... loading ...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبدیلی کو تلاش کرتی ہوں۔تبدیلی ٔ موضوع کے لئے’’ آسیب ‘‘مجھے موزوں لگا ۔
آسیب سے متعلق ہزاروں حقیقتیں ہندوستان ( انڈیا ) کی سرزمین میں زرخیز مٹی کے ساتھ رچی بسی ہیں۔ہندوستان میرے آباو اجداد کی جنم بھومی،ہم راجپوتوں کی عظیم و عالی شان سلطنتِ ہند ہمیشہ میری توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔احساسات کے زیرِ اثر سرحدوں کے فرق مٹنے لگتے ہیں۔ جب میں نے بھوت پریت آسیب پر لکھنے کی سوچی تو انڈیا میں موجود ایک آسیب زدہ ہوٹل Savoy سب سے منفرد لگا۔مگر اس کے بارے میں میری معلومات نا مکمل تھیں، بے شمار باتوں سے میں نا واقف تھی۔ انڈیا میں وسیع حلقۂ احباب کے باوجود مجھے اس آسیب زدہ ہوٹل کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہ مل سکیں کیونکہ زیادہ تر انڈین لوگ بھی اس کی تاریخ سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے ۔
یہ آسیب زدہ ہوٹل SAVOY انڈیا کے خوبصورت ترین پہاڑی مقام ’’مسوری ‘‘ میں واقع ہے۔ مسوری کو پہاڑوں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسوری کا نام ’’ منسور ‘‘(اس علاقے میں کثرت سے پائی جانے والی جھاڑی) سے منسوب ہے ۔ آج بھی بہت سے مقامی لوگ مسوری کو منسوری کہتے ہیں۔ہوٹل Savoy مسور ی ڈسٹرکٹ اتر کند مال پر موجود ہے ۔ اس ہوٹل کا باقاعدہ آغاز 1902 ء میں عمل میں آیا۔ یعنی انڈیا کے مشہور ہوٹل تاج محل سے دو سال قبل ۔اس لگژری ہوٹل کے ہال ، دہلیزیں اور فضا آسیب زدہ ہیں۔ یہ ہوٹل اور اس کے اطراف خاتون Garnet Orme کے بھوت کے قبضے میں ہے ۔یہ خوبصورت ہوٹل خاتون گارنیٹ کے بھوت کے سبب سہما ہوا لگتا ہے۔شام ڈھلتے عجیب پر اسراریت ہوٹل اور اس کے اطراف میں پھیل جاتی ہے۔ دل عجیب کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے ۔ طبیعت بے چین ہونے لگتی ہے۔ ممکن ہے کہ سب لوگ اس پراسراریت اور خوف و ہراس کو فوری طور پر محسوس نہ کرتے ہوں۔ مگرمحسوس کرنے والے جلد صورتحال کو بھانپ لیتے ہیں۔ اس ہوٹل کو شام کا اندھیرا باقی جگہوں کی نسبت قدرے جلد اپنے آغوش میں لے لیتا ہے۔ اس اندھیرے میں اکثر لوگوں کو خاتون گارنیٹ کا بھوت بھٹکتا مل جاتا ہے۔اکثر اس خاتون کا بھوت لوگوں کو خالی بے جان آنکھوں سے گھورتا، جذبات سے عاری سپاٹ چہرے کے ساتھ ان کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے۔ لیڈی گارنیٹ کی وحشت بھری آنکھیں اور رات کا سناٹا سپاٹ چہرے کے ساتھ اس ہوٹل کو آسیب زدہ کئے ہوئے ہے۔خاتوں گارنیٹ کے بھوت نے پچاس کمروں ، دو ریسٹورنٹ اور دو سو گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش رکھے والے اس ہوٹل کو ہولناک بنادیا ہے۔خاتون گارنیٹ 1911 ء کے اوائل میں پر اسرار انداز میں اس ہوٹل میں مردہ پائی گئی تھی۔ یہ کیس آج تک حل نہیں ہو سکا۔ خاتون کی موت زہر سے ہوئی تھی۔اس کی دوا کی بوتل کو کسی نے زہر سے بدل دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ خاتون کا بھوت اُس شخص کو رات کے اندھیرے میں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جس نے خاتون کی دوا کی بوتل کو زہر کی بوتل سے بدلا۔یہ لگژری ہوٹل جو کہ انگلش گوتھِک آرکیٹیکٹ ا سٹائل میں بنا ہے ۔ اور زیادہ تر بھاری لکڑی کے شاندار کام کا نمونہ ہے۔ مکمل طور پر آسیب کی زد میں ہے۔یہ ہولناک ماحول سے بھرا ہوٹل 2009 ء میں پرائیویٹ لمیٹڈ ’’ ویلکم گروپ آف ہوٹلز ‘‘کی ملکیت میں آگیا۔ بھیانک ہوٹل کا رقبہ گیارہ ایکڑپر مشتمل ہے ۔ہوٹل وادی ٔ دون کی طرف جھانکتا معلوم ہوتا ہے۔ 1900 ء میں Dehradun میں ریل کے پہنچنے کے بعد مسوری برٹش راج میں یورپین باشندوں کی موسم ِ گرما کی پسندیدہ تفریح گاہ بن گئی۔1911 ء میں ایک خاتون Frances Garnett Orme لکھنؤ آکر مسوری کے اس ہوٹل میں قیام پذیر ہوئی ۔یہ خفیہ روحانی علوم کی ماہر 49 سالہ خاتون تھی ۔ لیڈی گارنیٹ کے ہمراہ اس کی ایک دوست Eva Mountstephen تھی۔ ’’ ایوا ‘‘ بھی ایک روحانی علوم کی ماہر خاتون تھی۔ خاص کر کرسٹل بال میں مستقبل ، ماضی اور پوشیدہ چیزیں دیکھنے کی ماہر تصور کی جاتی تھی۔کچھ دنوں بعد ایوا لکھنؤ واپس چلی گئی۔ اور خاتون گارنیٹ اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی۔طبّی معائنہ (autopsy) کی رپورٹ نے یہ واضح کیا کہ خاتون کی موت Prussic Acid سے ہوئی۔ جو Cyanide سے بناایک زہر ہے۔ گارنیٹ کا قتل معمہ بنا رہا اور کبھی حل نہ ہوسکا ۔ اس قتل کے الزام میں ایوا کو حراست میں لیا گیا۔ مگر عدالت نے ایوا کو بے قصور پا کر چھوڑ دیا۔ جب سے آج تک گارنیٹ کا بھوٹ ہوٹل میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ کیتھی (ایک بوڑھی خاتون ہیں جن سے میری اچھی دوستی ہے) کا کہنا ہے کہ انہیں ایک بار اس ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کیتھی کی طبیعت ناساز تھی۔ اس لئے اس کا خاوند اکیلا ر ہوٹل کے یسٹورنٹ میں چلا گیا۔ وہاں اُسے ایک خوبصورت خاتون ملی ۔ دونوں میں ہلکی گپ شپ ہوتی رہی۔ کیتھی کی ایک دوست وہاں کھانا کھا رہی تھی ، اُس نے کیتھی کو بتایا کہ تمہارا شوہر اکیلا ریسٹورنٹ میں بیٹھا یوں خود کلامی کر رہا تھا جیسے اُس کے ساتھ کوئی ہو۔ غالباً اُس کی طبیعت ناساز ہے۔ جب کیتھی نے اپنے خاوند سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اُسے ایک دلچسپ خاتون ملی جو خفیہ علوم کی ماہر تھیں، وہ اس سے بات کر رہا تھا ۔ پھر اُسی رات کیتھی نے اپنی کھڑکی سے باہر جھانکا تو اندھیرے میں سفید لباس میں ملبوس ایک عورت کو ہوٹل کے احاطے میں گھومتے دیکھا ،وہ گارنیٹ کا بھوت تھا۔
یہ بھی مشہور ہے Savoy کے جس کمرے میں گارنیٹ کی موت واقع ہوئی تھی ۔ اُس کمرے میں ٹہر کر واپس جانے والی پانچ سے سات خواتین کی موت بھی زہر سے واقع ہوئی۔ ہوٹل میں ہاؤس کیپنگ کاکام کرنے والی خواتین کی اکثریت پراسرار اور خوفزدہ کرنے والے واقعات کا ذکر کرتی ہیں۔ ایک خاتون نے اس ہوٹل کی ملازمت چھوڑ دی تھی اور وجہ یہ بیان کی تھی رات کو ایک پُر اسرار خاتون کے ہیولے نے اُس کا گلا گھوٹا۔ انڈیا کی مضبوط سیاسی شخصیت محترم راہول گاندھی( جو کہ انتہائی نفیس اور قابل شخص بھی ہیں) کا خاندان 1920 ء کی دہائی سے لے کر آج تک بارہا اس ہوٹل میں قیام کر چُکا ہے۔ مگر اس خاندان نے وہاں کبھی بھوت پریت نہیں دیکھے البتہ ایک عجیب سی بے چینی ضرور محسوس کی ۔ جو شاید تھکاوٹ کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ انگریز کے دورِ حکومت میں مسوری میں مال جو کہ تصویر محل سے مشرق کی سمت اور پبلک لائبریری سے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے۔ وہاں انگریز نے ایک سائن بورڈ لگا رکھا تھا جس پر لکھا تھا:
’’ Dogs and Indians are not allowd ‘‘
موتی لعل نہرو جو کہ جواہر لعل نہرو کے والد اور اندار گاندھی کے دادا تھے جب بھی مسوری جاتے، ہرروز جان بوجھ کر یہ قانون توڑتے اور جُرمانہ ادا کیا کرتے تھے۔ نہرو ہمیشہ اسی ہوٹل میں ٹہرتے تھے ۔ اکثر اندار جی بھی ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ یہاں سے وہ ’’دہرہ دون‘‘ بھی جاتے ۔جہاں نہرو کی بہن وجیہ لکشمی رہتی تھی۔ یہ آسیب زدہ ہوٹل اپنی تمام تر پُر اسراریت کے باوجود دلکش ہے۔ یہ Hauntedلگژری ہوٹل خاتوں گارنیٹ کی پر اسرار موت کی وجہ سے اس قدر مشہور ہوا کہ ایگتھا کرسٹی کا پہلا ناول جو کہ انہوں نے 1920 ء میں لکھاThe Mysterious affair at Styles اسی کیس کو بنیاد بنا کر لکھا ۔میں جلد فراغت پاتے ہی اس ہوٹل میں قیا م کے لئے جاؤں گی ۔ کیا پتا بھٹکتی ہوئی گارنیٹ مجھے بھی مل جائے۔ کیا آپ اس آسیب زدہ ہوٹل میں رہنا پسند کریں گے؟
بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...
بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کاہندوتوا نظریہ ایک سکھ یا مسلمان کو مارنے کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرایس ایس اور بی جے پی کا نفرت انگیز نظریہ کانگریس پارٹی کے محبت اور قوم پرست نظریے پر بھاری پڑ گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے م...
خوشونت سنگھ کی کتاب ـ"The Good ,the Bad and the Ridiculous" میں ویسے تو بیان کردہ ہر خاکہ ہی کچھ نہ کچھ انوکھی معلومات کا خزانہ ہے ۔مثلاً بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ جن کا شمار دنیا کے سب سے پڑھے لکھے وزرائے اعظم میں ہوتا تھا ( وہ ڈبل پی ایچ ڈی تھے) انہیں لعل کرشن ایڈوانی جی ...
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی "اچانک" پاکستان کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ وہ لاہور آمد کے بعد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ کے ان چند مواقع میں سے ایک ہوگا جب کوئی بھارتی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آیا ہو۔ 68 سالہ تاریخ میں صرف تین بھارتی وز...
ریحام ،عمران طلاق کی بحث میں ایک نئے خط تفریق و تمیز کھینچنے کا معاملہ کھڑا ہوا کہ عوامی شخصیت یا عرف عام میں پبلک فگر کی نجی زندگی اور عوامی زندگی یعنی پبلک لائف اور پرائیویٹ لائف کی حدود کون ، کب اور کیسے متعین کرے بالخصوص ایسے خواتین و حضرات جو اپنی مقبولیت کی ہر سانس کابہی کھ...
کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا...
سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر ا...
موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران...
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہ...
’’یہ آل انڈیا ریڈیو ہے۔علاقہ نمبر ایک میں، ایک دو دنوں میں دو جگہوں پر سخت بارش ہو گی‘‘ یہ ۵؍ ستمبر ۱۹۶۵ء کا دن تھا ۔ شام کے ساڑھے چار بجے تھے۔آل انڈیا ریڈیو نے اپنے معمول کا پروگرام روک کر یہ اعلان دو مرتبہ دُہرایا۔معمول کا پروگرام پھر رواں ہوا۔ اچانک ایک مرتبہ پھر ایک پراس...
ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھی...