماری تو گزشتہ کئی برس سے ملک کے حالات اور اردگرگرد پر نظر ڈال کر یہ رائے مستحکم ہوگئی تھی کہ گدھوں کی تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے مگر یہ بات کسی سے کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ اکثر لوگوں کو گدھے اور اسکی اولاد کے حوالے سے الفاظ تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہم دیکھتے رہے۔ لیکن کبھی لب کشائی نہ کی کہ اس قدر تعداد بڑھ گئی ہے کہ زبان زدعام ہے۔مبادا کوئی گدھایا اس کا بچہ اسے اپنی آبادی میں اضافے پر اعتراض سمجھے اورہمیں دو لتی ہی نہ جڑدے۔ پھر ہماری بات کوئی مانتا بھی تو کیسے ؟ نہ ہمارا خریات سے کوئی تعلق ہے نہ خرابات سے کوئی واسطہ۔نہ ہی علم گدھا لوجی پرکوئی دسترس۔ جب اس شعبے میں ہماری علمیت بلکہ کم علمی کایہ عالم ہوگاتو کوئی ہماری بات مانے گا ہی کیوں ؟بہرحال اب تو جورپورٹ آئی ہے اس پرتولوگ یقین کرہی لیں گے، یہ توبا لکل ایسے ہی ہے کہ جب کسی نے انکشاف کیاکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مرچ میں وٹامن سی ہوتاہے توایک علامہ نے اس پربرجستہ کہا کہ اب توسب مان ہی لیں گے وگرنہ ہم توکب سے مرچ کھاکرسی سی کررہے تھے اورآپ مان کر ہی نہ دیتے تھے۔خیر اس بار معاملہ الٹ ہورہاہے اب ہمیں اس رپورٹ کے اگلے مندرجات تسلیم کرنے میں تامل ہورہاہے جن کے مطابق پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں گدھوں کی تعداد میں تین لاکھ کااضافہ ہوا۔ یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ وجہ اس کی سیدھی اور صاف ہے کہ پیپلزپارٹی نے تو بھاری بھرکم اختیارات کے ساتھ وزارت بہبود آبادی کا قلمدان اپنی فعال وزیرڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کو تھمایا تھا۔ پھرگدھوں کی آبادی میں اضافہ کیوں کرہوگیا؟ڈاکٹر صاحبہ کے مخالفین یہ کہیں گے جب وہ ترقی پاکر وزیراطلاعات بن گئیں تھیں تب یہ اضافہ ہوا۔ بہرحال وہ کچھ بھی کہیں ہم نہیں مانیں گے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو ڈاکٹر صاحبہ کی وزارت جانے کے بعد یہ سوالات اٹھارہے ہیں جب وہ عہدے پر متمکن تھیں تو کسی کونظر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی سوال توبہت آگے کی بات ہے۔
اقتصادی سروے رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ عہد پرویزی کے عشرے میں تو گدھوں کی تعداد چھ لاکھ ہی بڑھی حالانکہ وہ تو گدھوں کے بہت قدردان تھے۔ مگر ان کے دس برس میں گدھوں کی تعداد کچھ خاص نہ بڑھ سکی ان کے دور کی جہاں بے شمارباتیں قابل گرفت تھیں وہاں گدھوں سے انکی محبت ہمارے لیے ہمیشہ ہی اطمینان کا باعث بنی۔ وہ طویل عرصہ صدر رہے۔ تمام ہی وقت وہ گدھوں کی اور گد ھے انکی حمایت میں رینکتے ( ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے )رہے۔ انہوں نے تو کئی مرتبہ کہا بھی انہیں گدھا گاڑی ریس بہت پسند ہے۔ بس اتنا نہ کہہ سکے وہ اسے قومی کھیل بنا دیں گے۔ البتہ عملی طور پر وہ اس کا مظاہرہ کرتے رہے۔انہوں نے ملک میں برسوں سے جاری ہارس ٹریڈنگ کو بھی روکا اور اسکے بجائے گدھے ہانکنے کا کھیل شروع کیا کیونکہ ہارس ٹریڈنگ میں قیمت فی گھوڑا، ادا کی جا تی ہے جبکہ گدھے ہانکنے کے عمل میں پورے کے پورے غول ہانک لیے جاتے ہیں۔ صاحبانِ ق اور حضرات ِپیٹریاٹ کی اس دلچسپی بجا مگر یہاں تفصیلات بتانے کا محل نہیں۔ ہماری تشویش گدھوں سے بے اعتنائی پر ہے اور وہ رہے گی۔ خواہش یہ ہے کہ بدین میں اگلے ماہ ہونے والے گدھوں کے میلے کی قومی سطح پرپزیرائی کی جائے حکومت بھی اس کی سرکاری سرپرستی کرے۔ نئے پیر صاحب پگارا بھی سرکار دربار میں بہت رسائی رکھتے ہیں۔ اس لیے سرکاری سطح پر گھوڑوں کی بے جا حمایت وسرپرستی کی جاتی ہے ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ تمام قسم کے گدھوں کو ووٹ کا حق دے دیا جائے تاکہ ملک میں بڑھتی گدھوں کی تعداد سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ کم ازکم یہ توممکن ہے کہ کوئی سیاسی جماعت گدھے کو اپنا انتخابی نشان بنالے۔ آخر امریکا، جس کی تقلید میں ہم مٹے مرے جارہے ہیں، میں بھی تو ایک سیاسی جماعت کا نشان گدھا ہے۔پرویزمشرف خود امریکاکے عشق میں گرفتار رہے ہیں، وہ اپنی جماعت کے لیے اس انتخابی نشان میں پہل کریں۔
لیجیے صاحب ٹنڈو غلام علی کے گدھوں کے میلے کی دیگر تفصیلات بتانے کا موقع ہی نہ مل سکااور ساراکالم سیاسی گدھوں کی نذر ہوگیا۔خیر ابھی تو ایک ماہ باقی ہے۔ سو گدھوں پر بات بھی باقی!!!