... loading ...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم کے طور پر پیش کرتے ہوئے قومی زبان اردو میں حلف اُٹھا یا ۔ اس تقریب کا اپنا ہی سرور تھا ۔ صدر ممنون حسین کی شیروانی کی روایتی سلوٹیں ان کے اردو لہجے میں دبی ہوئی تھیں جب ہی تو پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے کسی کیمرہ مین کو وہ نظر نہیں آئیں ۔ یہ ایک یاد گار منظر تھا جو ماضی کے دھندلکوں میں گُم ہونے کی بجائے اَ مرہونے کا سندیسہ بن رہا تھا ۔۔۔پھر وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا ۔۔۔۔ گنے چُنے بائیس دن گذر گئے ۔ مگر ایسے گزرے کے کبھی بھولنے نہیں پائیں گے ۔۔۔۔۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے 8 ؍ستمبر 2015 ء کو قومی کلینڈر(تقویم ) کا ایک یادگار دن بنادیا ۔کوکب اقبال ایڈو کیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی تفصیلی سماعت کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل سپر یم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے قومی زبان اردو کوبطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے کا حکم صادر فرماتے ہوئے قومی اور صوبائی حکومتوں کو آئین کی دفعہ251 کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات بھی جاری کیں ۔ اس فیصلے کا سب سے موثر نکتہ یہ ہے مقابلے کے امتحان سمیت تمام امتحانات اُردو زبان میں منعقد کئے جائیں ،جس کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے ۔ تعلیمی نصاب کو اردو زبان میں واپس لانے کی راہ ہموار ہو گی ۔
محسن ِ اردو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالتِ عالیہ کے بنچ کا فیصلہ ہمارے قومی تشخص کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اردو کی ہمہ گیر وسعت و عظمت میں کسی کو کلام نہیں یہ زبان ہمارے اجتماعی تشخص کا نشان ِ امتیاز ہے ۔تحریک ِ پاکستان کے دوران یہی زبان مہمیز کا کام دیتی رہی اور قوم کی صفوں میں اتحاد کی روح پھونکتی رہی ۔انہی بنیادوں پر اُردو کو نظریہ پاکستان کی داعی اور مفسر کہا جاتا ہے ۔مختلف علاقوں کے لوگوں میں فکری ربط و ضبط کے علاوہ وسیلہ ابلاغ یہی زبان ہے۔اس آگہی کے باوجود قومی زبان اردو کو دفتری اور سرکاری زبان بنانے کے معاملے میں ہم بحیثیتِ قوم مجرمانہ غفلت کے مرتکب رہے ۔انگریزی کی بلاجواز بالا دستی نے ہماری غلامانہ ذہنیت کے خود رو مگر سدا بہار پودے کی خوب آبیاری کی اور انگریزوں کی سیاسی بالا دستی کی آخری علامت کے طور پر ہمارے دفتری ، عدالتی اور تعلیمی نظام پر یہ بدیسی زبان آج تک حکمرانی کر رہی ہے۔ ماضی میں انگریزی کے اس تسلط کے خلاف نفاذِ اردو کی جدوجہد کو ہماری غلام فکر بیوروکریسی علاقائی زبانوں کی مخالف تحریک ثابت کرنے کی مذموم مگر کامیاب کوشش میں مصروف رہی ۔ہماری افسر شاہی کایہ انتہائی خطر ناک اندازِ فکر تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں لسانی تعصب خوب پروان چڑھااور آج ہم جن عصبیتوں کے شکار ہیں اُن میں لسانی عصبیت سرِ فہرست ہے ۔
حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علاقائی زبانیں اردو کے لسانی سرمائے میں مسلسل اضافے کا مستقل ذریعہ بنتی ہیں اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اردو کی پُر شکوہ عمارت علاقائی زبانوں کے بلند و بالا، مستحکم اور مضبوط ستونوں پر اُستوار ہے ۔اردو شناش حلقوں کے نزدیک یہ زبان ایسے ہے جیسے آبِ سُخن میں رچ جائے آتشِ چنار ،اس میں ترکی کی دلنواز ملاحت جُبیناں ، عربی ٔ مبین کی جلال آفرینیاں،قندِ فارسی کی حلاوت ،بھاشا کی مٹھاس، ہندی کی لوچ ،پنجابی کے شعور کی ارفع فراستیں ، سندھی کی شیرینیاں ہندکو اور سرائیکی کی مکرم نفاستیں سوچ اور فکر کے لئے پُر شوق راستوں کو کشادہ کرتی نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے دیدہ وروں میں کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں پایا جاتا۔
1973ء کے آئین کی رُو سے نفاذِ اردو کے لئے پندرہ سال کا عرصہ مقرر کیا گیا تھا لیکن گزشتہ 42 سال کے عرصہ میں اس حوالے سے جس قدر پیش رفت ہوئی تھی وہ ہم سب کے سامنے ہے اور اس صورتحال پر وطنِ عزیز کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقے اپنے ضمیر سے پوچھتے رہے کہ قومی زبان کی نفاذ و ترویج کا وہ مسئلہ جس پر حال کی تعمیر اور مستقبل کی ترقی کی بنیادیں اُستوار ہیں ہماری مناسب توجہ حاصل کیوں نہیں کر سکا ۔ ایک روشن نصب العین کے باوصف اپنی قومی زبان کو وہ مقام کیوں نہیں دلا سکے جو کسی آزاد قوم کا طرہ امتیاز ہے ۔
سر سید مرحوم نے اُردو کے فروغ کا علم اُٹھایا ، حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اسی کو آراستہ کرنے پر زور دیا ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے تاریخی اعلان میں اسی اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا ۔ لیکن فرنگی تہذیب و تمدنیت نے ہمیں نہ صرف اسلام سے بیگانہ کر دیا بلکہ اپنی قومی زبان ، ملی تمدن، مشرقی روایات اور جذبہ حب الوطنی سے یکسر عاری کردیا ہے۔ ہمارے بعض نام نہاد دانشور جنہوں نے انگریزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے آفاقیت میں ایسے گُم ہوئے ہیں کہ مملکتِ خداداد کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں انہیں غیر ضروری نظر آتی ہیں ۔پاکستان اور نظریہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آفاقیت مجروح ہوتی ہے۔ ان کی ظاہری شکل و صورت اور فرنگی کا اندازِ فکر شاعرِ مشرق کا یہ مصرعہ یاد دلاتا ہے
’’یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود‘‘
اردو کو بطور دفتری اور سرکاری زبان نافذ کرنے کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے اردو کا جو احیاء ہوا ہے وہ دادو تحسین کا مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں ۔صورتحال خاصی حوصلہ افزا ء ہے۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم میں خط و کتابت اردو میں شروع ہو چُکی ہے ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ہم اپنے نجی اداروں ، کارخانوں ، دکانوں ، تنظیموں کے تمام اُمور اور کاروبار اردو میں انجام دیں ۔ تعجب کی بات ہے کہ جب انڈو نیشیا ، عوامی جمہوریہ چین ،فن لینڈ ، عرب اور افریقی ممالک میں کاروبار اُن کی قومی زبانوں میں چل سکتا ہے تو پاکستان میں ابھی تک اپنی زبان کو ثانوی حیثیت کیوں دی جاتی رہی ہے ۔ بقول سید گلزار بخاری
راولپنڈی کی لال حویلی کے مکین شیخ رشید احمد نے جب سے’’ اپنی ‘‘ سیاست شروع کی ہے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے خود کو سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اُن کی سیاسی کہانی مدو جذر اور پلٹنے جھپٹنے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے...
میں جب بھی یہ نعرہ سنتا ہوں ’’ دیکھو دیکھو کون آیا ۔ شیر کا شکاری آیا ‘‘ تو مجھے قیامِ پاکستان سے پہلے ’’کپتان ‘‘ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کی ایک خونخوار شیر سے ’’ ہاتھا پائی ‘‘ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے ضلع میانوالی اور ...
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...
کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ـ’’ جئے بھٹو ‘‘ اور ’’ جئے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگائے تو ماضی کے دھندلکوں سے 12 ستمبر2007 ء کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ مری یادوں کے خزانے چٹیل ویرانوں اور کچلے ہوئے خوابوں کے ریزوں جیسے ہیں۔ تپاں جذبوں سے ...
پروفیسر منور علی ملک میرے انگزیری کے اُستاد اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے دوست ہیں ۔ اپنی کتاب ’’ درد کا سفیر ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اُونچے سُروں کی شاخوں میں اُلجھ کر جب یہ آواز کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھٹراتی ہے تو روح کا شجر جڑوں تک لرز اُٹھتا ہے ۔ اور پھر جب اس بلندی سے کسی ...
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...
ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
جیل یا عقوبت خانے کا تصور یا تاثر کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔۔۔ پھانسی گھاٹ تو ہوتا ہی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔انسان کو اپنا سکون اور جان بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے جیل جانا کسی کو بھی پسندیا قبول نہیں ہوتا۔۔ 31 ؍ اکتوبر غازی علم دین شہید کی برسی کے موقع پر سینٹرل جیل میانوالی کے دورے...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...