... loading ...
ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی چین کی اسٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے فوراً ایک غیر منطقی اور مبالغہ آمیز ردعمل دکھائی دیا۔ جب پریشان حال سرمایہ کاروں کے اعصاب جواب دیتے جا رہے تھے، تب چند آوازیں اٹھیں، جنہوں نے اعصاب کو ٹھنڈا کیا۔ ایک “ماؤ پر مارکیٹ: چین میں نجی کاروبار کا بڑھنا” نامی کتاب کے مصنف اور پیٹرسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس کے فیلو نکولس لارڈی تھے اور دوسرے سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو 1970ء کی دہائی میں مغرب کے لیے چین کے دروازے کھولنے والی اہم شخصیت رہے ہیں۔ پیغام دونوں کا ایک ہی تھا کہ چین کے معیشت کے بارے میں زيادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے، لیکن ان کی باتیں ضرور الگ تھیں۔
26 اگست 2015ء کو نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لارڈی نے سخت اعدادوشمار کی بنیاد پر ایک نرم تجزیہ لکھا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے چین کے بہترین ماہر اقتصادیات میں شمار ہونے والے لارڈی کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنے والے غلطی پر ہیں کہ چین مالیاتی و اقتصادی طور پر تحلیل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اعدادوشمار سے بھی ظاہر ہے کہ چین کی معیشت 7 فیصد کی شرح نمو سے بہت زیادہ نیچے نہیں آ رہی۔
سفارت کار اور سیاسی علوم کے ماہر ہنری کسنجر نے دیگر معیشتوں کے تاریخی تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے ایک جامع اور وسیع زاویہ پیش کیا ہے۔ 4 ستمبر 2015ء کو چین کے سرکاری ٹیلی وژن ‘سی سی ٹی وی’ سے بات کرتے ہوئے کسنجر نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ چین کو سنجیدہ اصلاح یا بحرانوں کے مرحلے سے گزرنا پڑے۔ البتہ ان کی رائے ہے کہ تیز رفتار ترقی کے اتنے طویل عرصے کے بعد چین کی معیشت کا دھیما پڑ جانا “فطری” اور “ناگزیر” ہے۔
درحقیقت مسئلہ یہ بھی ہے کہ چین کے اعدادوشمار ہمیشہ مستقل اور قابل بھروسہ نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر فولاد کی پیداوار کو ہی لے لیں، جو 2013ء میں 779.04 ٹن تھی اور 2014ء میں 822.27 میگاٹن بتائی گئی لیکن پچھلے سال کے مقابلے میں اضافہ صرف 0.9 فیصد ظاہر کیا گیا حالانکہ ریاضیاتی حساب سے اسے 5.6 فیصد ہونا چاہیے۔ دراصل یہ شرح دونوں سال کی پیداوار کو ایڈجسٹ کرکے نکالی گئی تھی، 4.7 فیصد یعنی 36.32 میگاٹن کی ایڈجسٹمنٹ۔ جو فولاد پیدا کرنے والے دنیا کے ساتویں بڑے ملک چین کی مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ہے۔
چین کے اعدادوشمار اتنے غلط ہوتے ہیں کہ خود چینی رہنما ان پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے، اور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ جیسا کہ وزیراعظم لی کی چیانگ چینی معیشت کے اندازوں کے لیے قومی ادارۂ شماریات کے نتائج کے بجائے دیگر طریقے آزماتے ہیں جیسا کہ ریلوے کا کارگو حجم، بجلی کی کھپت اور بینکوں کو دیے جانے والے قرضے۔ ان اشاریوں کو مجموعی طور پر لی کی چیانگ انڈیکس کہتے ہیں۔
ویسے جتنے رجائیت پسند لارڈی اور کسنجر ہیں، ہوسکتا ہے کہ چینی رہنما اتنے پرامید نہ ہوں۔ 2014ء میں 7.4 فیصد سے گھٹ کر 2015ء میں شرح نمو کے 7.0 فیصد تک آ جانے پر چینی حکومت نے جو ردعمل دکھایا ہے، وہ ایسا ہے جیسے دنیا ختم ہونے کے قریب ہے۔ صرف 9 ماہ کے مختص رعرصے میں مرکزی بینک پیپلز بینک آف چائنا نے شرح سود کو پانچ مرتبہ کم کیا ہے۔ تو ہمیں چین کی معیشت کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ کا چین کے سیاست دانوں ہے اور اگر ان کے حالیہ اقدامات دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ ضرور پریشان ہیں۔