... loading ...
ہومیو پیتھی کی بنیاد اور فلسفہ کیا ہے؟اسے حضرت محمد مصطفیﷺ کے ایک ارشادِ گرامی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک روایت ہے کہ سرکارِ دوجہاںﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ وہ تجارت کے سلسلے میں باہر جاتا ہے تو وہاں کا پانی اسے موافق نہیں آتا اور وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہمراہ ایک مشکیزہ پانی کا ساتھ لے جائے، جس کو ختم نہ ہونے دے۔ جہاں جائے وہاں کا پانی اس میں ملا لیا کرے یہاں تک کہ واپس آجائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شخص کسی بھی مقام پر بیمار نہ ہوا۔ غور کا مقام یہ ہے کہ سال بھر کے سفر میں جو پانی استعمال ہوتا تھا اُسی کے برابر اس میں دوسرا پانی بھی ملتا رہا۔ اس سے طاقت کا توازن نہ بگڑا۔ کہیں اس میں کچھ اور ملا دیا جاتا تو اصل پانی کی قوت ختم ہو جاتی۔ اسی طریقۂ علاج کو علاج بالمثل کہتے ہیں۔ جو ہومیوپیتھی کا اُصول ہے۔
ڈھائی ہزار سال قبل از مسیح یعنی پانچویں صدی (۴۰۰ سے ۴۷۰ ق م) میں ایک نام بقراط (Happocrates) کا ملتا ہے۔جسے بابا ئے طب کہا جاتا ہے۔اُس نے لکھا تھا کہ صحت پانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک’’ بالضد‘‘اور دوسرا طریقہ ’’بالمثل‘‘ ہے۔بقراط نے اُس وقت کے عمومی رجحان کی مخالفت کی جس کے مطابق یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیماریاں خدا کا عذاب ہوتی ہیں۔بقراط کہتا تھا کہ ہر بیماری خود پیدا کردہ ہے۔یہ زندگی گزارنے کے غلط طریقوں کے ساتھ باہر کے عوامل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔جن میں سردی، گرمی اور موسم کی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اگر انسان اس سے خود کو محفوظ نہ رکھے گا تو بیمار پڑ جائے گا۔اس کا دعویٰ تھا کہ ہماری بیماریاں ڈاکٹرز کی پیدا کردہ ہیں۔چونکہ اُنہوں نے علاج بالمثل کا طریقہ نہیں اپنایا اس لئے امراض نت نئے اندازا ختیار کرتے چلے گیے۔ اُس نے تنبیہ کی کہ مرض کی قدرتی علامات کی پیروی کرو نہ کہ مخالفت۔ چنانچہ اُس نے علاجِ بالمثل پر ایک مدلل کتاب لکھی، یہ علاج بالمثل ہی ہومیو پیتھی ہے۔
اپنے وقت کا غیر روایتی رجحان رکھنے والا ایک سوئس جرمن ڈاکٹر پیراسیلسس (Paracelsus) (۱۴۹۳ تا ۱۵۴۱) نے زمین کو ایک بڑی کیمیائی معمل گاہ (کیمیکل لیبارٹری) کہا۔ اور کیمیائی تجربات کو دواؤں کی تیاری میں شامل کیا۔ اُسے بابائے کیمسٹری کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر پیراسیلسس ساری دنیا میں اعتدالِ نمو کا قائل تھا۔ آخر کار وہ بھی تجربات کی روشنی میں علاج بالمثل کی طرف مائل ہوا، یعنی زہر کا علاج زہر سے ہی۔ عوام نے حسب ِ دستور اُس کی بھی مخالفت شروع کر دی کہ وہ اجسام میں زہر پھیلانے کا علمبردار ہے۔ حالانکہ غیر مماثل بیماری کے بیج ڈال کر ہم بیماری کے ہی پھل نکلنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ پھر خاموشی کے ساتھ امراض اپنے گل کھلاتے رہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ چیخ اُٹھے۔ اور آخرکار علاج بالضد کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر ایک ڈاکٹر لوبر ہیرے (Lober Harrey) (۱۶۶۸ تا۱۷۳۸) اپنی پریکٹس (مشق )کے دوران میں چیخ اُٹھا کہ ’’اگر اُس سمیت تمام ڈاکٹر ز کو ہلاک کر دیا جاتا تو دنیا امراض سے نجات پالیتی۔‘‘
ایلو پیتھی سے مایوس ایسے ہی ڈاکٹرز میں جرمنی میں ایک ڈاکٹر ہنی مین بھی تھا۔ جو اُس وقت ایک عظیم ایلو پیتھ مانا جاتا تھا۔ بہت سی زبانوں پر عبور رکھنے والا یہ ڈاکٹر پڑھنے اور تجربات کرنے کا بہت شوقین تھا۔ اُس نے پہلی بار ایک دوا ’’چائنا‘‘ کا اپنے اوپر تجربہ کیا اور اُس کی کامیابی دیکھ کر اُس نے ایلو پیتھی طریقہ علاج ترک کر دیا۔ اور علاج بالمثل کی طرف مائل ہوا۔ اُسی نے اس طریقہ علاج کا نام ’’ہومیوپیتھی ‘‘رکھا۔ڈاکٹر ہنی مین نے یہ نام دے کر علاج کے اُصول مرتب کیے۔ اور تحقیق کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے دوائیں ایجاد کیں۔ تجربات نے ثابت کردیا کہ انسانی جسم میں قوتِ حیات (Vital Force) اور مادہ (Matter) کے باہمی تناسب میں خلل واقع ہونے کا نام ہی بیماری ہے۔جسے اُس کی علاجِ بالمثل دوا سے دور کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ہنی مین سے قبل بھی علاج بالمثل طریقہ ضرور تھا۔ لیکن اُسے تحقیق کے دائرے میں لاکر نام دینے اور متعارف کرانے میں پہل ہنی مین نے ہی کی۔ اس طرح ہومیو پیتھی کے علاج بالمثل کی ابتدا معنوی اعتبار سے بقراط نے کی۔ لیکن حقیقی اور عملی اعتبار سے ہومیو پیتھی کی ابتدا کا سہرا ہنی مین کے سر ہے۔