... loading ...
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ہم آج بھی ان کا ویسا ہی احترام کرتے ہیں جیسا کہ پہلے کرتے تھے۔ آج کل یوں بھی کالم نویسی تعلقاتِ عامہ کی بڑھوتری کا دوسرا نام بن کر رہ گیاہے ۔کہاں کی کوثر و تسنیم میں دھلی زبان اور کہاں کے شستہ اور تاریخی واقعات اور ہلکی پھلکی چٹکیاں۔ آج کل مارکیٹ میں آنے والے کم و بیش تمام اخبارات کے بیشتر کالم نویسوں کے لئے ہمارے وہ دو بزرگ کالم نگار حضرات ہی نشانِ منزل ٹھہرتے ہیں ،جن میں سے راولپنڈی والے بزرگ صحافی نے گارڈن کالج کے ’غیر حاضر ‘ استاد سے لے کر کالم نگاری کے ذریعے وفاقی وزارت اور لاہور والے بزرگ صحافی نے ایک ’غیر حاضر‘ استاد سے لے کر الحمرا کی سربراہی براستا ا سکینڈے نیویا اور تھائی لینڈ کا سفر کیسے طے کیا ہے۔
آج کل مارکیٹ میں آنے والے بیشتر کالم نگاروں کی پود، ان سے ہی متاثر ہو کر قلم اُٹھاتی ہے اور پھر ان ’’بابوں‘‘ کی طرح اپنے روزمرہ معمولات کو کالم میں سمو کر خیال کرتی ہے کہ بس حکومت ِ وقت کی طرف سے قاصد کوئی نہ کوئی پیغام لایا ہی چاہتا ہے ۔ اکثر اوقات انہیں مایوس بھی نہیں ہونا پڑتا۔ حالانکہ ہمارے ان دونوں بزرگوں نے اس کالم نویسی کے علاوہ جو دیگر پس پردہ ’خدمات‘ سرانجام دی ہیں وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو اخبارات کے صفحات سیاہ کرنے میں صرف ہوئیں۔ لیکن ہمارے ان نو آموز کالم نویسوں کو یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اب اخبارات کو دور لد گیا۔ حکمران کون سا پہلے اخبار خود پڑھا کرتے تھے، وہ بھی کسی نہ کسی ’منشی‘ سے ہی سنا کرتے تھے۔ اب یہ کام ٹی وی کے خواتین وحضرات اینکرز نے سنبھال لیا ہے ۔اور وہ منشی کو درمیان سے نکال کر خود ہی اخبار سنانے شام کو ہی ’’صاحب لوگوں ‘‘کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ اب بھلا کون صبح تک اخبار چھپنے کا انتظار کرے؟
بہرحال جب ہمارے کانوں میں یہ الفاظ پڑے تو ہم نیم خوابیدگی کی حالت سے چونکے کہ یہ کون گستاخ ہے؟ الفاظ کچھ یوں تھے کہ ’’لاہور میں پوری صلاحیت ہے کہ وہ اس خطے کا دوسرا بنگلور بن سکے اور میں نے جب اپنے گزشتہ دورہ امریکہ کے دوران سلی کان وادی میں بیٹھے ایک چودہ ارب ڈالر مالیت کی کمپنی کے چیف فنانشیل آفیسر سے پوچھا کہ لاہور میں ان کی کمپنی کی طرف سے کرنے کے لئے دئیے جانے والے کام کے معیار اور رفتار سے وہ کس قدر مطمئن ہیں ؟ تو انہوں نے بلا جھجک کہا کہ وہ ’’لاہور میں ہونے والے کام سے بنگلور میں کئے جانے والے کام سے زیادہ مطمئن ہیں‘‘ ۔ جی ہاں یہ الفاظ ہمارے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل وفاقی وزیر جناب احسن اقبال کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑ رہے تھے اور ہمارے کانوں میں رس گھول رہے تھے ۔تب ہم شریف برادران کے ماڈل ٹاون والے گھر کے پچھواڑے میں بنے ارفع کریم ٹاور میں قائم ’’جامعہ ابلاغی تیکنیک ‘‘ کے کمرہ تقریر میں بیٹھے اُن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم’’ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم ‘‘کی عملی تصویر بنے بیٹھے ڈاکٹر صاحب کو سن رہے تھے جوہمارے لئے امیدوں کے چراغ نہیں بلکہ سورج روشن کر رہے تھے ۔
یہ تقریب دنیا میں ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے سب سے بڑے ادارے ’’ایم آئی ٹی ‘‘ کی دُم کو ’ آئی ٹی یونیورسٹی لاہور ‘ کی دُم کے ساتھ باندھنے کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی۔ اس امر کے باوجود کہ عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اردو زبان کو زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنے کا فیصلہ آ چکا ہے ۔اس تقریب کی ساری کارروائی فرنگی زبان میں جاری تھی۔اس لئے ہم نے بھی اس تحریر میں انتقاماً ان الفاظ کے بھی اردو مترادفات ایسے نکال مارے ہیں جو پہلے خود ہم نے بھی نہیں سنے ۔ تا کہ یہ ثابت کر سکیں کہ ہماری اردو اس قدر بھی تنگ دامن نہیں کہ جدید علوم کو اپنے دامن میں سمو نہ سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال صاحب ہمارے ذرائع ابلاغ کو ڈانٹ رہے تھے کہ وہ ملک کے بارے میں ’’مارے گئے ،لوٹے گئے ‘‘ والی گردان چھوڑ کر کبھی کوئی مثبت بات بھی کر لیا کرے۔ ابھی ہم نے یہ سن کر پوری طرح آنکھیں کھولی بھی نہیں تھیں کہ ہماری نظر اسی کمرہ تقریر میں مہمانانِ خصوصی میں ان کے ساتھ والی نشست پر براجمان اعلیٰ تعلیم کے نگراں ادارے کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد پر پڑ ی۔ موصوف کا اپنا تحقیقی مقالہ باہتّر فی صد سرقے کے ساتھ آج کل کتب خانوں کی نہیں بلکہ اخبارات کی زینت بنا ہوا ہے۔اس سے ان کی علمی لیاقت ہی نہیں بلکہ ملک کے پورے نظام ِتعلیم پرسوالات کھڑے ہوگیے ہیں۔ اب ان کو بغل میں بٹھا کر ایسی باتیں کرنا ہمیں کچھ لایعنی اور بے معنی سا لگا۔تب یوں لگا کہ جیسے احسن اقبال صاحب کے الفاظ اپنے معانی ڈھونڈ رہے ہوں!
ایم آئی ٹی دنیامیں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو جدید ابلاغی علوم اور اس سے متعلقہ مہارتوں کی ترقی میں ایک منفرد شناخت اور اعلیٰ مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ اس حوالے سے ہر روز وہاں سے انسانیت کو کسی نئی ایجاد یا دریافت کی خبر سنائی جاتی ہے ۔ دنیا میں ذرہ برابر بھی علمی اور ایجاداتی صلاحیت کا حامل نوجوان وہاں کا طالب علم ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ اب دنیا کے اس قدر اہم ادارے کے ساتھ پاکستان کے ایک ادارے کا ناطہ یا رشتہ واقعی ایک اہم اور قابلِ فخر امر تھا۔ ہم نے پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال صاحب کی تقریر کے دوران جب اس تحقیقی مجلے کی ورق گردانی کرنا شروع کی تو ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیوں کہ ہم نے جسے ایک تحقیقی مجلہ سمجھ کر ہاتھ لگایا تھا، وہ تو چند صحافی دوستوں کی سطحی تحریروں سے مرصع تھا۔
ارے صاحب یہ کوئی عام مجلہ تھوڑا ہی تھا کہ اس سے صرف نظر کر لیا جائے ؟ اس نوع کے مجلے تو قوموں کے لئے مشعلِ راہ ہوتے ہیں، ان کے لئے ترقی کی نئی راہوں اور زینوں کا پتہ دیتے ہیں اور یوں ان کی تقدیروں کو بدلنے کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسے مجلوں میں تو محض علمی اور نئے تحقیقی مقالے چھپتے ہیں۔ سرقہ تھوڑا ہی ہوتا ہے؟ جب کہ اس مجلے میں محض چند سطحی قسم کے تبصرے، مستقبل کے سہانے خواب۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس دن اسٹیج پر بیٹھا سرقہ باز میرٹ کے عین مطابق ہی وہاں پر بیٹھا ہوا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال پہلے ویژن 2010 کے نام پر اس قوم کو سہانے مستقبل کے خواب دکھاتے رہے اور پھر جب مشرف صاحب آئے تو یہ کام پروفیسر عطاء الرحمن نے سنبھال لیا۔ آج کل احسن اقبال صاحب ویژن 2025 کا چورن بیچتے پائے جا رہے ہیں۔جو آخری اطلاعات تک کافی مہنگے داموں بک رہا ہے۔
ہمارے پیارے پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ آپ اُنہیں بہت ہشیار یا پنجابی میں خچرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے تمام تر پیش کشوں کے باوجود ایسی وزارت پر ہاتھ نہیں ڈالا کہ جہاں کچھ کر کے دکھانا پڑے۔ وزارتِ منصوبہ بندی میں ہر ایک کے منصوبے ہم بنائیں گے اور کارکردگی دوسرے دکھائیں گے ۔ جب میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، سرتاج عزیزوغیرہ کتنے بڑے نام لگتے تھے۔ صرف ڈیڑھ سال میں یہ سارے شیر اپنی کارکردگیوں کے باعث میاوں میاوں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور ادھر میدان میں ڈٹا ہوا ہے ہمارا شیر، پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال اپنے ویژن 2025 کے ساتھ۔ بھئی جب ہمارے ذمے کچھ کرنا ہے ہی نہیں ،بلکہ محض باتیں ہی کرنا ہے تو کروا لو ہم سے جتنی مرضی باتیں ۔ اگر باتوں سے بجلی بن سکتی تو صرف پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال کی باتوں سے ہی ہم پورا پاکستان روشن کر سکتے تھے۔
اس مجلے کو جسے ’’ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، اسے دیکھ کر ہمیں پتہ چلا کہ جناب عمر سیف صاحب کے لئے ان کے ابا جی ، کرنل سیف ، نے میاں صاحبان کی خدمت ِ اقدس میں رہ کر جو خدمات سرانجام دی تھیں وہ رائیگاں نہیں گئیں۔ ظاہر ہے ایک نسل قربانی دیتی ہے تو دوسری کو اس کا پھل ملتا ہے بشرطیکہ میاں صاحبان کو اس خدمت گزار بندے کا نام یاد رہ جائے ۔ورنہ تو اُسے آجاسم شریف بن کر تحریکِ انصاف میں جانا پڑتا ہے ۔ اس سے ایک بات اور بھی ظاہر ہوئی کہ ہمارا آئی ٹی کا شعبہ بھی انہی ہاتھوں میں ہے جن ہاتھوں میں بجلی سازی کا نندی پور منصوبہ ، اور چنیوٹ سے سونا چاندی لوہا نکالنے والے منصوبے ہیں۔ مگر خبردار آپ اسے جعلسازوں کے ہاتھوں میں نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ اِسی طرح کے الفاظ ادا کرنے والوں کو ہی تو ہمارے احسن اقبال صاحب اپنی تقریر میں ڈانٹ رہے تھے۔ اور ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کچھ اچھی نہیں لگتی۔
لاہور میں بتی چوک کے قریب پولیس کی شیلنگ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، آنسو گیس کے گولوں کے بھرپور استعمال کے باوجود پی ٹی آئی کارکنان نے پیش قدمی جاری رکھی، پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ لاہور کا بتی چوک پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے مابین میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے کارکنان پر لاٹھی چا...
صوبائی دارالحکومت لاہور کے قدیم تجارتی مرکز انارکلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں دھماکے کے نتیجے میں بچے سمیت 3 افراد جاں بحق جبکہ 28زخمی ہو گئے جن میں سے 6کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے کے بعد آگ بھی لگ گئی ، دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی جبکہ قریبی ع...
کم عمری میں ہی پاکستان کی پہچان بننے والی کم عمرترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا کی دسویں برسی منائی گئی ،انہیں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل تھا۔ارفع کریم 2 فروری 1995 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئیں اورصرف 9 برس کی عمر میں د...
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ آئین انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، معلومات اور خواتین کی تعلیم کا حصول اہم بنیادی حقوق ہیں، عدالتی فیصلہ ہے وزیراعظم بطور پارٹی لیڈر سرکاری میڈیا پر بات کرے تو اپوزیشن کو برابر کا وقت ملنا چاہیے۔ لاہور میں انسانی حقوق کی ع...
وزارتِ داخلہ نے صوبائی دارالحکومت لاہور کے بعض علاقوں میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے باعث انٹرنیٹ بند کرنے کی ہدایت کردی۔ وزارت داخلہ کے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کو لکھے خط میں وزارتِ داخلہ نے پی ٹی اے او کو لاہور کے علاقے سمن آباد، شیرا کوٹ، نواں کوٹ، گلشن راوی میں ان...
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
دستر خوانی قبیلے کی یہ خواہش ہے کہ عام لوگ اس نظام کی حفاظت کے لیے ترک عوام کی طرح قربانی دیں۔ اُس نظام کی حفاظت کے لیے جس کے وہ دراصل فیض یافتہ ہیں مگر عام لوگ اسے جمہوریت کے نام پر بچائیں۔ حریتِ فکر وہ سرشار کرنے والا جذبہ ہے جسے انسان اپنے شرف کے ساتھ منسلک کرکے دیکھتا ہے۔ سرم...