... loading ...
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ انسان نے داستان گوئی کا آغاز آپس میں بات چیت سے کیا۔ ابتداء میں انسان تصویروں اور شکلوں کے ذریعے باتوں کے علاوہ کہانیاں بھی ایک دوسرے کو سمجھاتا تھا۔بلا شُبہ کہانی اسی وقت وجود میں آ گئی تھی۔ جب سے انسان نے ایک دوسرے سے بات کرنا اور بات سمجھانا شروع کیا۔ ماضی کا انسان آج کے انسان کی طرح ایک دوسرے کو اپنے کارنامے سناتا تھا۔ اس وقت کا ابن ِ آدم بھی اپنی اور اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کے لئے واقعات بیان کرتا۔جس طرح آج کے دور میں سفر نامہ لکھا جاتا ہے۔ماضی کا انسان بھی سفر کے دوران کیے جانے والے مشاہدات کو دوسرے کے علم میں لاتا تھا۔
اکثر اوقات لوک کہانیوں کا مفہوم درست طریقے سے نہیں لیا جاتا ۔ تقریباً تمام زبانوں میں یہ ’’گڈ مڈ ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔دانشور اور لکھاری بھی اس حوالے غلطی کر جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوک کہانیوں کے مفہوم، تاریخ اور اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔اسی وجہ سے لوگوں کو ان کے مفہوم سے مکمل آگاہی نہیں ہے۔
تحریرکی ابتداکب ہوئی؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔لیکن جہاں سے تحریر کی ابتدا ہوئی، وہیں سے تحریری کہانی وجود میں آئی۔
لوک داستانوں اور کہانیوں (Folk Tales)، پریوں کی کہانیاں (Fairy Tales)، جانوروں کی کہانیاں (Fables) جنات اور بھوتوں کی کہانیاں ہر دور میں لوگوں کی دلچسپی کا باعث رہی ہیں۔کچھ قدیم داستانیں ماضی بعید میں تحریر کی گئیں لیکن وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کب تحریر ہوئیں۔اگر ان قدیم کہانیوں ، داستانوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں اور داستانیں صدیوں کا سفر طے کرکے آئی ہیں۔ یہ کسی ایک شخص یا ایک ذہن کی تخلیق نہیں بلکہ کئی ادوار اور کئی زمانے کے لوگوں نے مل جُل کر ان کو تشکیل دیا ہے۔۔لوک کہانیوں کا کوئی ایک لکھاری نہیں ہوتا۔یہ سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی ہیں۔اور تہذیبی امانتوں کے طور پر زندہ رہتی ہیں۔دنیا میں کسی بھی ایک ادب کی تاریخ کسی ایک لوک کہانی کے کسی ایک مصنف کانام نہیں بتا سکتی۔اگر کوئی نام کسی لوک کہانی کی کتاب پر آتا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نے لوک کہانیوں کو تلاش کیا، محفوظ کیا، اور خوبصورت زبان اور دلچسپ روپ اور تصورات کے خوبصورت رنگوں کو جمع کیا۔در حقیقت ہر لوک کہانی ہزاروں لوگوں کی مشترکہ تصنیف یا تخلیق ہوتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برطانیکا میں تحریر ہے کہ
’’اگر یہ فرض کیا جائے کہ لوک کہانیوں کا رشتہ یکساں طور پر قدیم زمانے سے ہے۔چونکہ ان مقبول لوک گیتوں لوک کہانیوں کا مصنف کوئی فردِ واحد ایسا نہیں ہے جس کا پتہ چلایا جاسکے۔یا جس کا نام لیا جا سکے۔اس لئے یہی کہا جائے گا کہ یہ تمام لوک گیت ، لوک کہانیاں اور رزمیے تمام عوام کی مشترکہ تخلیق ہیں‘‘
عام طور پر لوک کہانیوں کو جنوں، پریوں اور بھوتوں کی کہانیاں قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ دنیا کے ہر زبان کے قدیم ادب کی بنیا دیہی کہانیاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں ان کا مطالعہ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔اگر آپ قدیم اردو ادب کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو لوک کہانیاں ہر جگہ نظر آئیں گی ۔ داستانوی ، کلاسیکل ادب دیکھ لیں آپ کو ان کا ثبوت مل جائے گا۔آج ہم جو ناول ، افسانہ، کہانی ، ناولٹ ، داستان اور مثنوی دیکھ رہیں یہ تمام لوک کہانیوں ہی کے مرہونِ منت ہیں۔
اُمراوتی کی کتھائیں، ایسپ کی کہانیاں، مہاتما بدھ سے منسوب لوک کہانیاں،جین شاستر،پنج تنتر، کلیلہ دمنہ،عیار دانش، بوستانِ خیال،کتھا سرت ساگر،ہتو پدیش، برمت کتھا،تک شک ستپتنی ، بے تال بیتسی،سنگھاسن بتیسی، چندر کانتا، وکرم اور بے تال ، ہزار داستان الف لیلہ، ست سندھی،داستانِ امیر حمزہ ، طلسم ہوش رُباء وغیرہ اس قسم کے سینکڑوں داستانوی مجموعے لوک کہانیوں کو سامنے رکھ کر مرتب کئے گئے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ فارسی زبان کے سب سے بڑے صوفی شاعر جلال الدین رومی کی مثنوی میں بھی عوامی کہانیوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا کہ ساری دنیا کے ادب کی بنیاد اور ماخذ لوک ادب ہے۔لوک گیت اور کہانیاں ہزاروں سالوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ان میں سے اکثر ایسی ہیں جو ایک دوسرے سے ملتی جُلتی ہیں۔ سنسکرت، عربی، فارسی، چینی، جاپانی اور ہندی زبان کی لوک کہانیوں اور داستانوں میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔البتہ شمالی امریکا، کا لوک ادب (لوک کہانیاں اور لوک گیت ) دنیا بھر کے لوک ادب سے مختلف ہے۔
لوک ادب کے بارے میں یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ تحریری ادب نہیں ہوتا بلکہ سینہ بہ سینہ چلتا ہے۔ برسوں بلکہ صدیوں سے یہ سرمایہ اسی طرح ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔مختلف اقوام کے میل جول کی وجہ سے ایک قوم کی تمدنی روایت دوسری قوم کی کہانیوں یا لوک ادب میں شامل ہو جاتی ہے۔لوک کہانیاں چاہے مغرب کی ہوں یا مشرق کی ان سب میں جنوں ، بھوتوں اور پریوں کے قصے، نیکی کا سبق ، برائی سے نفرت ، دوستی کے راستے، جان کی بازی لگا دینے والے سورما، جنوں سے مقابلہ کرنے والے بہادرموجود ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ایک ملک کی پریاں اُڑ کر دوسرے ملک چلی جاتی ہیں۔ دھُن کے پکے عاشق شہزادے سنہری بالوں والی شہزادی کوکسی دیو کی قید سے آزاد کروانے کے لئے شہر شہر اور دیس دیس کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔پہاڑوں کی بلندیاں اور سمند ر ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ان کتھاؤں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ صرف تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں۔ لوک کہانیوں کے ظالم یا نیک بادشاہ ان گنت لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ یہ لوک ادب کا ہی کمال ہے۔کسی بھی علاقے یا ملک کی لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لئے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لوک کہانیوں میں سب سے زیادہ جادوئی،فسوں بھری، دل ودماغ کو اپنے قابو میں کرنے والی اور اپنے سحر میں جکڑنے والی الف لیلہ ہزار داستان ہے۔یہ لوک کہانیوں کا سب سے ضخیم ترین مجموعہ ہے ۔ الف لیلہ کی ہر کہانی داستان گوئی کا ایک شاہکار ہے۔اس کی ٹیکنیک سب سے جُدا ہے۔ اس کے آغاز سے آخر تک ایک داستان سے دوسری کہانی نکلتی چلی جاتی ہے۔اس کا ہر کردار برمحل اور کہانی کی بُنت خوبصورت ہے۔الف لیلہ کی پہلی کہانی کا آغاز بادشاہ شہر یار اور اس کے بھائی شاہ زمان سے ہوتا ہے۔اس کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ملکہ شہر زاد ہے ۔شہر زاد ہر روز بادشاہ کو ایک نئی کہانی سُنا کر اپنی موت کے آخری فرمان کو ٹالتی ہے۔اس کی ہر کہانی منفرد نوعیت کی ہوتی ہے۔ان میں جنوں ، بھوتوں ، پریوں سمیت ہر شعبے کے لوگوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر تاجر اور جن کی کہانی،ماہی گیر اور جن کی کہانی ، شہزادے اور چُڑیل کا قصہ ، قصہ خاوند اور طوطے کا ، بوڑھی خاتون کی کہانی ، پرنس احمد اور پری بانو کی کہانی ، بڑی لڑکی کی کہانی، یہودی ڈاکٹر کی کہانی ، حجام کی کہانی ، درزی کی کہانی ، چار بھائیوں کی کہانی وغیرہ شامل ہیں۔ ’’اندھے آدمی اور بابا عبد اللہ کی کہانی سماجی مسائل کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ پرنس احمد اور پری بانو کی کہانی مسحور کن کہانی ہے۔ اللہ دین کی کہانی نے جادوئی چراغ کے جن کو اس قدر مقبولیت عطا کی کہ آج تک اس پر کئی فلمیں ، ڈرامے اور کارٹوں موویز بن چُکی ہیں۔اس کہانی میں اس کا ونڈر فُل لیمپ دلکشی کے رنگ بھر تا ہے۔علی بابا چالیس چور کہانی بھی ایک خوبصورت داستان ہے۔ بہت سے لوگ علی بابا کے کردار کو درست معنوں اور اصطلاح میں استعمال نہیں کرتے ۔علی بابا اس کہانی میں اپنی دانش مند ملازمہ ’’ مرجینا ‘‘ کے ساتھ مل کر لالچ اور برائی کا مقابلہ نیکی سے کرتا ہے۔
لوک کہانیوں کی مقبولیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔ چھوٹے بچوں سے لیکر بڑے بوڑھوں تک کو ان میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ’’لوک ادب‘‘ ایسا ادب ہے جو ہر معاشرے میں سب سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔اس میں سنہری تصورات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ان میں الفاظ کی بجائے جادو بھرے خیالات کو خوبصورتی سے استعمال کیا جاتا ہے۔روز مرہ زندگی کی تلخیاں مٹانے کے لئے لوک کہانیوں کی تصوراتی دنیا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ آپ بھی روز مرہ کی بھیڑ بھاڑ اور تلخی کو ایک طرف چھوڑ کر تصورات کے سنہرے سمندر میں ڈوب جائیں۔
کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا...
سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر ا...
موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...
ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھی...