وجود

... loading ...

وجود

خوشی کا تعاقب

هفته 12 ستمبر 2015 خوشی کا تعاقب

the-pusuit-of-happyness

علامہ اقبال نے کہا تھا ”جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی“ اور زیست کی حقیقت یہی ہے۔ یہ ’پیہم رواں، ہر دم جواں‘ تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی ”شبِ درد و سوز و غم“ بھی ہے ، یہاں تک کہ آپ منزلِ مقصود کو پا لیں، چاہے آپ کا مقصد کچھ بھی ہو۔امریکا کے معروف اسٹاک بروکر کرس گارڈنر کی زندگی علامہ اقبال کے ان تمام اشعار پر صادق آتی ہے۔ سخت غربت کے باوجود انہوں نے اپنی خودداری، عزم و ہمت اور بلند حوصلے کی بدولت ایک قابلِ رشک مقام حاصل کیا۔ ہالی ووڈ نے 2006ء میں ان کی زندگی پر Pursuit of Happyness یعنی ”خوشی کا تعاقب“ نامی یہ فلم بنائی جو ان کی آپ بیتی سے ماخوذ ہے، اس میں اپنی عملی زندگی کے آغاز میں پیش آنے والی مشکلات اور ایک کامیاب اور مشہور اسٹاک بروکر بننے تک کی زندگی دکھائی گئی۔

ہدایت کار گیبریل مچینو کی اس فلم میں کرس گارڈنر کا کردار معروف اداکار وِل اسمتھ نے ادا کیا ہے اور بلاشبہ اِس کا حق ادا کردیا ہے۔ عام طور پر ول اسمتھ کو ایکشن فلموں کا اداکار سمجھا جاتا ہے لیکن ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کے کردار میں بھی انہوں نے اپنے فن کی بلندیوں کو چھوا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا ہے، جس کے پاس کوئی ملازمت نہیں، جس کی بیوی غربت سے تنگ آ کر میکے چلی گئی ہے، جو مالک مکان کو کئی ماہ تک کرایہ دینے میں ناکام رہنے کے بعد بالآخر نکال دیا جاتا ہے، پھر امید کی ایک کرن نظر آتی ہے، جو موہوم ہوتی ہے لیکن گارڈنر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اِس کا تعاقب کرے گا، جس طرح اندھیری سرنگ میں جس سمت سے روشنی کی ایک کرن پھوٹے، بس اسی سمت سفر کرنا ہوتا ہے۔

کرس گارڈنر اپنی زندگی کی جمع پونجی ایک ایسی مشین پر خرچ کردیتا ہے، جو روایتی ایکس-رے مشین کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہے لیکن اس سے بہتر نتائج بھی دیتی ہے۔ لیکن بہت کم ادارے اس مشین کی خریداری پر آمادہ ہوتے یہاں تک کہ یہ مشینیں کرس کے لیے سفید ہاتھی بن جاتی ہیں۔ مالی مسائل سے تنگ آکر بالآخر کرس کی اہلیہ اسے چھوڑ جاتی ہے اور ایک جھگڑے کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بیٹا کرسٹوفر اپنے باپ کے ساتھ رہے گا۔

یہاں سے کرس کی زندگی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ مالی تنگ دستی کے انہی ایام میں اس کی ملاقات ایک اسٹاک بروکر ادارے کے مینیجر سے ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ’ریوبکس کیوب‘ جیسے پیچیدہ معمے کا شہرہ تھا۔ اسے اپنے وقت میں مشکل ترین کام سمجھا جاتا تھا جب ایک ملاقات میں کرس گارڈنر مینیجر کو یہ حل کرکے دکھا دیتا ہے۔ اس صلاحیت سے متاثر ہو کر مینیجر جے ٹوئسٹل اسے اپنے ادارے کی انٹرن شپ میں بلاتا ہے۔ لیکن انٹرویو سے قبل آخری رات کو، جب وہ کرائے کے معاملے پر جھگڑنے والے مالک مکان کے کہنے پر گھر میں رنگ و روغن کررہا ہوتا ہے، پولیس گھر کا دروازہ کھٹکٹاتی ہے اور ٹریفک چالان نہ بھرنے پر صبح تک کے لیے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ جب وہ صبح رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس انٹرویو کے لیے تیار ہونے کا سرے سے وقت نہیں ہوتا۔ اسی حلیے میں وہ ڈین وِٹر رینلڈز نامی ادارے میں پہنچ جاتا ہے، جہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی اور 20 میں سے صرف ایک شخص کا ملازمت کے لیے انتخاب کیا جائے گا۔ یہ کرس کے لیے بہت مشکل فیصلہ ہوتا ہے لیکن ’مرتا کیا نہ کرتا‘، کرس اس کام کے لیے راضی ہوجاتا ہے اور خراب ترین حلیہ ہونے کے باوجود انٹرویو میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن اس انٹرن شپ سے اس کے حالات مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ گھر کا کرایہ ادا نہ کرپانے کی وجہ سے اسے نکال دیا جاتا ہے، تھوڑی بہت آمدنی محصولات کی مد میں حکومت بینک اکاؤنٹ سے کاٹ لیتی ہے۔ اس صورتحال میں جب جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہو، بچے کو اسکول پہنچانے ساتھ ساتھ کرس کو اسٹاک بروکنگ ادارے میں بغیر تنخواہ کے کام کرنا پڑتا اور اس دوران ملنے والے کھانے کے وقفے میں وہ ایکس-رے مشین بیچنے کی کوشش کرتا اور پھر شام کو بیٹے کو واپس لے کر کسی خیراتی ادارے میں ’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘ کی بنیاد پر قطار میں لگ کر رات گزارنے کے لیے چھت لیتا۔ اس اعصاب شکن جدوجہد کے باوجود کرس ہمت و حوصلہ نہیں ہارتا، یہاں تک کہ اسے ایک رات ریلوے اسٹیشن کے غسل خانے میں بھی گزارنا پڑتی ہے، جو فلم کا سب سے غم ناک منظر ہے۔

ایک ایسے ادارے، جہاں اس سے ہزارہا گنا زیادہ سہولیات اور آسانیاں پانے والے افرادکام کرتے ہوں اور ان کے پاس ملازمت حاصل کرنے کے امتحان کو باآسانی پاس کرنے کے تمام وسائل بھی موجود ہوں، کرس کو سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے اپنے وقت کے منظم انداز میں استعمال کرنے کے لیے ایک نظام ترتیب دیا اور کئی حکمت عملیاں مرتب کرتے ہوئے بالآخر ان تمام مراحل سے بخوبی گزر گیا۔ یہاں تک کہ نتیجے کے روز جب 20 میں سے ایک کامیاب فرد کا نام ظاہر ہوتا ہے تو وہ کرس گارڈنر کا ہوتا ہے۔ ڈین وٹر رینلڈز میں ملازمت مل جانے کے بعد کرس کی زندگی کے اچھے دنوں کا آغاز ہوتا ہے اور فلم کا اختتام اس سطر کے ساتھ ہوتا ہے کہ بعد میں کرس نے اپنی بروکریج فرم قائم کی اور ارب پتی بنا۔

فلم ناقدین نے کہانی، بالخصوص ول اسمتھ کی اداکاری کو خوب سراہا بلکہ اسمتھ بہترین اداکار کے لیے آسکر ایوارڈز تب کے لیے نامزد ہوئے۔ اس کے علاوہ فلم نے باکس آفس پر بھی خوب کامیابیاں سمیٹیں اور مجموعی طور پر 30 کروڑ 42 لاکھ امریکی ڈالرز کی آمدنی حاصل کی۔


متعلقہ خبریں


مارشیئن کا ہیرو اب تک 900 بلین ڈالرز کھا چکا، ایک دلچسپ تحقیق وجود - بدھ 30 دسمبر 2015

کیا آپ نے ہالی ووڈ کی نئی فلم "دی مارشیئن" (The Martian) دیکھی ہے؟ اس میں میٹ ڈیمن نے مارک واٹنی کا کردار ادا کیا ہے جو ان 6 افراد کے عملے میں شامل ہوتا ہے جو مریخ پر ایک مشن کے لیے جاتے ہیں لیکن ایک طوفان کی وجہ سے انہیں فوری طور پر سیارہ چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ نکلتے ہوئے ایک حادثے ...

مارشیئن کا ہیرو اب تک 900 بلین ڈالرز کھا چکا، ایک دلچسپ تحقیق

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر