... loading ...
تحریر: محمد طارق فاروقی
جدید اردو ادب کی تاریخ کے بے مثال شاعر اور بے بدل نقاد سلیم احمد ۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء کو ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبے کھیولی میں پیدا ہوئے۔ اور یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔سلیم احمد نے اپنے آبائی قصبے کھیولی سے ہی میٹرک کیا اور میرٹھ کالج میں داخلہ لیا جہاں اُن کے مراسم پروفیسر کرار حسین ،محمد حسن عسکری، ڈاکٹر جمیل جالبی اور انتظار حسین سے اُستوار ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے۔اُنہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے متعدد ڈرامے تحریر کئے۔اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘لکھی۔ جس پر اُنہیں بہترین کہانی نویس کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔وہ اخبارات کے لئے کالم نگاری بھی کرتے رہے۔مگر سلیم احمد کی شخصیت کا اصلی جوہر اُن کے تنقیدی مضامین اور شاعری میں ہے۔ایک شاعر اور نقاد کے طور پر اُن کی ذہانت اور نکتہ رس طبیعت نے نئے اسالیب ومضامین ڈھونڈے اور اردو زبان وبیان کے افق میں تبدیلیاں پیدا کردیں۔ اُن کی شاعری میں شوکتِ ندرت اور نقد میں زبردست وسعت تھی۔سلیم احمد نے اپنے دور کی ادبی فضا کو تخلیقی اور تنقیدی سطح پر کسی بھی دوسرے ادیب سے زیادہ متاثر کیا۔
سلیم احمد کے شاعری کے مجموعے بیاض، اکائی، چراغ نیم شب اور مشرق کے نام سے چھپے ہیں۔اُن کی شاعری کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کیجئے:
دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں
غنیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
٭٭٭
روز مل کر بھی کم نہیں ہوتا
دل میں وہ فاصلہ ہے برسوں سے
٭٭
خیروشر کی خبروں کو مانتے تو سب ہی ہیں
کس کو ہوش رہتا ہے جبر اور ضرورت میں
دونوں درد دیتی ہیں آہِ سرد دیتی ہیں
فرق کچھ نہیں ایسا نفرت ومحبت میں
٭٭٭
دکھ دے یا رسوائی دے غم کو مرے گہرائی دے
جتنا آنکھ سے کم دیکھوں اتنی دُور دکھائی دے
٭٭٭٭٭
جو سودوزیاں کی فکر کرے
وہ عشق نہیں مزدوری ہے
٭٭
خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
٭٭٭
اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے
اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتاتھا میں
٭٭٭
خود اپنی دید سے اندھی ہیں آنکھیں
خود اپنی گونج سے بہرا ہوا ہوں
مجھے حرفِ غلط سمجھا تھا تو نے
سو میں معنی کا دفتر ہو گیا ہوں
٭٭
اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لئے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
٭٭٭
میری زبان آتشیں لو تھی مرے چراغ کی
میرا چراغ چپ نہ تھا تیز ہوا کے شور میں
سلیم احمد نے سترہ سال کی عمر میں ۱۹۴۴ ء میں شاعری شروع کر دی تھی۔وہ اپنے اچھوتے اور نئے اُسلوب ومضامین کے باعث ہمیشہ موضوعِ بحث رہے۔سلیم احمد کی شاعری دراصل ایک ادبی وسماجی مکالمے کی حیثیت رکھتی ہے۔یہی مکالمہ اُن کے تنقیدی مضامین میں مزید وسعت پاتا ہے۔بلاشبہ اُنہوں نے اپنی تنقید میں جوسوالات اُٹھائے وہ محض فن کی پیشہ ورانہ ضرورتوں کو پورا نہیں کرتے، بلکہ یہ زندگی سے اُبھرتے ہیں۔ اُنہوں نے محمد حسن عسکری کی طرح انسان اور آدمی کے مسئلے کو اپنا موضوع بنایا۔ اور اِسے ایک اور جہت سے آشنا کردیا۔ اُنہوں نے آج کے آدمی کے ادھورے پن کی نشاندہی کی اور پورے آدمی اور کسری آدمی کی بحث کو اپنی تنقید کامرکزی پہلو بنایا۔ سلیم احمد کی کتاب’’ نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ نے پورے برصغیر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔اُن کے تنقیدی مجموعات میں ادبی اقدار ، غالب کون؟، ادھوری جدیدیت،اقبال ایک شاعراور محمد حسن عسکری آدمی یاانسان شامل ہیں۔اردو ادب کی اس کہکشاں کی لوحِ مزار پر اُن کا ہی یہ شعر تحریر ہے:
ایک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہئے روشنی بن جایئے