وجود

... loading ...

وجود

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

اتوار 06 ستمبر 2015 معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

Wujood-Journalism

وجود کا تصورِ صحافت قارئین کے لئے اجنبی نہیں۔ ہمارے لئے صحافت ایک راستے کے طور پر جانا پہچانا پیشہ ہے۔ خود صحافت کے لئے بھی ہم کوئی انجان راہی نہیں۔ وجود تاریخ اور صحافت کے درمیان فرق کر تا ہے۔ اور ایسے جادۂ صحافت کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جو عرصۂ موجود کی گواہی ، لمحۂ موجود میں نہیں دیتا۔ صحافت آج کی گواہی آج ہی دینے کا نام ہے۔ وہ گواہی جو خطرات ٹلنے اور وقت گزرنے کے بعد دی جائے، اُس کے لئے صحافت نہیں کوئی اور پیشہ مناسب ہے۔ یہ جذبات کا نہیں جذبے کا معاملہ ہے۔جس کی بنیاد بلوہ نہیں نظریہ ہے۔

ہم نہایت کرب کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ نظریئے کی سطح پر پاکستان کے قومی ، ملی اور مذہبی بیانئے کو دانستہ طور پر توڑ پھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک نظری منچ پر پاکستان کا وجود مکمل تحلیل کرنے کے منصوبے تیز رفتاری سے جاری ہیں۔ یہ نظریاتی باڑھ اگر ختم کر دی گئی تو پھر پاکستان کے جغرافیائی جواز پر سوالات اُٹھنے لگیں گے۔ یہ کام نہایت پُرکاری سے جاری ہے ۔ کبھی یہ مباحث بدبو دار کتابوں میں بھرے ہوتے تھے اور اُسے نہایت حقارت سے مسترد کر دیا جاتا تھا۔ مگر اب یہ قومی ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے کا حصہ بن چکے ہیں اور اِ س طرح پیش کئے جارہے ہیں کہ یہ قومی دانائی کے مترادف لگیں۔ تصورات کی سطح پر یہ بحث اب تحریک ِ پاکستان جیسے جوش وخروش کی متقاضی ہے۔ صاف لگتا ہے کہ تحریکِ پاکستان ابھی جاری ہے ۔ پاکستان کے قومی ، ملی اور مذہبی بیانئے کی حفاظت اب پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ایسا کام بن چکاہے۔ مگر اس کی موافق نظریاتی قوتوں کا حال زیادہ شرمناک ہے۔ وہ روحِ عصر سے ناآشنا ہیں اور نئے تالوں کو پُرانی چابیوں سے کھولنے پر مُصر ہیں۔ اُن کے اندازِ بیان پر خطابت کے جذباتی سائے پڑ چکے ہیں۔ اور وہ بدلے ہوئے عہد کی زبان اور اندازِ بیان سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ نئے دورکی ابلاغی بصیرت سے بھی مکمل محروم ہیں۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ اپنے موقف کے لئے درکار قوتِ استدلال کو بھی بہت تیزی سے تحلیل کرتے جارہے ہیں۔ اگر چہ اُن کی وجدانی بصیرت اُنہیں صحیح و غلط کا ایک خودکار احساس مہیا کرتی ہے مگر وہ اس کے ابلاغ کی قابلِ قبول منہج سے مکمل محروم ہیں۔ اِسے نئے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ کب ممکن ہوگا؟ دراصل پچھلی چار پانچ دہائیوں سے ہمارا قومی و ملی شعور، کامل سیاسی تناظر کا قیدی بن چکا ہے۔ہم سیاست کے منہ سے بھونکنے اور سیاست کے دماغ سے سوچنے لگے ہیں۔اس سیاسی حیوانگی کا دورہ ،دراصل مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے پڑا تھا۔ مگر وہ قومیں اپنے علمی تصور کی دوا سے شفا پاچکی ہیں، ہم ابھی تک بیمار ہیں۔ ایک ٹھوس علمی تصور سے سیرابی کے بغیر نرا سیاسی تناظر قومی زندگی کو نہایت اوچھی ، اُتھلی اور چِھچھلائی حالت میں رکھتا ہے۔ ہماری قومی زندگی اس کی شکار ہوچکی ہے۔بدقسمتی سے ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ جس سیاسی شعور کا ہم روز ڈنکا بجاتے ہیں، وہ ہمارا وصف نہیں عیب ہے۔اسی عیب کا نتیجہ قومی ذرائع ابلاغ کی اس درجہ فراوانی کی شکل میں نکلا ہے۔ لوگ اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن کے جگمگاتے پردے پر خبروں کی زندہ (لائیو)اور تیز رفتار جھلکیاں دیکھ کر حالات سے آگاہی کے زعمِ باطل میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرمایہ پرست نظام ہائے حکومت کے سب سے جادو اثر منتر ہیں۔ جن کی بناؤٹ میں یہ مکارانہ انتظام میکانیکی طو رپر رکھا گیا ہے کہ یہ خبروں کی اصل سمت سے ناظر اور قاری کو محروم رکھتا ہے۔ یہ قیدیوں کو زنجیر کی تبدیلی سے رہائی کی نوید دینے کا جھوٹا آلہ ہے۔ہم کیسے بے خبر اور پست ذہن لوگ ہیں جو تبدیلی کے لئے بھی اب ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنے لگے ہیں جو کسی بھی حقیقی تبدیلی کے بعد اپنی موجودہ حالت میں اس طرح اپنا وجود برقرار ہی نہیں رکھ سکتے۔دراصل ایک حقیقی تبدیلی میں ذرائع ابلاغ کی جوہری تبدیلی کا عمل بھی شامل ہوگا۔کسی کواس پر حیرت کیوں نہیں ہوتی کہ ذرائع ابلاغ کے مالکان دنیا بھر میں نہیں ، پاکستان میں بھی اُسی طرح کے بدعنوان لوگ کیوں ہیں جس طرح کے دیگر سیاست دان یا تاجر وغیر ہ ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مالکان دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ بناؤٹ کے اصل تعلق دار (اسٹیک ہولڈر ) ہیں۔

ذرائع ابلاغ نے خود کے متعلق ضرورت سے کچھ زیادہ ہی رومان پال لیا ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون سے لے کر آزادیٔ اظہار کے بنیادی دعوے تک اس میں بہت سے خلاء ہیں۔ مگر یہ موضوعِ بحث ہی نہیں بنتے۔ دراصل پاکستانی معاشرے میں کوئی کسی کو ’’چیلنج‘‘ کرنے کے قابل نہیں رہ گیا۔ اور یہ اس لئے ہے کیونکہ ہر ادارہ کہیں نہ کہیں ماضی کا ایسا بوجھ رکھتا ہے جو اُسے اخلاقی طور پر دوسروں کے لئے واجب سوال بھی اُٹھانے سے روکتا ہے۔ بس اِسی باعث ہر ادارہ اپنے لئے گنجائشیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ حکمرانی کی بدترین مثالوں نے ریاستی ادارو ں کو تقریباً پگھلا دیا ہے اور وہ فشاری گروہوں کے سخت دباؤ میں رہتے ہیں۔ اس کا سبب اُن کا وہی اخلاقی جواز ہے جو اُن کی بداعمالیوں کی وجہ سے معدوم ہو چکا ہے۔ ہم اس تصور میں خود کو بھی تولنا ٹٹولنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اذیت ناک سفر ہے جس میں اُنگلیاں بھی ہم اُٹھا رہے ہیں اور جن کی جانب اُنگلیاں اُٹھیں گی وہ بھی بآلاخر ہم ہی ہیں۔ لیکن یہ اب ایک ناگزیر عمل بن چکا ہے کیونکہ پاکستانی صحافت اپنے مثالی کردار سے دورہی نہیں ہو گئی۔ بلکہ اب کسی جامے میں بھی نہیں رہی۔

ہم اِ ن تصورات کے ساتھ اپنے شعورِ صحافت میں ایک فریق ہیں۔ مگر سیاست کی آلائشوں سے پاک ایک ایسے کردار کے متمنی ہیں جو حزب ِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے بجائے ایک حزب ِ اعتدال کا ترجمان ہو ۔ جس میں حمایت ومخالفت کا محرک شخصیات یا اُن سے وابستہ مفادات نہیں بلکہ ہماری تائید وتردید کی بنیاد موقف کی اصَابَت پر ہے۔اس معرکے میں آپ کی حمایت کے بغیر ہم مورچہ زن نہیں رہ سکیں گے۔ اپنے نقد سے نوازیں اور ہماری رہنمائی کریں ۔


متعلقہ خبریں


آزادی اظہار رائے کا مطلب پیغمبر اسلام ۖ کی گستاخی کا لائسنس نہیں،روسی صدر وجود - هفته 25 دسمبر 2021

روسی صدر ویلادی میر پوٹن نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور فنکارانہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ سمیت دیگر مذہبی شخصیات کی گستاخی کا لائسنس مل گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق روسی صدر ویلادیمیر پوٹن نے سالانہ پریس کانفرنس کے موقع پر مذہبی آزادی میں رکاوٹ کے بغیر فنکاران...

آزادی اظہار رائے کا مطلب پیغمبر اسلام ۖ کی گستاخی کا لائسنس نہیں،روسی صدر

حکومت پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل کا منصوبہ واپس لے، عالمی صحافتی و پبلشر اداروں کا مطالبہ وجود - جمعرات 07 اکتوبر 2021

ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پبلشرز، انٹرنیشنل پبلشرز ایسوسی ایشن اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل کا منصوبہ واپس لے، کیوں کہ اس بل سے تمام میڈیا پر ریاستی کنٹرول کا خدشہ ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایک مشترکہ بیان میں ...

حکومت پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل کا منصوبہ واپس لے، عالمی صحافتی و پبلشر اداروں کا مطالبہ

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

بھارت کی زہر آلود صحافت الطاف ندوی کشمیری - پیر 19 ستمبر 2016

کشمیر کی گتھی کو سمجھنے اور سلجھانے میں ناکام حکومتِ ہندوستان کے منفی اثرات اکثر شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں ۔اس ناکامی میں جو کردار بھارت بھر کے الیکٹرانک میڈیا کا ہے وہ المناک بھی ہے اور شرمناک بھی ۔یہ ذرائع ابلاغ نہیں بلکہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا روپ دینے والی وہ م...

بھارت کی زہر آلود صحافت

نظریۂ پاکستان اور ہم عصر مسلم دنیا محمد دین جوہر - منگل 09 اگست 2016

اس وقت مسلم دنیا جن حالات میں ہے، وہ معلوم ہیں اور روزمرہ مشاہدے اور تجربے میں ہیں۔ واقعاتی سطح پر حالات کے بارے میں ایک عمومی اور غیررسمی اتفاق پایا جاتا ہے کہ بہت خراب ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں آرا بہت زیادہ مختلف ہ...

نظریۂ پاکستان اور ہم عصر مسلم دنیا

ایران میں سینکڑوں صحافیوں کو "سرکاری" دھمکیاں وجود - منگل 05 جولائی 2016

ایران میں سینکڑوں صحافیوں کو ایک نامعلوم ایس ایم ایس پیغام آیا ہے جس میں انہیں بیرون ملک "دشمن" تنظیموں کے ساتھ رابطے ختم کرنے کی تنبیہہ کی گئي ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 700 صحافیوں اور عوامی شخصیات کو یہ پیغام موصول ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "بیرون ملک مقیم دشمن عنا...

ایران میں سینکڑوں صحافیوں کو

امریکا نے نائن الیون حملے خود کیے، سعودی ذرائع ابلاغ کا جوابی وار وجود - منگل 24 مئی 2016

سعودی عرب نے امریکی حکومت پر سخت جوابی وار کیا ہے جس میں امریکا پر نائن الیون حملوں کی خود منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کا جواز پیش کرسکے۔ سعودی ذرائع ابلاغ نے کا یہ ردعمل امریکی سینیٹ کی جانب سے نائن الیون حملوں میں مر...

امریکا نے نائن الیون حملے خود کیے، سعودی ذرائع ابلاغ کا جوابی وار

کوئی مشتری ہو تو آواز دے - میں کم بخت جنس ہنر بیچتا ہوں وجود - منگل 26 اپریل 2016

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں پاناما پیپرز کے پس منظر میں ذرائع ابلاغ کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ "چوں چوں" کررہے ہیں۔ نوازشریف کی جب بھی حکومت آئی ہے ، وہ اُس وقت کے ذرائع ابلاغ کو قابو کرنے کے لیے خصوصی طریقے بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کی حال...

کوئی مشتری ہو تو آواز دے - میں کم بخت جنس ہنر بیچتا ہوں

ذرائع ابلاغ پر عوامی اعتماد نہ ہونے کے برابر، دلچسپ سروے وجود - منگل 19 اپریل 2016

ناقص خبریں اور متعصبانہ رویہ، ذرائع ابلاغ پر عوام کا اعتماد دنیا بھر میں بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر شکوک میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس وقت صرف 6 فیصد امریکی ہیں جو میڈیا پر کافی اعتماد رکھتے ہیں۔ لیکن یہ اعتماد بھی درستگی، توازن اور شفافیت کے عام صحافتی اصولوں ک...

ذرائع ابلاغ پر عوامی اعتماد نہ ہونے کے برابر، دلچسپ سروے

تنہائی پسند افراد کے لیے 10 بہترین کام وجود - هفته 12 ستمبر 2015

بہترین تنخواہ اور معاشرے میں اعلیٰ مقام، بس آجکل دوڑ اِسی کی ہے۔ یہ ملازمتیں آپ کو ایک کامیاب اور بہتر زندگی تو دے سکتی ہیں لیکن یہ آپ کو تنہا کردیں گی۔ اگر آپ تنہائی پسند ہیں، تو یہ 10 ملازمتیں آپ کا بہترین انتخاب ہوسکتی ہیں۔ کھلاڑی کھلاڑی اپنے دن کا بیشتر وقت جم یا کھیل ک...

تنہائی پسند افراد کے لیے 10 بہترین کام

امریکی ریاست ورجینیا میں دو صحافیوں کا قتل وجود - جمعرات 27 اگست 2015

امریکی ریاست ورجینیا میں مقامی ٹیلی ویژن سے وابستہ دو صحافیوں کو فائرنک کرکے اُس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ براہِ راست پروگرام کر رہے تھے۔ہلاک شدگان میں 27؍ سالہ کیمرہ مین ایڈم وارڈ اور 24؍ سالہ رپورٹر ایلیسن پارکر شامل ہیں۔دونوں کی منگنی ہو چکی تھی۔ مقامی اسٹیشن منیجر جیفری مارکس ...

امریکی ریاست ورجینیا میں دو صحافیوں کا قتل

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر