وجود

... loading ...

وجود

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام!

منگل 22 ستمبر 2015 ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام!

MIT-Building

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ہم آج بھی ان کا ویسا ہی احترام کرتے ہیں جیسا کہ پہلے کرتے تھے۔ آج کل یوں بھی کالم نویسی تعلقاتِ عامہ کی بڑھوتری کا دوسرا نام بن کر رہ گیاہے ۔کہاں کی کوثر و تسنیم میں دھلی زبان اور کہاں کے شستہ اور تاریخی واقعات اور ہلکی پھلکی چٹکیاں۔ آج کل مارکیٹ میں آنے والے کم و بیش تمام اخبارات کے بیشتر کالم نویسوں کے لئے ہمارے وہ دو بزرگ کالم نگار حضرات ہی نشانِ منزل ٹھہرتے ہیں ،جن میں سے راولپنڈی والے بزرگ صحافی نے گارڈن کالج کے ’غیر حاضر ‘ استاد سے لے کر کالم نگاری کے ذریعے وفاقی وزارت اور لاہور والے بزرگ صحافی نے ایک ’غیر حاضر‘ استاد سے لے کر الحمرا کی سربراہی براستا ا سکینڈے نیویا اور تھائی لینڈ کا سفر کیسے طے کیا ہے۔

آج کل مارکیٹ میں آنے والے بیشتر کالم نگاروں کی پود، ان سے ہی متاثر ہو کر قلم اُٹھاتی ہے اور پھر ان ’’بابوں‘‘ کی طرح اپنے روزمرہ معمولات کو کالم میں سمو کر خیال کرتی ہے کہ بس حکومت ِ وقت کی طرف سے قاصد کوئی نہ کوئی پیغام لایا ہی چاہتا ہے ۔ اکثر اوقات انہیں مایوس بھی نہیں ہونا پڑتا۔ حالانکہ ہمارے ان دونوں بزرگوں نے اس کالم نویسی کے علاوہ جو دیگر پس پردہ ’خدمات‘ سرانجام دی ہیں وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو اخبارات کے صفحات سیاہ کرنے میں صرف ہوئیں۔ لیکن ہمارے ان نو آموز کالم نویسوں کو یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اب اخبارات کو دور لد گیا۔ حکمران کون سا پہلے اخبار خود پڑھا کرتے تھے، وہ بھی کسی نہ کسی ’منشی‘ سے ہی سنا کرتے تھے۔ اب یہ کام ٹی وی کے خواتین وحضرات اینکرز نے سنبھال لیا ہے ۔اور وہ منشی کو درمیان سے نکال کر خود ہی اخبار سنانے شام کو ہی ’’صاحب لوگوں ‘‘کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ اب بھلا کون صبح تک اخبار چھپنے کا انتظار کرے؟

بہرحال جب ہمارے کانوں میں یہ الفاظ پڑے تو ہم نیم خوابیدگی کی حالت سے چونکے کہ یہ کون گستاخ ہے؟ الفاظ کچھ یوں تھے کہ ’’لاہور میں پوری صلاحیت ہے کہ وہ اس خطے کا دوسرا بنگلور بن سکے اور میں نے جب اپنے گزشتہ دورہ امریکہ کے دوران سلی کان وادی میں بیٹھے ایک چودہ ارب ڈالر مالیت کی کمپنی کے چیف فنانشیل آفیسر سے پوچھا کہ لاہور میں ان کی کمپنی کی طرف سے کرنے کے لئے دئیے جانے والے کام کے معیار اور رفتار سے وہ کس قدر مطمئن ہیں ؟ تو انہوں نے بلا جھجک کہا کہ وہ ’’لاہور میں ہونے والے کام سے بنگلور میں کئے جانے والے کام سے زیادہ مطمئن ہیں‘‘ ۔ جی ہاں یہ الفاظ ہمارے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل وفاقی وزیر جناب احسن اقبال کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑ رہے تھے اور ہمارے کانوں میں رس گھول رہے تھے ۔تب ہم شریف برادران کے ماڈل ٹاون والے گھر کے پچھواڑے میں بنے ارفع کریم ٹاور میں قائم ’’جامعہ ابلاغی تیکنیک ‘‘ کے کمرہ تقریر میں بیٹھے اُن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم’’ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم ‘‘کی عملی تصویر بنے بیٹھے ڈاکٹر صاحب کو سن رہے تھے جوہمارے لئے امیدوں کے چراغ نہیں بلکہ سورج روشن کر رہے تھے ۔

یہ تقریب دنیا میں ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے سب سے بڑے ادارے ’’ایم آئی ٹی ‘‘ کی دُم کو ’ آئی ٹی یونیورسٹی لاہور ‘ کی دُم کے ساتھ باندھنے کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی۔ اس امر کے باوجود کہ عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اردو زبان کو زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنے کا فیصلہ آ چکا ہے ۔اس تقریب کی ساری کارروائی فرنگی زبان میں جاری تھی۔اس لئے ہم نے بھی اس تحریر میں انتقاماً ان الفاظ کے بھی اردو مترادفات ایسے نکال مارے ہیں جو پہلے خود ہم نے بھی نہیں سنے ۔ تا کہ یہ ثابت کر سکیں کہ ہماری اردو اس قدر بھی تنگ دامن نہیں کہ جدید علوم کو اپنے دامن میں سمو نہ سکے۔

حسن اقبال صاحب ذرائع ابلاغ کو ڈانٹ رہے تھے کہ وہ ملک کے بارے میں ’’مارے گئے ،لوٹے گئے ‘‘ والی گردان چھوڑ کر کبھی کوئی مثبت بات بھی کر لیا کرے

پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال صاحب ہمارے ذرائع ابلاغ کو ڈانٹ رہے تھے کہ وہ ملک کے بارے میں ’’مارے گئے ،لوٹے گئے ‘‘ والی گردان چھوڑ کر کبھی کوئی مثبت بات بھی کر لیا کرے۔ ابھی ہم نے یہ سن کر پوری طرح آنکھیں کھولی بھی نہیں تھیں کہ ہماری نظر اسی کمرہ تقریر میں مہمانانِ خصوصی میں ان کے ساتھ والی نشست پر براجمان اعلیٰ تعلیم کے نگراں ادارے کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد پر پڑ ی۔ موصوف کا اپنا تحقیقی مقالہ باہتّر فی صد سرقے کے ساتھ آج کل کتب خانوں کی نہیں بلکہ اخبارات کی زینت بنا ہوا ہے۔اس سے ان کی علمی لیاقت ہی نہیں بلکہ ملک کے پورے نظام ِتعلیم پرسوالات کھڑے ہوگیے ہیں۔ اب ان کو بغل میں بٹھا کر ایسی باتیں کرنا ہمیں کچھ لایعنی اور بے معنی سا لگا۔تب یوں لگا کہ جیسے احسن اقبال صاحب کے الفاظ اپنے معانی ڈھونڈ رہے ہوں!

اب کسے راہنما کرے کوئی!

ایم آئی ٹی دنیامیں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو جدید ابلاغی علوم اور اس سے متعلقہ مہارتوں کی ترقی میں ایک منفرد شناخت اور اعلیٰ مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ اس حوالے سے ہر روز وہاں سے انسانیت کو کسی نئی ایجاد یا دریافت کی خبر سنائی جاتی ہے ۔ دنیا میں ذرہ برابر بھی علمی اور ایجاداتی صلاحیت کا حامل نوجوان وہاں کا طالب علم ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ اب دنیا کے اس قدر اہم ادارے کے ساتھ پاکستان کے ایک ادارے کا ناطہ یا رشتہ واقعی ایک اہم اور قابلِ فخر امر تھا۔ ہم نے پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال صاحب کی تقریر کے دوران جب اس تحقیقی مجلے کی ورق گردانی کرنا شروع کی تو ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیوں کہ ہم نے جسے ایک تحقیقی مجلہ سمجھ کر ہاتھ لگایا تھا، وہ تو چند صحافی دوستوں کی سطحی تحریروں سے مرصع تھا۔

ارے صاحب یہ کوئی عام مجلہ تھوڑا ہی تھا کہ اس سے صرف نظر کر لیا جائے ؟ اس نوع کے مجلے تو قوموں کے لئے مشعلِ راہ ہوتے ہیں، ان کے لئے ترقی کی نئی راہوں اور زینوں کا پتہ دیتے ہیں اور یوں ان کی تقدیروں کو بدلنے کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسے مجلوں میں تو محض علمی اور نئے تحقیقی مقالے چھپتے ہیں۔ سرقہ تھوڑا ہی ہوتا ہے؟ جب کہ اس مجلے میں محض چند سطحی قسم کے تبصرے، مستقبل کے سہانے خواب۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس دن اسٹیج پر بیٹھا سرقہ باز میرٹ کے عین مطابق ہی وہاں پر بیٹھا ہوا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال پہلے ویژن 2010 کے نام پر اس قوم کو سہانے مستقبل کے خواب دکھاتے رہے اور پھر جب مشرف صاحب آئے تو یہ کام پروفیسر عطاء الرحمن نے سنبھال لیا۔ آج کل احسن اقبال صاحب ویژن 2025 کا چورن بیچتے پائے جا رہے ہیں۔جو آخری اطلاعات تک کافی مہنگے داموں بک رہا ہے۔

ہمارے پیارے پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ آپ اُنہیں بہت ہشیار یا پنجابی میں خچرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے تمام تر پیش کشوں کے باوجود ایسی وزارت پر ہاتھ نہیں ڈالا کہ جہاں کچھ کر کے دکھانا پڑے۔ وزارتِ منصوبہ بندی میں ہر ایک کے منصوبے ہم بنائیں گے اور کارکردگی دوسرے دکھائیں گے ۔ جب میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، سرتاج عزیزوغیرہ کتنے بڑے نام لگتے تھے۔ صرف ڈیڑھ سال میں یہ سارے شیر اپنی کارکردگیوں کے باعث میاوں میاوں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور ادھر میدان میں ڈٹا ہوا ہے ہمارا شیر، پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال اپنے ویژن 2025 کے ساتھ۔ بھئی جب ہمارے ذمے کچھ کرنا ہے ہی نہیں ،بلکہ محض باتیں ہی کرنا ہے تو کروا لو ہم سے جتنی مرضی باتیں ۔ اگر باتوں سے بجلی بن سکتی تو صرف پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال کی باتوں سے ہی ہم پورا پاکستان روشن کر سکتے تھے۔

اس مجلے کو جسے ’’ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، اسے دیکھ کر ہمیں پتہ چلا کہ جناب عمر سیف صاحب کے لئے ان کے ابا جی ، کرنل سیف ، نے میاں صاحبان کی خدمت ِ اقدس میں رہ کر جو خدمات سرانجام دی تھیں وہ رائیگاں نہیں گئیں۔ ظاہر ہے ایک نسل قربانی دیتی ہے تو دوسری کو اس کا پھل ملتا ہے بشرطیکہ میاں صاحبان کو اس خدمت گزار بندے کا نام یاد رہ جائے ۔ورنہ تو اُسے آجاسم شریف بن کر تحریکِ انصاف میں جانا پڑتا ہے ۔ اس سے ایک بات اور بھی ظاہر ہوئی کہ ہمارا آئی ٹی کا شعبہ بھی انہی ہاتھوں میں ہے جن ہاتھوں میں بجلی سازی کا نندی پور منصوبہ ، اور چنیوٹ سے سونا چاندی لوہا نکالنے والے منصوبے ہیں۔ مگر خبردار آپ اسے جعلسازوں کے ہاتھوں میں نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ اِسی طرح کے الفاظ ادا کرنے والوں کو ہی تو ہمارے احسن اقبال صاحب اپنی تقریر میں ڈانٹ رہے تھے۔ اور ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کچھ اچھی نہیں لگتی۔


متعلقہ خبریں


لاہور، بتی چوک میدان جنگ بن گیا، پولیس کی شدید شیلنگ، یاسمین راشد کی گاڑی نشانا وجود - بدھ 25 مئی 2022

لاہور میں بتی چوک کے قریب پولیس کی شیلنگ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، آنسو گیس کے گولوں کے بھرپور استعمال کے باوجود پی ٹی آئی کارکنان نے پیش قدمی جاری رکھی، پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ لاہور کا بتی چوک پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے مابین میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے کارکنان پر لاٹھی چا...

لاہور، بتی چوک میدان جنگ بن گیا، پولیس کی شدید شیلنگ، یاسمین راشد کی گاڑی نشانا

انارکلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں دھماکا، بچے سمیت3افراد جاں بحق ،28 زخمی وجود - جمعرات 20 جنوری 2022

صوبائی دارالحکومت لاہور کے قدیم تجارتی مرکز انارکلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں دھماکے کے نتیجے میں بچے سمیت 3 افراد جاں بحق جبکہ 28زخمی ہو گئے جن میں سے 6کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے کے بعد آگ بھی لگ گئی ، دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی جبکہ قریبی ع...

انارکلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں دھماکا، بچے سمیت3افراد جاں بحق ،28 زخمی

دنیا کی کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ کو بچھڑے 10 برس بیت گئے وجود - هفته 15 جنوری 2022

کم عمری میں ہی پاکستان کی پہچان بننے والی کم عمرترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا کی دسویں برسی منائی گئی ،انہیں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز حاصل تھا۔ارفع کریم 2 فروری 1995 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئیں اورصرف 9 برس کی عمر میں د...

دنیا کی کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ کو بچھڑے 10 برس بیت گئے

سرکاری میڈیا پر اپوزیشن کو برابر وقت ملنا چاہیے،جسٹس فائز عیسیٰ وجود - هفته 20 نومبر 2021

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ آئین انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، معلومات اور خواتین کی تعلیم کا حصول اہم بنیادی حقوق ہیں، عدالتی فیصلہ ہے وزیراعظم بطور پارٹی لیڈر سرکاری میڈیا پر بات کرے تو اپوزیشن کو برابر کا وقت ملنا چاہیے۔ لاہور میں انسانی حقوق کی ع...

سرکاری میڈیا پر اپوزیشن کو برابر وقت ملنا چاہیے،جسٹس فائز عیسیٰ

کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج ، وزارت داخلہ کی لاہورکے بعض علاقوں میں انٹرنیٹ بند کرنے کی ہدایت وجود - جمعرات 21 اکتوبر 2021

وزارتِ داخلہ نے صوبائی دارالحکومت لاہور کے بعض علاقوں میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے باعث انٹرنیٹ بند کرنے کی ہدایت کردی۔ وزارت داخلہ کے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کو لکھے خط میں وزارتِ داخلہ نے پی ٹی اے او کو لاہور کے علاقے سمن آباد، شیرا کوٹ، نواں کوٹ، گلشن راوی میں ان...

کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج ، وزارت داخلہ کی لاہورکے بعض علاقوں میں انٹرنیٹ بند کرنے کی ہدایت

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

جنت سے بچوں کا اغوا وجود - جمعرات 04 اگست 2016

دستر خوانی قبیلے کی یہ خواہش ہے کہ عام لوگ اس نظام کی حفاظت کے لیے ترک عوام کی طرح قربانی دیں۔ اُس نظام کی حفاظت کے لیے جس کے وہ دراصل فیض یافتہ ہیں مگر عام لوگ اسے جمہوریت کے نام پر بچائیں۔ حریتِ فکر وہ سرشار کرنے والا جذبہ ہے جسے انسان اپنے شرف کے ساتھ منسلک کرکے دیکھتا ہے۔ سرم...

جنت سے بچوں کا اغوا

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر