... loading ...
پھر،کیا ایک بار پھر ہم وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے! شہر گماں میں یقینوں کے خدا کی تلاش کیسے کریں؟ راکھ میں شعلہ ڈھونڈنے کا مشغلہ کہاں اچھا ہوتا ہے۔
کوئی دن جاتا ہے کہ باقی رہنے کی جبلت تصادم میں رقص کرے گی۔ پھر وہی منظر، پھر وہی منظر۔۔رُکئے! کوئی اور پیرایۂ اظہار ڈھونڈتے ہیں۔کیوں نہ خلیل جبران کو یاد کریں!جس کا وفور ِ تخیل کبھی کالج کی جواں سال لڑکیوں کی کتابوں میں موجود گلاب کی پتیوں سے جھلکتا تھا۔مگر وہ بآنداز دگر کچھ اور بھی تھا۔لکھتا ہے:
’’دریا کے کنارے ایک شہتیر تیر رہا تھا۔ اس پر چار مینڈک بیٹھے تھے۔ یکایک پانی کا ریلا آیا اور شہتیر کو بہا کر منجدھار میں لے گیا۔مینڈک خوش تھے اور مطمئن، کیونکہ آج تک اُنہوں نے ایسا لطف نہ اُٹھایا تھا۔
آخر پہلا مینڈک بولا۔ ’’درحقیقت یہ نہایت ہی عجیب و غریب شہتیر ہے اور یوں تیرتا ہے گویا زندہ ہے۔ آج تک ایسا شہتیر دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘
پھر دوسرا مینڈک بولا۔’’نہیں میرے دوست! یہ شہتیر بھی دوسرے گھٹوں کی طرح ہے اور یہ حرکت نہیں کرتا۔ یہ تو دریا ہے جو سمندر کی طرف بہہ رہا ہے اور اپنے بہاؤ کے ساتھ ہمیں اور اس گھٹے کو لے جارہا ہے۔‘‘
اب تیسرا مینڈک بولا۔ ’’نہ تو شہتیر تیر رہا ہے اور نہ دریا بہہ رہا ہے حرکت تو ہمارے خیال میں ہے کیونکہ خیال کے بغیر کوئی شے حرکت نہیں کر سکتی۔‘‘
اس طرح تینوں مینڈک آپس میں جھگڑنے لگ گئے کہ فی الحقیقت حرکت کرنے والی چیز کون سی ہے؟ تنازع بڑھتا ہی چلا گیا۔ اور وہ کسی چیز کا فیصلہ نہ کر سکے۔
یہاں تک کہ اُنہوں نے چوتھے مینڈک سے پوچھا جو اس وقت تک ساری بحث توجہ سے سنتا رہا تھا مگر چپ چاپ بیٹھا تھا ۔ تینوں مینڈکوں نے اس کی رائے دریافت کی ۔ تب چوتھے مینڈک نے کہا : تم میں سے ہر ایک راستی پر ہے اور تم میں سے کوئی غلطی پر نہیں۔ حرکت شہتیر میں بھی ہے، پانی میں بھی ہے اور ہمارے خیال میں بھی ہے۔‘‘
یہ جواب سن کر تینوں مینڈک غضب ناک ہوگئے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ اس کا دعویٰ سراسر صداقت پر مبنی نہیں۔ اور دوسرے دونوں پورے طور پر غلط نہیں۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی، تینوں مینڈک مل گئے اور اُنہوں نے چوتھے مینڈک کو شہتیر سے دھکّا دے کر دریا میں گرا دیا۔ ‘‘
پاکستان میں کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں چوتھا مینڈک تینوں مینڈکوں کو شہتیر سے دھکّا دے کر دریا میں کبھی بھی گرانے کی طاقت رکھتا ہے۔پاکستان کے سیاسی شہتیر پر مینڈکوں کی لڑائی جاری ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اصل ’’حرکت ‘‘ کہاں ہے؟ مگر اس حرکت کی خبر، خبر دینے والے روز افواہوں کی صورت میں دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ خبریں کہاں سے آتی ہیں ! خبروں کی دنیا میں سانسیں لیتے ہوئے اب انیس برس ہوتے ہیں۔افواہ طرازوں سے لیکر خبرتراشوں تک جو افراد اور ادارے محرک بنتے ہیں، اُنہیں سمجھنے بوجھنے میں طالب علم نے زندگی کھپا دی۔ جب اس کی’’ اور چھور‘‘ سے کچھ آگہی ہوئی تو پھر ایک نئی دنیا آباد ہوگئی ۔باضمیر امریکی دانشور نوم چومسکی اِسی کوتو روتا ہے۔ یہ خبریں کون گھڑتا ہے ؟ پاکستان میں مسئلہ دوسرا بھی ہے۔ اکثر یہ گھڑی ہوئی خبریں، اچانک حالات کی کروٹ میں خود کو درست بھی ثابت کر دیتی ہیں۔ اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار نے اِسی کرب کو ہنسی میں ٹالا:پاکستانی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ اکثر سچ نکلتی ہیں۔‘‘مگر ان افواہوں کو فروغ دیتے دیتے، سچ کے مغالطے پیدا کردینے والے آخر کیوں اور کس کا کھیل کھیلتے ہیں؟یہ ایک سوال ہے جس کو تشنہ جواب چھوڑتے ہیں۔
وقت کی طنابیں ٹوٹ رہی ہیں یہ عمران خان کے دھرنے ایسا خطرہ نہیں، جس میں ذرائع ابلاغ پھر بھی کچھ آزاد تھے کہ وہ اپنی رائے خود ہی بنا سکیں۔یہ کچھ اور ہیں۔ یہاں رائے بنانی نہیں ،کسی کی تحویل میں دینی پڑتی ہے۔ اُن’’ بہادروں‘‘ کوبھی جو بظاہر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مخالفت کے خطرات مول لیتے ہیں اور کراچی میں کسی اور پر نہیں، اپنے ’’الطاف بھائی‘‘ پر اعتراض اُٹھا لیتے ہیں۔ پھر وہ اُس’’ آسمان ‘‘کے قریب پہنچ کر پلٹ آتے ہیں جہاں پَر ہی نہیں سالم انسانی وجود جل جاتے ہیں۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ دُھند آلود ہوچکا۔ تضادات کی گھمن گھیریوں نے سب کو آلیا۔ ایک بار پھر ’’قیدیوں‘‘ کو ’’زنجیر‘‘ بدلنے کی ’’بشارت ‘‘دی جارہی ہے۔افسوس یہ بشارتیں سنانے والے ذرائع ابلاغ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ چھ برس ایک طاقت ور اور غلبے کے خواہش مند ٹولے کے آلۂ کار کے طور پر کام کیا۔ اور اب وہ پھر سے کمر بستہ ہیں۔ مگر اب کی بار’’ کمانداروں ‘‘کے ہدف کی حمایت عوام میں پیدا کر لی گئی ہے۔ اور سیاست میں ہر ایک کاہاتھ دوسرے کے گریبان تک پہنچادیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کے معاہدوں کو ایک دوسرے پر بوجھ بنا دیا گیا ہے۔ اور عسکری و تمدنی تعلقات کی مساوات کو بدعنوانیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ماتحتی میں دے کر ترجیحات کی ترتیب تبدیل کر دی گئی ہے۔ اس دوران ’’تمدنی‘‘برتری کے دعویدار حکمرانوں کو اُن کی ’’بداعمالیوں‘‘ (جو حقیقت بھی ہیں) کے آئینے میں شرمندہ کر کے اُن کی پیش قدمی کی حس کو ہی مردہ کر دیا گیا ہے۔ اب معاملات جہاں تک چلے گئے ہیں اُنہیں کسی انجام کا چہرہ دکھائے بغیر واپس الماریوں میں مقفّل نہیں کیا جاسکتا۔ پھر،کیا ایک بار پھر ہم وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے!
شہتیر پر مینڈکوں کی لڑائی جاری ہے۔دیکھئے ! حرکت کی بحث، چوتھے مینڈک تک کب پہنچتی ہے؟ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک آواز سنائی دے گی۔ مبادا یہ مینڈکوں کے شہتیر سے دریا میں گرائے جانے کی آواز نہ ہو!ابھی تو بس اتنی ہی خبر ہے کہ باقی رہنے کی جبلّت تصادم میں رقصاں ہے!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...