وجود

... loading ...

وجود

لوک ادب

پیر 21 ستمبر 2015 لوک ادب

folk-tales

قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ انسان نے داستان گوئی کا آغاز آپس میں بات چیت سے کیا۔ ابتداء میں انسان تصویروں اور شکلوں کے ذریعے باتوں کے علاوہ کہانیاں بھی ایک دوسرے کو سمجھاتا تھا۔بلا شُبہ کہانی اسی وقت وجود میں آ گئی تھی۔ جب سے انسان نے ایک دوسرے سے بات کرنا اور بات سمجھانا شروع کیا۔ ماضی کا انسان آج کے انسان کی طرح ایک دوسرے کو اپنے کارنامے سناتا تھا۔ اس وقت کا ابن ِ آدم بھی اپنی اور اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لئے واقعات بیان کرتا۔جس طرح آج کے دور میں سفر نامہ لکھا جاتا ہے۔ماضی کا انسان بھی سفر کے دوران کیے جانے والے مشاہدات کو دوسرے کے علم میں لاتا تھا۔

اکثر اوقات لوک کہانیوں کا مفہوم درست طریقے سے نہیں لیا جاتا ۔ تقریباً تمام زبانوں میں یہ ’’گڈ مڈ ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔دانشور اور لکھاری بھی اس حوالے غلطی کر جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوک کہانیوں کے مفہوم، تاریخ اور اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔اسی وجہ سے لوگوں کو ان کے مفہوم سے مکمل آگاہی نہیں ہے۔

تحریرکی ابتداکب ہوئی؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔لیکن جہاں سے تحریر کی ابتدا ہوئی، وہیں سے تحریری کہانی وجود میں آئی۔

لوک داستانوں اور کہانیوں (Folk Tales)، پریوں کی کہانیاں (Fairy Tales)، جانوروں کی کہانیاں (Fables) جنات اور بھوتوں کی کہانیاں ہر دور میں لوگوں کی دلچسپی کا باعث رہی ہیں۔کچھ قدیم داستانیں ماضی بعید میں تحریر کی گئیں لیکن وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کب تحریر ہوئیں۔اگر ان قدیم کہانیوں ، داستانوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں اور داستانیں صدیوں کا سفر طے کرکے آئی ہیں۔ یہ کسی ایک شخص یا ایک ذہن کی تخلیق نہیں بلکہ کئی ادوار اور کئی زمانے کے لوگوں نے مل جُل کر ان کو تشکیل دیا ہے۔۔لوک کہانیوں کا کوئی ایک لکھاری نہیں ہوتا۔یہ سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی ہیں۔اور تہذیبی امانتوں کے طور پر زندہ رہتی ہیں۔دنیا میں کسی بھی ایک ادب کی تاریخ کسی ایک لوک کہانی کے کسی ایک مصنف کانام نہیں بتا سکتی۔اگر کوئی نام کسی لوک کہانی کی کتاب پر آتا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نے لوک کہانیوں کو تلاش کیا، محفوظ کیا، اور خوبصورت زبان اور دلچسپ روپ اور تصورات کے خوبصورت رنگوں کو جمع کیا۔در حقیقت ہر لوک کہانی ہزاروں لوگوں کی مشترکہ تصنیف یا تخلیق ہوتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں تحریر ہے کہ

’’اگر یہ فرض کیا جائے کہ لوک کہانیوں کا رشتہ یکساں طور پر قدیم زمانے سے ہے۔چونکہ ان مقبول لوک گیتوں لوک کہانیوں کا مصنف کوئی فردِ واحد ایسا نہیں ہے جس کا پتہ چلایا جاسکے۔یا جس کا نام لیا جا سکے۔اس لئے یہی کہا جائے گا کہ یہ تمام لوک گیت ، لوک کہانیاں اور رزمیے تمام عوام کی مشترکہ تخلیق ہیں‘‘

عام طور پر لوک کہانیوں کو جنوں، پریوں اور بھوتوں کی کہانیاں قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ دنیا کے ہر زبان کے قدیم ادب کی بنیا دیہی کہانیاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں ان کا مطالعہ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔اگر آپ قدیم اردو ادب کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو لوک کہانیاں ہر جگہ نظر آئیں گی ۔ داستانوی ، کلاسیکل ادب دیکھ لیں آپ کو ان کا ثبوت مل جائے گا۔آج ہم جو ناول ، افسانہ، کہانی ، ناولٹ ، داستان اور مثنوی دیکھ رہیں یہ تمام لوک کہانیوں ہی کے مرہونِ منت ہیں۔

اُمراوتی کی کتھائیں، ایسپ کی کہانیاں، مہاتما بدھ سے منسوب لوک کہانیاں،جین شاستر،پنج تنتر، کلیلہ دمنہ،عیار دانش، بوستانِ خیال،کتھا سرت ساگر،ہتو پدیش، برمت کتھا،تک شک ستپتنی ، بے تال بیتسی،سنگھاسن بتیسی، چندر کانتا، وکرم اور بے تال ، ہزار داستان الف لیلہ، ست سندھی،داستانِ امیر حمزہ ، طلسم ہوش رُباء وغیرہ اس قسم کے سینکڑوں داستانوی مجموعے لوک کہانیوں کو سامنے رکھ کر مرتب کئے گئے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ فارسی زبان کے سب سے بڑے صوفی شاعر جلال الدین رومی کی مثنوی میں بھی عوامی کہانیوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا کہ ساری دنیا کے ادب کی بنیاد اور ماخذ لوک ادب ہے۔لوک گیت اور کہانیاں ہزاروں سالوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ان میں سے اکثر ایسی ہیں جو ایک دوسرے سے ملتی جُلتی ہیں۔ سنسکرت، عربی، فارسی، چینی، جاپانی اور ہندی زبان کی لوک کہانیوں اور داستانوں میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔البتہ شمالی امریکا، کا لوک ادب (لوک کہانیاں اور لوک گیت ) دنیا بھر کے لوک ادب سے مختلف ہے۔

سنسکرت، عربی، فارسی، چینی، جاپانی اور ہندی زبان کی لوک کہانیوں اور داستانوں میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے

لوک ادب کے بارے میں یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ تحریری ادب نہیں ہوتا بلکہ سینہ بہ سینہ چلتا ہے۔ برسوں بلکہ صدیوں سے یہ سرمایہ اسی طرح ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔مختلف اقوام کے میل جول کی وجہ سے ایک قوم کی تمدنی روایت دوسری قوم کی کہانیوں یا لوک ادب میں شامل ہو جاتی ہے۔لوک کہانیاں چاہے مغرب کی ہوں یا مشرق کی ان سب میں جنوں ، بھوتوں اور پریوں کے قصے، نیکی کا سبق ، برائی سے نفرت ، دوستی کے راستے، جان کی بازی لگا دینے والے سورما، جنوں سے مقابلہ کرنے والے بہادرموجود ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ایک ملک کی پریاں اُڑ کر دوسرے ملک چلی جاتی ہیں۔ دھُن کے پکے عاشق شہزادے سنہری بالوں والی شہزادی کوکسی دیو کی قید سے آزاد کروانے کے لئے شہر شہر اور دیس دیس کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔پہاڑوں کی بلندیاں اور سمند ر ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ان کتھاؤں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔

دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ صرف تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں۔ لوک کہانیوں کے ظالم یا نیک بادشاہ ان گنت لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ یہ لوک ادب کا ہی کمال ہے۔کسی بھی علاقے یا ملک کی لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لئے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لوک کہانیوں میں سب سے زیادہ جادوئی،فسوں بھری، دل ودماغ کو اپنے قابو میں کرنے والی اور اپنے سحر میں جکڑنے والی الف لیلہ ہزار داستان ہے۔یہ لوک کہانیوں کا سب سے ضخیم ترین مجموعہ ہے ۔ الف لیلہ کی ہر کہانی داستان گوئی کا ایک شاہکار ہے۔اس کی ٹیکنیک سب سے جُدا ہے۔ اس کے آغاز سے آخر تک ایک داستان سے دوسری کہانی نکلتی چلی جاتی ہے۔اس کا ہر کردار برمحل اور کہانی کی بُنت خوبصورت ہے۔الف لیلہ کی پہلی کہانی کا آغاز بادشاہ شہر یار اور اس کے بھائی شاہ زمان سے ہوتا ہے۔اس کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ملکہ شہر زاد ہے ۔شہر زاد ہر روز بادشاہ کو ایک نئی کہانی سُنا کر اپنی موت کے آخری فرمان کو ٹالتی ہے۔اس کی ہر کہانی منفرد نوعیت کی ہوتی ہے۔ان میں جنوں ، بھوتوں ، پریوں سمیت ہر شعبے کے لوگوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر تاجر اور جن کی کہانی،ماہی گیر اور جن کی کہانی ، شہزادے اور چُڑیل کا قصہ ، قصہ خاوند اور طوطے کا ، بوڑھی خاتون کی کہانی ، پرنس احمد اور پری بانو کی کہانی ، بڑی لڑکی کی کہانی، یہودی ڈاکٹر کی کہانی ، حجام کی کہانی ، درزی کی کہانی ، چار بھائیوں کی کہانی وغیرہ شامل ہیں۔ ’’اندھے آدمی اور بابا عبد اللہ کی کہانی سماجی مسائل کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ پرنس احمد اور پری بانو کی کہانی مسحور کن کہانی ہے۔ اللہ دین کی کہانی نے جادوئی چراغ کے جن کو اس قدر مقبولیت عطا کی کہ آج تک اس پر کئی فلمیں ، ڈرامے اور کارٹوں موویز بن چُکی ہیں۔اس کہانی میں اس کا ونڈر فُل لیمپ دلکشی کے رنگ بھر تا ہے۔علی بابا چالیس چور کہانی بھی ایک خوبصورت داستان ہے۔ بہت سے لوگ علی بابا کے کردار کو درست معنوں اور اصطلاح میں استعمال نہیں کرتے ۔علی بابا اس کہانی میں اپنی دانش مند ملازمہ ’’ مرجینا ‘‘ کے ساتھ مل کر لالچ اور برائی کا مقابلہ نیکی سے کرتا ہے۔

لوک کہانیوں کی مقبولیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔ چھوٹے بچوں سے لیکر بڑے بوڑھوں تک کو ان میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ’’لوک ادب‘‘ ایسا ادب ہے جو ہر معاشرے میں سب سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔اس میں سنہری تصورات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ان میں الفاظ کی بجائے جادو بھرے خیالات کو خوبصورتی سے استعمال کیا جاتا ہے۔روز مرہ زندگی کی تلخیاں مٹانے کے لئے لوک کہانیوں کی تصوراتی دنیا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ آپ بھی روز مرہ کی بھیڑ بھاڑ اور تلخی کو ایک طرف چھوڑ کر تصورات کے سنہرے سمندر میں ڈوب جائیں۔


متعلقہ خبریں


پنجاب کے جنگلات کی تباہی نیلوفر کھر - پیر 02 نومبر 2015

کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا...

پنجاب کے جنگلات کی تباہی

جرائم کی ملکہ نیلوفر کھر - اتوار 18 اکتوبر 2015

سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر ا...

جرائم کی ملکہ

فطرت کے سفیروں کا قتلِ عام نیلوفر کھر - هفته 10 اکتوبر 2015

موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران...

فطرت کے سفیروں کا قتلِ عام

لیڈی گارنیٹ کا آسیب نیلوفر کھر - جمعه 11 ستمبر 2015

آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...

لیڈی گارنیٹ کا آسیب

ایک بوند زہر نیلوفر کھر - هفته 05 ستمبر 2015

ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھی...

ایک بوند زہر

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر