... loading ...
تابش دہلوی 9 نومبر 1911ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نام سید مسعود الحسن تھا۔ پہلا تخلص بھی مسعود تھا۔ اُنہوں نے پہلا شعر کم وبیش تیرہ برس میں اسی تخلص کے ساتھ کہا کہ
سید مسعود الحسن نے بعد میں تابش تخلص اختیار کیا اور پھر وہ تابش دہلوی کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی پھر اپنے نانا کے پاس حیدرآباد دکن چلے گئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی اور 1932ء میں حیدرآباد کے پوسٹ آفس میں پہلی ملازمت اختیار کی۔ تابش دہلوی 1940ء میں دلی آ گئے اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کا صوتی امتحان (آڈیشن) پطرس بخاری نے لیا۔ بطور صدا کار اور خبرکار وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے۔ قیام ِ پاکستان کے بعد وہ 1947ء میں ہی پاکستان آگئے۔ اور ریڈیو پاکستان سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔ یہاں تک کہ 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
تابش دہلوی کی ادبی زندگی کا آغاز بھی اُن کی پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ ہی بالکل ابتدا میں ہوگیا تھا۔ اُن کی پہلی نظم ماہنامہ ساقی کے اکتوبر 1930ء کے شمارے میں ” دلی”کے عنوان سے شائع ہوئی۔ تابش دہلوی نے فانی بدایونی سے نیاز حاصل کیا۔ تابش دہلوی کے نثری مضامین کا ایک مجموعہ “دید، بازدید”بھی شائع ہو چکا ہے۔ جسے اُن کی یادداشتیں بھی کہا جاسکتا ہے۔
تابش دہلوی شاعری میں اردو نظم و غزل کی کلاسیکی روایت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے بقول ” تابش صاحب کی زندگی میں بڑا رکھ رکھاؤ ہے اور یہی رکھ رکھاؤ ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ “اردو کے اس بزرگ شاعر کے لیے ڈاکٹر ابو الخیر کشفی نے یہ بھی لکھا ہے کہ “اُن کا دل رہن ِ وضع بزرگاں ہے۔ “ڈاکٹر اسلم فرخی نے اُن کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” تابش سوزِ محبت کے شاعر ہیں، محبت کی نرم اور دھیمی آنچ میں جلنے والے حساس اور باشعور فنکار!! ان کی نظمیں اور غزلیں اسی سوزِ محبت کی ترجمان ہیں۔ “مگر سوزِ محبت سے گندھی اسی شاعری پر ماہر القادری کی رائے یہ ہے کہ” تابش کی شاعری میں چھیڑ چھاڑ، لمس وتقبیل اور سطحی اشارے کنائے نہیں ہیں۔ رمزیت اور اشاریت بے شک ہے مگر وہ سنجیدہ ہے، یہی باوقار سنجیدگی ان کے کلام کی امتیازی خصوصیت ہے۔ بلاشبہ اُن کے کلام کے عناصر میں اچھی شاعری کی پورا ارتکاز موجود ہے ۔ جس کی خود اردو شاعری کو بہت ضرورت ہے۔ تابش دہلوی کے شعری مجموعوں میں نیم روز(1963ء)، چراغ صحرا(1982ء)، غبار ِانجم(1984ء)، گوہرانجم()، تقدیس(1984)، ماہِ شکستہ(1993) اور دھوپ چھاؤں (1996) شامل ہیں۔ درد کی تہذیب کے قائل تابش دہلوی 23 ستمبر2004 ء کو کراچی میں وفات پا گئے اورسخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
آسماں سر پہ ہے جہاں جاؤں
یہ زمیں لے کے اب کہاں جاؤں
ہم قدم روزگار کا ہو کر
میں کہاں تک رواں دواں جاؤں
مجھ سے کھوئی گئی شناخت مری
بھیڑ میں ڈھونڈنے کہاں جاؤں
سوئے منزل ہجومِ شوق لیے
میں بھی مانندِ کارواں جاؤں
موسمِ ہجر و وصال اچھا ہے
قریۂ جاں کا یہ سال اچھا ہے
شورشِ عقل سے محفوظ رہیں
جو نہ آئے وہ خیال اچھا ہے
غم کہاں ملتا ہے دل کے بدلے
اتنی قیمت میں یہ مال اچھا ہے
اک شرر ہر نفس میں آتا ہے
سوزِ جاں کس کے بس میں آتا ہے
سر بسر میں اسیر ہوتا ہوں
جب بھی کوئی قفس میں آتا ہے
اس کا دامن میرا گریباں ہو
جب کہیں دسترس میں آتا ہے
دائمی روزِ وَصل اے تابش
دیکھیے کس برس میں آتا ہے
کسی مزدور کا گھر کھلتا ہے
یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
کس سے کھلتا ہے اگر کھلتا ہے
داؤ پر دَیر و حرم دونوں ہیں
دیکھیے کون سا گھر کھلتا ہے
پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
تُو تو دستک پہ دیے جا دستک
بند ہوتا ہے تو در کھلتا ہے
چھوٹی پڑتی ہے اَنا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
ایسی شوریدہ سری سے حاصل
درِ زنداں نہیں سر کھلتا ہے
بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابش
بابِ نظارہ نہ مگر کھلتا ہے
آئی تو ہوائے تازہ لیکن
تنکوں کی طرح بکھر گئے ہم
سورج کی طرح چڑھے ہوئے تھے
دریا کی طرح اتر گئے ہم
بارِ حیات اٹھائیے تنہا اٹھائیے
یہ بوجھ آپ سے نہیں اٹھتا اٹھائیے
وحشت میں خاک اڑانی ہی مقسوم ہے تو پھر
اک مشتِ خاک کیا سرِ صحرا اٹھائیے
ان خفتگانِ راہ کو ہمراہ لے چلیں
قدموں کے ساتھ نقشِ کفِ پا اٹھائیے
بیمارِ عصر جلد شفایاب ہو سکیں
گہوارے سے اک اور مسیحا اٹھائیے
دل میں نفاذِ شوق کی طاقت کہاں سے لائیں
کوزے میں کیا تلاطمِ دریا اٹھائیے
دنیا سے زندگی کا بڑا حوصلہ ملا
احساں کی طرح ہر غمِ دنیا اٹھائیے
نادیدہ منظروں کو اگر چاہیں دیکھنا
اپنی ہی ذات سے کوئی پردہ اٹھائیے
پا مردیوں سے گزرے ہیں جو راہِ شوق میں
پلکوں سے ان کی نقشِ کفِ پا اٹھائیے
تابش سہارا لیجیے نہ امید و بیم کا
تنہا کبھی حجابِ تمنا اٹھائیے
طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا اسے آزاد کرتا ہے
آتی جاتی ہیں جو کوئے جاں سے
ان ہواؤں میں سنک جاتا ہوں
میں تو ہوں شاخِ ثمر وَر تابش
ٹوٹتا کم ہوں لچک جاتا ہوں
اندوہِ جاں ہو یا غم جاناں کوئی تو ہو
کوئی حریفِ شوق تو ہو ہاں کوئی تو ہو
اک ہیولا ہے گھر خرابی کا
ورنہ کیا خاک گھر میں رکھا ہے
محرومیوں میں خوب پناہیں تلاش کیں
میں تھک گیا جہاں اسے منزل کہا گیا
گزرا اسی پہ سہل یہ طوفانِ رنگ و بو
جو موسمِ بہار میں دیوانہ بن گیا
عشق بھی تابش نہیں وجہِ نشاط
اب یہ رسمِ درد بھی دل سے اٹھی
آئینہ در آئینہ در آئینہ ترا حسن
حیراں ہوں تیرے طالبِ دیدار کہاں تک
پھیلی ہوئی ہر سمت کڑی دھوپ ہے تابش
جائے گا کوئی سایۂ دیوار کہاں تک