... loading ...
جناب خلیق ارشد اور ان کے ہونہار صاحبزادے ، گلزار خلیق کا اس قدر محبت بھرا اصرار تھا کہ اپنی نیند قربان کر کے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی سالانہ نمائش کے لئے ناچار پہنچنا ہی پڑا۔ جب سے لاہور کا ایکسپو سینٹر بنا ہے اور جناب ضیاء المصطفیٰ اعوان جیسے لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے اس میں توجیسے رونق سی لگ گئی ہے اور انہی رونقوں میں سے ایک رونق سالانہ پولٹری میلہ بھی ہے۔ ایک سے ایک بڑا اور نامور صحافی اور ٹی وی اینکر ان باپ بیٹوں نے اس دن ایکسپو سینٹر کے ہال میں جمع کر رکھا تھا۔
پنجاب حکومت کے وزیرِ سرمایہ کاری اور ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق صدر جناب عبدالباسط جو آج کل ہم جیسے دوستوں سے ’’پردہ‘‘ فرما گئے ہیں، ان کے حصے دار، ڈاکٹر مصطفی کما ل جن کو کسی بھی مرغی کے ساتھ ، اس کے مرغے کے مقابلے میں زیادہ لگاؤ اور محبت ہے، وہ آج کل پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے صدرہوتے ہیں۔ انہیں مرغیوں سے محبت کا یہ وائرس جناب باسط صاحب سے منتقل ہوا ہے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ کمال نے اپنے شعبے کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ مرغی کا استعمال کسی بھی معاشرے کی ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں بھی ترقی ہو رہی ہے، وہاں لحمیات کے حصول کے لئے افراد میں پولٹری گوشت کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے یعنی ہم مرغی کے گوشت کے استعمال کو اس معاشرے میں انفرادی ترقی کا ایک اشاریہ کہہ سکتے ہیں۔
اس وقت بھارت میں فی کس مرغی کے گوشت کا استعمال اڑھائی کلو گرام ہے جس کے مقابلے میں پاکستان میں ساڑھے چھ کلو گرام فی کس ہے جو امریکا یا ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے ۔کیونکہ امریکہ میں سالانہ فی کس مرغی کا استعمال 75 کلوگرام ہے۔ سال 2020 تک پاکستان میں صرف مرغی کے گوشت کا استعمال پورے ملک کے گوشت کے استعمال کے برابر ہو جائے گا یعنی پاکستانی جتنا گوشت بکرے، دنبے، گائے اور اونٹ کا کھا رہے ہوں گے، اتنا ہی گوشت مرغی کا استعمال کر رہے ہوں گے، اور یہ گوشت مزید سستا ہوتا جائے گا کیوں کہ اگر ایک گائے میں ایک کلو گرام گوشت پیدا کرنے کے لئے آٹھ کلوگرام خوراک کی ضرورت ہو گی تو اتنا ہی گوشت مرغی میں پیدا کرنے کے لئے صرف ایک کلوگرام اناج درکار ہو گا۔ ایسی صورت میں انسانی بقاء کے لئے بھی ضروری ہو گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مرغی کے گوشت پر انحصار کرے تا کہ کم سے کم اناج سے زیادہ سے زیادہ لحمیات پیدا کی جا سکیں۔
انہوں نے فرمایا کہ اس وقت پاکستان میں کل آبادی کا صرف پچیس فی صد طبقہ ایسا ہے جسے لحمیات کی صحیح مقدار گوشت سے مل رہی ہے باقی 75 فی صد آبادی کو خوراک میں لحمیات کی پوری مقدار دستیاب نہیں ہے۔ اس پر ہال میں بیٹھے ایک ظالم نے آوازلگائی کہ ان افراد کے لئے لحمیات میں کمی کی وجہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے وال ’’بٹ‘‘ حضرات ہیں ، جو باقی 75 فی صد کے حصے کا گوشت کھا جاتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال صاحب نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے پولٹری کی صنعت کے لئے کسی بھی قسم کی سبسڈی (زرِ تلافی) کے مخالف ہیں لیکن پاکستان میں پولٹری مصنوعات کے لئے جو رعایتیں چین اور ملائیشیا کی پولٹری پراڈکٹ کو دستیاب ہیں ، کم از کم وہ پاکستانی پولٹری کو بھی دینا ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان دونوں مذکورہ ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے تحت پولٹری مصنوعات بڑے دھڑلے سے پاکستان کی مارکیٹ میں آ کر فروخت ہورہی ہیں جب کہ پاکستان میں پولٹری مصنوعات کے خام مال جیسے سویا بین میل پر ہمیں تیس فی صد تک درآمدی ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے، جو کسی ظلم سے کم نہیں۔ چین سے آنے والی پولٹری مصنوعات کی انڈر انوائسنگ اور حلال نہ ہونا ایک دوسرا عامل ہے جو مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
پولٹری سیکٹر پر ’’حمزہ ‘‘ وائرس کے حملے کے بارے میں صفائی پیش کرتے ہوئے جناب خلیل ستار صاحب نے کہا کہ حمزہ شہباز شریف کا محض ایک فارم ہے جس کی صلاحیت تیس ہزار چوزروں کے برابر تھی جب کہ انہوں نے اتنی ہی صلاحیت کے دو فارم ٹھیکے پر حاصل کر رکھے تھے۔ لیکن اب انہوں نے اپنا فارم بیچ دیا ہے اور ٹھیکے پر حاصل کئے گئے ان کے فارم بند پڑے ہیں ۔ایسی صورت میں حمزہ شہباز شریف پر پولٹری کی قیمتوں میں سٹے بازی کرنے اور اس کی قیمتوں کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق مقرر کرنے کے الزام محض سیاسی مخالفین کابے بنیاد پروپیگنڈہ ہو سکتا ہے۔ ان کا سوال تھا کہ سوا کروڑ سالانہ مرغیاں پیدا کرنے والے شعبے کو محض ایک لاکھ سالانہ کی صلاحیت کا حامل فارمر کیسے اپنی مرضی سے بڑھا اور گھٹا سکتا ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق صدر، جناب خلیل ستار کراچی کے عقل مند تاجروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جنہوں نے ایک غیر ملکی ادارے کا پولٹری پروسیسنگ کا یونٹ کوڑیوں کے بھاؤ خریدا ہوا ہے۔جناب خلیل ستار ایک ترقی پسند تاجر ہیں اور جس وقت پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کے لئے اپنے فوجی بھیجنے سے انکار کیا تھا ،وہ اپنی مرغیاں بھیج کر یہ کسر پوری کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ آج کل ان کی پولٹری مصنوعات اور مرغیاں سعودی عرب کی مارکیٹ میں اِٹھلاتی نظر آتی ہیں۔ وہ بار بار حاضرین کے سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ایسے مائیک پر جھپٹتے کہ موجودہ صدر مصطفیٰ کمال کو اپنی عزت بچانے کے لئے خاموش ہونا پڑتا۔
واپسی پر ہم نے اپنی گھریلو ضروریات کے لئے مرغی کا گوشت خریدنے کے لئے اپنے محلے کے قصائی یٰسین کے ہاں گاڑی روکی تو اس نے دور سے ہیں ہمیں خوش آمدید کہا، اور اپنی گندے ترین کپڑے اور مکھیوں سے بھن بھن کرتے ڈرم کے ساتھ کھڑے ہو کر آوازلگائی کہ چھوٹے ، صاحب کی تین مرغیاں، اور ان کو ڈرم میں پھینکنا نہیں بلکہ ٹانگ سے پکڑ کر لٹکانا ہے۔ یہ یٰسین کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے کہ مرغیوں کا خون بہانے کے لئے وہ مرغیاں ڈرم میں پھینکے گا نہیں بلکہ لٹکائے گا۔ دراصل اس کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ شہر کے بہت سے قصائی مرغی کو ذبح کر کے ڈرم میں پھینک دیتے ہیں اور مرغی کے دارفانی کو کوچ کر جانے کے بعد جب وہ ڈرم میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو ان کے مشاق ہاتھ ان مرغیوں پر جا کر پڑتے ہیں جو فارم سے بازار تک آتے آتے فوت ہو چکی ہوتی ہیں ، لیکن یہ قصائی حضرات ان کو ضائع کرنا ضروری خیال نہیں کرتے۔ یہ مردہ مرغیاں پہلے سے ڈرم میں رکھ دی جاتی ہیں اور یوں گاہک یہ سمجھتا ہے کہ اس نے مرغی اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح کروائی ہے جب کہ وہ اصل میں مردہ مرغی کا گوشت خرید رہا ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 95% مرغی کا گوشت اسی طرح بیچا اور خریدا جاتا ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے علاوہ دنیا کے تمام کونوں میں مرغی کھال سمیت کھائی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کی کھال اتار کر اس کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور خلیق ارشد ، اور خلیل ستار صاحب سمیت کسی کے پولٹری پلانٹ میں مرغی کی کھال اتارنے کی صلاحیت ایسی نہیں ہے۔یٰسین قصائی کی ہر بات کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ کروا رہا ہے‘‘ وہ اپنے شعبے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’جو کچھ کروا رہا ہے حمزہ شہباز کروا رہا ہے‘‘۔ اس نے درجنوں فارم ٹھیکے پر لے رکھے ہیں اور مرغی کے نرخ وہی طے کرتا اور کرواتا ہے۔
اب سمجھ نہیں آتا کہ ہم خلیل ستار کی بات مانیں کہ جو آج تک ہماری ضرورت کے مطابق مرغی کا گوشت تیار نہیں کر سکے یا پھر یٰسین قصائی کی، جو عوام کی زبان ہے، اور زبانِ خلق تو ویسے بھی نقارہ خدا ہوتی ہے۔
عیدالفطر کے بعد مرغی، پیاز اور لیموں کی قیمتوں میں بلند ترین اضافے نے صارفین کیلئے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی نگرانی نہ ہونے کہ وجہ سے مرغی کے گوشت کی قیمت 620 سے 670 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے جو رمضان کے آخری ہفتے میں 600 سے 64...
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
مائیکروسافٹ کے ارب پتی مالک بل گیٹس نے حال ہی میں دنیا بھر کے غریب افراد کے لیے خوراک کے مناسب انتظام کے لیے تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ وہ انہیں مرغیاں بھیجیں گے کیونکہ ان کی کم خوراکی کا خاتمہ پولٹری مصنوعات سے ہی ہو سکتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص کی بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤ...
سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...
ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...
مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد...