... loading ...
وزیر اعظم نواز شریف اور مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی حالیہ ملاقات میں ایک بار پھر افغانستان میں قیامِ امن کے لئے اپنا کردار جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی نوکر شاہی کے لئے افغانستان میں قیام ِ امن اور وہاں متحارب گروہوں میں ایک نمائندہ اجتماعی نظم کا قیام ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔
افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مسلسل جنگ نے پورے افغانستان کو ایک کھنڈر میں بدل دیا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ افغان عوام آئے دن کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی مسلسل بڑھتی تعداد ایک اور طرح کے المئے سے گزر رہا ہے۔ طالبان کی ستمبر ۱۹۹۶ء میں کابل پر عملداری قائم ہونے کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب افغانستان میں خانہ جنگی اور بدامنی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا۔طالبان ایک کامیاب حکومت کی بنیاد رکھ کر اپنی پیش رو جہادی تنظیموں کی غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔طالبان نے ایک طرف شریعت کی سخت گیر تعریف کے ساتھ ایک جبری ماحول پیدا کردیا تو دوسری جانب عالمی برادری نے اُسامہ بن لادن اور دیگر جہادی تنظیموں کی حمایت پر طالبان کو نہ صرف الگ تھلگ کر دیا بلکہ اُن پر ادویات اور غذائی اجناس کی فراہمی تک پر پابندی لگادی۔اس دوران میں افغانستان کے پڑوسی ممالک نے یہاں اپنی مداخلت جاری رکھی۔یہاں تک کہ روس بھی اس مداخلت میں برابر ملوث رہا۔طالبان مخالف باغیوں کو اسلحہ ، گولہ بارود اور دیگر امداد فراہم کی جاتی رہیں، اگر چہ یہ مخالفین سکڑتے سکڑتے صرف پنج شیر تک ہی محددو رہ گئے تھے، مگر اس مسلسل امداد کے باعث جنگ کے فوری خاتمے کی امیدیں دم توڑ گئیں۔
امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ایک جنگ کے ذریعے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر عالمی برادری نے ۲۰۰۱ء میں بون کانفرنس کے ذریعے ایک جامع اور نمائندہ سیاسی نظم قائم کرنے اور جنگ کے خاتمے کی نوید دی۔تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ ایک دکھاوے کے مسلسل انتخابات کے ذریعے حامد کرزئی کے صدر بن جانے کے باوجود حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ طالبان اور دیگر مسلح مزاحمتی تنظیموں کی کارروائیاں زور پکڑتی گئیں۔یہاں تک کہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کا غرور خاک میں مل گیااور وہ مکمل شکست سے دوچاہو ئے۔امریکا نے دسمبر ۲۰۱۴ء تک اپنے تمام فوجی دستے افغانستان سے واپس بُلائے۔اور وہاں سے اپنی جنگی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔تاہم اُس نے افغان حکومت کے ساتھ دوطرفہ معاہدۂ امن کی رو سے اپنے کئی فوجی دستوں کو افغانستان میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔عالمی برادری ، امریکا اور مغربی طاقتوں نے افغانستان میں قیامِ امن کے لئے متعدد کوششیں کی ۔ان طاقتوں نے ایک طرف’’ افغان ہائی پیس کونسل‘‘ کی حمایت کے ذریعے مسلح مخالفین کو لڑائی ترک کرنے اور اُنہیں افغان آئین کے تحت زندگی گزارنے کی غرض سے سرنڈر کرنے پر اُبھارا۔چنانچہ کونسل نے اس میں کروڑوں ڈالر پھونک ڈالے۔مگر یہ پیسے امن کے حقیقی عمل پر خرچ ہونے کے بجائے بدعنوان افغان اہلکاروں کی جیبوں میں چلے گئے۔اس کے علاوہ جرمنی، ناروے، فرانس، انگلینڈ اور متعدد دیگر یورپی ممالک بھی افغان عمل کے نام پر بروئے کار رہے۔مگر کسی کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔کیونکہ حکومت کی اہم ترین مخالف تنظیم طالبان نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔مغربی طاقتوں اور افغان حکومت نے اپنا من پسند منصوبہ کامیاب کرنے کے لئے طالبان تحریک کو ایک طرف دھکیل کر طالبان کے نمائندوں کے نام پر کچھ اجنبی چہروں کو سامنے لانے کی کوششیں کی۔لیکن ان چہروں کی پشت پر کوئی مسلح قوت نہ تھی اس لئے یہ امن منصوبے میں مطلوبہ جگہ بنانے میں ناکام رہے۔ مغربی طاقتوں نے آخری حد پر جاکر طالبان تحریک کی قیادت میں ہی پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی اور اُن میں سے ایک دھڑے کو ساتھ ملانے کے منصوبے بنائے۔ مگر دیگر کوششوں کی طرح اس نے بھی ناکامی کا منہ دیکھا۔
قطر میں طالبان کا رابطہ دفتر کھلنے کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب بین الاقوامی برادری آسانی سے اصلی طالبان سے رابطہ کر سکیں گے۔اور یوں قیامِ امن کے حوالے سے طالبان سے جو عدمِ تعاون کی شکایت کی جارہی تھی وہ جاتی رہے گی۔تاہم قطر دفتر کے فعال کردار میں کچھ علاقائی طاقتوں نے روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔اُن سے تعاون کے بجائے مخالفت کی گئی۔قطر دفتر کی مخالفت کے ضمن میں دیگر ممالک کی بہ نسبت پاکستان سے زیادہ شکایتیں کی جاتی تھیں۔چینی حکومت سے طالبان کے روابط قطر دفتر کے توسط سے شروع ہوئے تھے۔تاہم اطلاعات کے مطابق پاکستان بعد میں اِن روابط کو اپنے توسط سے جاری رکھنے پر مُصر تھا۔چنانچہ چین جاتے ہوئے طالبان وفد کے سفر میں مبینہ طور پر مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں۔یہاں تک کہ پاکستان میں مقیم طیب آغا کے دو بھائیوں کو پاکستانی اہلکاروں نے اُٹھا کر قید بھی کرلیا۔عالمی برادری کا خیال تھا کہ پاکستان یہ سب کچھ افغان معاملے کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے کررہا تھا۔اُن حلقوں میں یہ تبصرے ہورہے تھے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثرورسوخ کی بدولت افغان امن کے عمل میں ایک قابلِ لحاظ کردار کا خواہاں ہے۔عالمی برادری کو طالبان پر پاکستانی اثر کایقین تھا۔اور شاید وہ اِسی اثر کی بدولت پاکستان کو امن کے عمل میں ایک مناسب کردار بھی دینے پر رضامند تھی۔چنانچہ افغان صدر اشرف غنی نے انتخابی جھمیلوں ، قومی انتخاب کی حکومت اور دیگر بنیادی اُمور سے فراغت کے بعد امن عمل پر توجہ مرکوز کر دی۔اور اِس ضمن میں پاکستان کو کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔
پاکستان ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی وجہ سے صدمے کی کیفیت میں تھا۔اور حکومت نے ’’قومی ایکشن پلان‘‘ کی رو سے پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے تھے۔توقع یہ کی جارہی تھی کہ پاکستان جس تیزی سے اپنے ہاں دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہا ہے ، اُسی تیزی سے وہ افغان امن کے عمل میں بھی تعاون کرے گا۔تاہم ایسا عملاً نہ ہوسکا۔ پاکستان نے اپنے تئیں طالبان قیادت کو افغان حکومت سے مذاکرات پر رضامند کرنے کی بہتیری کوششیں کی۔ یہاں تک کہ اُنہیں صرف ایک بار مذاکرات میں شریک ہوکر مستقل بائیکاٹ کرنے کی بھی اپیل کی۔مگر طالبان قیادت نے پاکستان کی خواہشات کے برعکس اپنی ترجیحات اور اپنے وقت پر مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ طالبان حکمت کاروں کے نزدیک یہ وقت مذاکرات کے لئے موزوں نہیں تھا، لہذا اُنہوں نے یہ کہہ کر خود کو الگ تھلگ کر لیا کہ مذاکرات کا اختیار قطر دفتر کو دے دیا گیا ہے۔ وہ جس وقت اور جہاں چاہیں مذاکرات کر سکتے ہیں۔چین کے شہر ارومچی اور بعد میں پاکستان کے پر فضامقام مری میں طالبان نمائندوں کے نام پر جو لوگ مذاکرات میں شریک ہوئے، اُن کے بارے میں اب یہ خبریں مل رہی ہیں کہ وہ درحقیقت طالبان کے قائد ملا اختر منصور کی رضامندی کے بغیراور محض پاکستانی اداروں کے دباؤ میں شریک ہوئے تھے۔عالمی حلقوں اور یہاں کابل میں بھی اب یہ تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکام نے بین الاقوامی برادری کے سامنے طالبان پر اثرورسوخ کی کمّیت اور کیفیت کے حوالے سے مبالغہ کیا ہے۔اور اس ضمن میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بیانات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو طالبان پر اپنے اثرورسوخ کے حوالے سے اب اپنی حیثیت کا اندازا ہوچکا ہے اور عالمی برادری بھی پاکستانی اثرورسوخ کے حوالے سے اپنے اندازوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس دوران میں طالبان کے نئے امیر کے انتخاب سے اس تزویراتی کھیل کی نوعیت یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ ملا اختر منصور ایک مقتدر اور خود مختار رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔کابل میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ مری مذاکرات میں شرکت کرنے والے پاکستان کے’’ نمائشی طالبان ‘‘(یہ اصطلاح حکومت کے اہم ادارے کے ایک ذمہ دار نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے استعمال کی)ایک کمزور اور ناراض دھڑے میں شامل ہو کر اپنی رہی سہی حیثیت بھی گنوا چکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی مقتدرہ ، طالبان کے کسی ایک دھڑے پر سودے بازی کے بجائے اُن کے حقیقی مرکز کی طرف رجوع کریں،اُن سے اپنے اختلافات کاخاتمہ کرکے اعتماد میں لیں اور ایک بہتر انداز میں افغان مصالحتی عمل کا حصہ بننے پر راضی کریں۔بلاشبہ یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر خود پاکستان کے طویل المیعاد ریاستی مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ازبس ضروری ہے۔
افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...
اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...
افغان طالبان کی مذہبی پولیس نے دارالحکومت کابل میں پوسٹرز آویزاں کر دیے جس میں افغان خواتین کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ طالبان کی جانب سے خواتین سے متعلق عائد کی گئیں حالیہ متنازع پابندیوں میں سے ایک ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پوسٹر، جس میں ایک چہرے کو برقع سے ڈ...
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی)نے سال 2021 کی کرپٹ ترین شخصیات کی فہرست جاری کردی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیگزینڈر جی لوکاشینکو کو منظم مجرمانہ سرگرمیوں اور بدعنوانی کو آگے بڑھانے پر 2021کا کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار دیا گ...
حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...
پاکستانی نمبر سے موصول ہونے والے ایک ٹیکسٹ میسج اور فون کال سے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب، سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ اہلِ خانہ کے ہمراہ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔امریکی میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان جنگجوئوں کے کابل پر قبضے والے روز، 15 اگست کو تقریبا ایک...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے نے امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون پر الزام عائد کیا وہ افغانستان کی سابق حکومت اور فوج کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے ہنگامی انخلا سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کی جانب سے فراہم کرد...
سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔اشرف غنی حکومت کے افراد کو نئی حکومت میں شامل کیے جانے کا امکان تھا مگر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے سے سب ختم ہو گیا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو میں زل...