وجود

... loading ...

وجود

طریقہ علاج کی بحث

جمعه 29 مئی 2015 طریقہ علاج کی بحث

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی بنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت کے مطابق علم الادیان اور علم الابدان کے حصول کو لازمی قرار دیا۔ اسی سبب انسان ترقی کی منازل طے کرنے کے باوجود اپنی بقا اور رہنمائی کے لئے ان علوم کا محتاج دکھائی دیتا ہے۔ ان علوم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علوم طبیہ کا موضوع اور ہدف محض انسانی صحت اور بقا نہیں۔ بلکہ اس کی فلاح کا دائرہ کار کرۂ ارض پر موجود حیاتِ انسانی کے ساتھ ساتھ عالمِ حیوانات ، نباتات اور جمادات تک پھیلا ہوا ہے۔

بیماریاں کب اور کیسے پیدا ہوئیں؟ علاج کب اور کیسے شروع ہوا؟ یہ سوال بھی اُتنے ہی قدیم ہیں جتنا کہ خود انسانی وجود۔انسانی شعور کو قطعیت کے ساتھ ان تک ان سوالوں کے جواب نہیں مل سکے۔ فلسفہ اور سائنس اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لانے کے باوجود ابھی تک کسی فیصلہ کن نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔کیونکہ سائنٹیفک کلئے بھی اختلاف کی نذر ہو کر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہردور کے اپنے کچھ عقائد ہوتے ہیں، جو روایات کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ماضی میں انسانی صحت قابلِ رشک ہوتی تھی۔ بیماریاں گنی چنی تھیں معالج سب متحد تھے۔حسد بیڑ اور ایک دوسرے کا مزاق اڑانے کا چلن نہ تھا۔آج زیادہ تر معالج مسابقت کی دوڑ اور دولت کے حصول میں مصروف ہیں۔

فی زمانہ ہر طریقہ ٔعلاج ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں منہمک ہے۔ جبکہ حکیم ، وید اور ڈاکٹر وغیرہ میں سے ہر ایک کا مطمح نظر یہ ہونا چاہئے کہ امراض دور ہوں اور مریض تندرستی حاصل کرے۔اس ترقی یافتہ دور میں آج بھی پس ماندہ بستیوں میں غیر سائنٹیفک طریقہ ٔعلاج رائج ہیں۔بیشتر افراد کسی مستند معالج سے علاج کرانے کے بجائے کسی پیر فقیر کے آستانے پر حاضری دے کر دم دعا کو کافی سمجھتے ہیں۔کچھ تعویذات کے ذریعے شفا حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔اور اپنے مضبوط عقیدے کے باعث اکثر اوقات شفا یاب بھی ہو جاتے ہیں۔آج جتنے بھی طریقہ ٔ علاج رائج ہیں اس کامقصد صرف ایک ہے یعنی مریض صحت سے ہمکنار ہوں۔

پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک میں عوام کی مجموعی صحت بدترین تنزلی کا شکار نظر آتی ہے۔پسماندہ علاقوں میں عوام کو پینے کے لئے صاف پانی تک میسر نہیں۔دوسری طرف سرکاری سطح پر صحتِ عامہ کی بہتری کے لئے کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔سرکاری اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہیں۔یہی سبب ہے کہ عوام عطائیوں کی بھینٹ چڑھ کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔جبکہ نجی سطح پر شعبۂ صحت دولت کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے۔

ایلو پیتھی طریقہ ٔ علاج بھی اب یہ تسلیم کرنے لگا ہے کہ جسم ایک مادی فنا ہونے والا لباس ہے اور ایک غیر فانی قوت کی شکل میں انسان کے اندر ایک ’’VITAL FORCE ‘‘ موجود ہے

بیماریاں کیوں اور کیسے پیدا ہوتی ہیں؟اور ان کا ممکنہ اور سستا علاج کس شعبہ ہائے طب میں ہے؟ عوام اس سے بے خبر ہیں۔تماشا تو یہ ہے کہ کوئی بھی معالج اپنے مریض کو یہ تک بتانے کی کوشش نہیں کرتا کہ اس کا مریض کسی بھی مرض میں مبتلا کیوں ہوا؟اور وہ کیا تدابیر اختیار کرے کہ وہ جملہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔

ہمارے ہاں مختلف شعبہ ہائے طب کام کر رہے ہیں۔جس میں حکمت یا طبِ یونانی ایورویدک ، چینی طریقہ علاج اور طبِ انگریزی یا ایلوپیتھک طریقۂ علاج ہیں۔ان میں سب سے مقبول سلسلہ ایلو پیتھک علاج کا ہے۔اور اسے سائنس اور ٹیکنالوجی کا نچوڑ سمجھا جاتا ہے۔اس طب میں خاصی بڑی تعداد میں مفید ادویات بھی موجود ہیں۔اور یہ مہلک جراثیم ختم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے۔لیکن یوں لگتا ہے کہ ابھی اس طریقہ ٔ علاج کی بنیادی تحقیق بھی مکمل نہیں ہو پائی۔کیونکہ اس کی اکثر دوائیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ فائدہ پہنچاتی ہیں اور پھر اچانک نقصان پہنچانے لگتی ہیں۔اور اُسے مارکیٹ سے اُٹھا لیا جاتا ہے۔چناچہ اچھے ایلوپیتھک اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ا مراض نام کی کوئی چیز نہیں۔ان ناموں کے ہم خود خالق ہیں۔جسم ایک مادی فنا ہونے والا لباس ہے اور غیر مادی و غیر فانی صرف قوت ِ حیات ہے۔ چنانچہ اب یہ حضرات بھی ایک’’ حیات آفریں قوت‘‘ (VITAL FORCE)کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ ہومیوپیتھی طریقہ ٔ علاج شروع سے ہی اس کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتا آیا ہے۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی طریقۂ علاج ہیں اور جس طرح اُن کی سرپرستی ہورہی ہے۔اُن میں ہومیو پیتھی طریقہ ٔ علاج ایک بڑے معرکے کا درجہ رکھتا ہے۔جس کی ذرائع ابلاغ کے فروغ کے بغیر روز افزوں مقبولیت اس کے کامیاب نتائج کا ثبوت ہے۔ بلاشبہ اس کی اہمیت اس کی افادیت اور شفایابی کی صلاحیت نے اُجاگر کی ہے۔اس کی بنیاد فطرتِ انسانی کے عوامل پر رکھی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی مرض کا نہیں مریض کا علاج کرتی ہے۔اور اس کی ادویات بھی کسی مرض کے عنوان پر نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں


منی بجٹ 'بلڈ پریشر، کولیسٹرول سمیت متعدد ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ وجود - هفته 15 جنوری 2022

قومی اسمبلی میں منی بجٹ منظورہوتے ہی ناجائز منافع خوروں نے ایک مرتبہ پھر متعدد ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ملک میں ہونے والی مہنگائی نے پہلے ہی غریب عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے ایسے حالات میں ناجائز منافع خوروں نے متعدد ادویات ایک مرتبہ پھر مہنگی کردیں۔ذرائع کا کہنا ...

منی بجٹ 'بلڈ پریشر، کولیسٹرول سمیت متعدد ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر