... loading ...
اللہ تعالی نے جس وقت بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر فلسطین پہنچنے کا حکم دیا اور ان سے یہ مشروط وعدہ کیا کہ اس سرزمین کو ان کے لئے مسخر کردیا جائے گا بشرطیکہ بنی اسرائیل اس سرزمین پر اللہ کا قانون نافذ کریں گے اور آس پاس کی تمام معلوم دنیا کے لئے ایک نمونہ بن کر توحید اور قانون خداوندی کا بولا بالا کریں گے۔ بنی اسرائیل مصر سے ایک بڑی آزمائش کے بعد نکل تو آئے لیکن جو خوئے غلامی اور شیطان پرستی کی علت انہیں وہاں لگ چکی تھی، وہ اس سے چھٹکارہ حاصل نہ کرسکے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فلسطین میں داخل ہونے سے قبل ہی اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے اور سزا کے طور پر چالیس برس کی صحرا نوردی کے بعد فلسطین میں داخل ہوسکے۔لیکن یہاں پہنچ کر بجائے یہاں اللہ کی شریعت کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرتے، وہ مقامی بت پرست قوموں کے ساتھ ایسے گھل مل گئے کہ ان میں اور ان بت پرستوں میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔جس کی وجہ سے وہ ذلت کی اسفل ترین پستیوں میں جاگرے۔ اس دوران انبیاء ان کی ہدایت کے لئے آتے رہے لیکن ان کے سیاسی زعما اور مذہبی پیشواؤں نے دنیا پرستی کا وہ کھیل کھیلا کہ الحفیظ والامان۔نتیجہ کے طور پر بابل (عراق) کا بادشاہ بخت نصر ان کی پیٹھ پر قدرت کے ایک کاری کوڑے کی طرح برسااور ان کی تمام سطوت اور اقتدار کو برباد کرکے انہیں غلام بنا کر بابل لے گیا۔اللہ رب العزت نے انہیں ایک اور موقع عنایت کیا اور وہ ستر برس بعد بابل کی قید سے آزاد ہوکر دوبارہ فلسطین میں آباد کئے گئے۔ لیکن جلد ہی اپنی پرانی روش پر آگئے جس کے جواب میں اس مرتبہ یونانی ان کے لئے قہر خداوندی کے طور پر سامنے آئے ۔ بنی اسرائیل نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے یونانیوں کے فواحش اور ثقافت کو ’’روشن خیالی‘‘ سے تعبیر کرکے اپنا لیا۔ یونانی زبان بولنا ان کے لئے’’ ترقی پسندی‘‘ کی علامت بن گیا ۔ عبرانی زبان بولتے ہوئے فیشن کے طور پر اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ گرداننے کے لئے یونانی زبان کے الفاظ بکثرت استعمال کرنے لگے ۔یوں عبرانی اور یونانی زبانوں کے امتزاج سے سریانی زبان نے جنم لیا۔اسی دوران میں ان میں ایک اصلاحی تحریک نے ( جسے تاریخ مقابیوں کی تحریک کہتی ہے) جنم لیا۔ بنی اسرائیل کے صالح اور خدا پرست بندوں نے اس تحریک کے ذریعے بنی اسرائیل کو یونانی استعمار سے نجات دلائی لیکن کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ بنی اسرائیل پرانی روش اور اقتدار کی بندربانٹ میں ملوث ہوگئے اور آپس کی لڑائیاں انہیں اس مقام تک لے آئیں کہ انہوں نے خود ہی رومی جرنیل کو فلسطین پر حملے کی دعوت دے ڈالی ۔یوں آزادی کی نعمت راس نہ آنے کی وجہ سے بنی اسرائیل اب رومیوں کے زیر اقتدار تھے۔ اس دور میں انہوں نے تورات کو مکمل طور پر پس پشت ڈالا اور رومی قوانین کو خدائی قوانین سے زیادہ اہمیت دے دی۔ اگر کوئی اصلاحی تحریک ان میں اٹھتی تواس قوم کے روشن خیال اور لبرل طبقے اس سے متعلق افراد کی مخبری کرتے اور رومی انہیں بغاوت کے الزام میں دھر لیتے۔ رومی چونکہ مقامی افراد کے ذریعے حکومت کرتے تھے اس لئے بنی اسرائیل کے ارباب اختیار حصول اقتدار اور طلبِ جاہ میں اپنی ہی قوم کے افراد کو مخبری کروا کر پکڑواتے۔ یہی وہ روش تھی جس کے تحت اس بدبخت قوم نے حضرت عیسی علیہ السلام کی مخبری کی اور رومی فوج کے ہاتھوں گرفتار کروادینے کی غلط فہمی میں مبتلا کردیئے گئے ۔
آج جب ہم وطنِ عزیزکا حال دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تاریخ بھرپور جبر کے ساتھ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔فلسطین ہی کی طرح جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پاکستان نامی فلسطین عطا کیا گیا تھا ۔ہم نے بھی بنی اسرائیل کی طرح اسلام کے نام پر یہ خطہ اراضی حاصل کیا تھا لیکن جس طرح بنی اسرائیل اپنے آپ کو مصریوں کی ذہنی غلامی سے نہ بچا سکے وہی ہم نے کیا کہ انگریز سے آزادی حاصل کرکے بھی ذہنی طور پر انگریز کے ہی غلام رہے ۔ اللہ کے قانون کی بجائے انگریز کے قانون کو اپنے اوپر آج تک مسلط کررکھا ہے۔جس طرح یونانیوں اور رومیوں کی ثقافت اور زبان ان کے لئے روشن خیالی کی مظہر تھی اسی طرح آج مغرب کی شیطانی ثقافت ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔جس طرح بنی اسرائیل نے اپنے ہاں اٹھنے والی اصلاحی تحریکوں کو انتہا پسند قرار دے کر رومیوں کی مخبریاں کیں اور اقتدار اور دولت کی خاطر انہیں استعمار کے ہاتھوں فروخت کیاٹھیک اسی طرح ہم نے پاکستان کی بیٹی اور بیٹوں کو امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا۔
جب کسی قوم میں پستی کے بیج بو دیئے جائیں تو اس کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے تمام تر طاقت کے باوجود وہ قوم اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔پھر سرعام اس قوم سے مذاق کیا جاتا ہے۔ جس طرح امریکی ڈرون طیاروں سے حملے اور ڈو مور کے مطالبے کرتے ہیں، ہمارے ارباب اختیار اسے پاکستان کی خودمختاری پر ضرب قرار دیتے ہیں اور اسے آئندہ نہ برداشت کرنے کے عزم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل پر مسلط قوتیں اور ان کے ارباب اختیار بھی اپنی قوم کے ساتھ ایسے ہی مذاق کیا کرتے تھے اور آج یہی مذاق پاکستانی قوم کے ساتھ کیا جارہا ہے۔وہ قبل مسیح کے بنی اسرائیل تھے اور ہم اکیسویں صدی کے بنی اسرائیل ہیں۔جسے یقین نہ ہو وہ تاریخ سے رجوع کرلے۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...