... loading ...
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی بنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت کے مطابق علم الادیان اور علم الابدان کے حصول کو لازمی قرار دیا۔ اسی سبب انسان ترقی کی منازل طے کرنے کے باوجود اپنی بقا اور رہنمائی کے لئے ان علوم کا محتاج دکھائی دیتا ہے۔ ان علوم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علوم طبیہ کا موضوع اور ہدف محض انسانی صحت اور بقا نہیں۔ بلکہ اس کی فلاح کا دائرہ کار کرۂ ارض پر موجود حیاتِ انسانی کے ساتھ ساتھ عالمِ حیوانات ، نباتات اور جمادات تک پھیلا ہوا ہے۔
بیماریاں کب اور کیسے پیدا ہوئیں؟ علاج کب اور کیسے شروع ہوا؟ یہ سوال بھی اُتنے ہی قدیم ہیں جتنا کہ خود انسانی وجود۔انسانی شعور کو قطعیت کے ساتھ ان تک ان سوالوں کے جواب نہیں مل سکے۔ فلسفہ اور سائنس اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لانے کے باوجود ابھی تک کسی فیصلہ کن نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔کیونکہ سائنٹیفک کلئے بھی اختلاف کی نذر ہو کر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہردور کے اپنے کچھ عقائد ہوتے ہیں، جو روایات کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ماضی میں انسانی صحت قابلِ رشک ہوتی تھی۔ بیماریاں گنی چنی تھیں معالج سب متحد تھے۔حسد بیڑ اور ایک دوسرے کا مزاق اڑانے کا چلن نہ تھا۔آج زیادہ تر معالج مسابقت کی دوڑ اور دولت کے حصول میں مصروف ہیں۔
فی زمانہ ہر طریقہ ٔعلاج ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں منہمک ہے۔ جبکہ حکیم ، وید اور ڈاکٹر وغیرہ میں سے ہر ایک کا مطمح نظر یہ ہونا چاہئے کہ امراض دور ہوں اور مریض تندرستی حاصل کرے۔اس ترقی یافتہ دور میں آج بھی پس ماندہ بستیوں میں غیر سائنٹیفک طریقہ ٔعلاج رائج ہیں۔بیشتر افراد کسی مستند معالج سے علاج کرانے کے بجائے کسی پیر فقیر کے آستانے پر حاضری دے کر دم دعا کو کافی سمجھتے ہیں۔کچھ تعویذات کے ذریعے شفا حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔اور اپنے مضبوط عقیدے کے باعث اکثر اوقات شفا یاب بھی ہو جاتے ہیں۔آج جتنے بھی طریقہ ٔ علاج رائج ہیں اس کامقصد صرف ایک ہے یعنی مریض صحت سے ہمکنار ہوں۔
پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک میں عوام کی مجموعی صحت بدترین تنزلی کا شکار نظر آتی ہے۔پسماندہ علاقوں میں عوام کو پینے کے لئے صاف پانی تک میسر نہیں۔دوسری طرف سرکاری سطح پر صحتِ عامہ کی بہتری کے لئے کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔سرکاری اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہیں۔یہی سبب ہے کہ عوام عطائیوں کی بھینٹ چڑھ کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔جبکہ نجی سطح پر شعبۂ صحت دولت کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے۔
بیماریاں کیوں اور کیسے پیدا ہوتی ہیں؟اور ان کا ممکنہ اور سستا علاج کس شعبہ ہائے طب میں ہے؟ عوام اس سے بے خبر ہیں۔تماشا تو یہ ہے کہ کوئی بھی معالج اپنے مریض کو یہ تک بتانے کی کوشش نہیں کرتا کہ اس کا مریض کسی بھی مرض میں مبتلا کیوں ہوا؟اور وہ کیا تدابیر اختیار کرے کہ وہ جملہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔
ہمارے ہاں مختلف شعبہ ہائے طب کام کر رہے ہیں۔جس میں حکمت یا طبِ یونانی ایورویدک ، چینی طریقہ علاج اور طبِ انگریزی یا ایلوپیتھک طریقۂ علاج ہیں۔ان میں سب سے مقبول سلسلہ ایلو پیتھک علاج کا ہے۔اور اسے سائنس اور ٹیکنالوجی کا نچوڑ سمجھا جاتا ہے۔اس طب میں خاصی بڑی تعداد میں مفید ادویات بھی موجود ہیں۔اور یہ مہلک جراثیم ختم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے۔لیکن یوں لگتا ہے کہ ابھی اس طریقہ ٔ علاج کی بنیادی تحقیق بھی مکمل نہیں ہو پائی۔کیونکہ اس کی اکثر دوائیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ فائدہ پہنچاتی ہیں اور پھر اچانک نقصان پہنچانے لگتی ہیں۔اور اُسے مارکیٹ سے اُٹھا لیا جاتا ہے۔چناچہ اچھے ایلوپیتھک اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ا مراض نام کی کوئی چیز نہیں۔ان ناموں کے ہم خود خالق ہیں۔جسم ایک مادی فنا ہونے والا لباس ہے اور غیر مادی و غیر فانی صرف قوت ِ حیات ہے۔ چنانچہ اب یہ حضرات بھی ایک’’ حیات آفریں قوت‘‘ (VITAL FORCE)کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ ہومیوپیتھی طریقہ ٔ علاج شروع سے ہی اس کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتا آیا ہے۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی طریقۂ علاج ہیں اور جس طرح اُن کی سرپرستی ہورہی ہے۔اُن میں ہومیو پیتھی طریقہ ٔ علاج ایک بڑے معرکے کا درجہ رکھتا ہے۔جس کی ذرائع ابلاغ کے فروغ کے بغیر روز افزوں مقبولیت اس کے کامیاب نتائج کا ثبوت ہے۔ بلاشبہ اس کی اہمیت اس کی افادیت اور شفایابی کی صلاحیت نے اُجاگر کی ہے۔اس کی بنیاد فطرتِ انسانی کے عوامل پر رکھی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی مرض کا نہیں مریض کا علاج کرتی ہے۔اور اس کی ادویات بھی کسی مرض کے عنوان پر نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں منی بجٹ منظورہوتے ہی ناجائز منافع خوروں نے ایک مرتبہ پھر متعدد ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ملک میں ہونے والی مہنگائی نے پہلے ہی غریب عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے ایسے حالات میں ناجائز منافع خوروں نے متعدد ادویات ایک مرتبہ پھر مہنگی کردیں۔ذرائع کا کہنا ...