... loading ...
روایت کے مطابق کسی کتاب پر تبصرے کے لئے کتاب پڑھنا ضروری نہیں ۔مگر ایس ایم ظفر کی کتاب کے لئے یہ ممکن نہیں ۔ اگر چہ کتاب اُن کی کہانی خود اُن کی اپنی زبانی ہے ۔ مگر یہ کہانی کچھ اتنی بھی اُن کی نہیں ۔ یہ پورے ملک کی کہانی ہے۔ یہ اقتدارکی راہداریوں میں ہونے والی ’’شر‘‘گوشیوں کی سماعت ہے۔ یہ ایک ایسے سینیٹر کی کہانی ہے جو ملک کے نہایت ہی نازک ایّام میں مقتدر ایوانوں کے رازداں بنے اور پھر اُن ’’رازونیاز‘‘ کو قومی مسائل حل کرنے کی بنیادی جستجو میں بدلتے رہے ۔کہیں وہ کامیاب ہوئے اور کہیں ناکام۔ مگر کہیں بھی وہ پست حوصلہ نہیں دکھائی دیتے۔ الغرض کتاب کیا ہے؟ حکایتوں کی حقیقت اور حقیقتوں کا سُراغ ہے۔تہ بہ تہ تاریخ میں واقعات کا ایک زنجیری سلسلہ۔کچھ ایک دوسرے سے موافق اور کچھ مختلف ، کچھ چَھپے چَھپے اور کچھ چُھپے چُھپے ،کچھ دیکھے ان دیکھے اور کچھ کہے ان کہے۔
یوں تو ریٹائرڈ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی طرف سے کتابیں لکھنے اور لکھوانے کا رجحان خاصا پُرانا ہے ۔ مگر سیاست دانوں کی طرف سے یہ کوششیں قدرے کم کم اور ذاتی ذوق کا نتیجہ رہی ہیں ۔یہ ایک قومی ذمہ داری کے احساس سے آراستہ ایسا ’’فرض‘‘ تاحال نہیں بن سکا جس میں سیاست دان اپنے عہد کے واقعات کو بے کم و کاست بیان کرنے اور اِسے آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے مہیا کرسکیں ۔اکثر کتابیں محض اس خیال سے لکھی گئیں کہ مصنّفین (خواہ سیا ست دان ہو یا پھر جرنیل اور بیورو کریٹ ) خود کو تاریخ کے بوجھ سے بچاناا ور واقعات کی ذمہ داری سے نجات پاناچاہتے تھے۔یہ کوششیں کم ہی دیکھی گئیں کہ لکھنے والے اپنا آپ بھی واقعات کے آئینے میں پیش کر دیں ۔ ایس ایم ظفر کی کتاب اِسی محدود فہرست میں شمار کئے جانے کے قابل ہے جس میں مصنّف اپنے عہدِ بے جمال کی بدصورتیوں کے ذکر سے پہلو نہیں بچاتا ۔ اور اپنی ناکامیوں اور نارسائیوں کی لیپاپوتی نہیں کرتا۔ایس ایم ظفر کی یہ کتاب اُس تاریخی سلسلے کی لڑی میں پروئی ہوئی ایک کڑی ہے جو سیاست دانوں کی سطح پر تاریخ کا قرض اُتارنے کی کوششوں سے بندھی ہے۔ وہ سیاست دان مصنّفین جنہوں نے اپنے اپنے دور کے واقعات کو کتاب کا موضوع بنایا اُن میں چوہدری خلیق الزماں ، چوہدی محمد علی، شیخ مجیب الرحمان ، ذوالفقار علی بھٹو، اصغر خان، شیر باز مزاری ، پروفیسر غفور احمد، سرتاج عزیز اور گوہر ایوب شامل ہیں ۔ لیکن حالیہ دنوں کے تازہ ترین واقعات جوبے خودجنرل مشرف کے دم بخود عہد ِ خجل میں موضوعِ بحث بنائے گئے اُس میں تازہ کوششیں یوسف رضاگیلانی ،جاوید ہاشمی اور بے نظیر بھٹو کی کتابیں ہیں۔ایس ایم ظفر کی کتاب اِسی ذمرے میں آتی ہے۔
ایس ایم ظفر کی کتاب اُن واقعات کا احاطہ کرتی ہے جن میں سے بیشتر کے بہاؤ میں ہم اپنی قومی اور سیاسی زندگی جی رہے ہیں ۔احتیاط پسند طبعیتیں عام طور پر ان منطقوں میں قدم نہیں رکھتیں کہ اس طرح کے حالات میں خود بے نقاب ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔مگر مصنف نے اِس کو پرِکاہ اہمیت نہیں دی۔ یوں کتاب کے اکثر واقعات کو ’’تاریخ‘‘ سے زیادہ ’’خبریں‘‘ کہا جاسکتا ہے۔جسے بہرحال ’’تاریخ‘‘ کے قالب میں از خود ڈھل جانا ہے۔لیکن اِن واقعاتی تاریخ یا خبروں میں یک نوعی انفرادیت پائی جاتی ہے۔ مصنّف نے کسی موضوع کو محض اپنے ذاتی مشاہدات سے بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جہاں موضوع تاریخی معلومات کا متقاضی ہے وہاں یہ ضرورت پوری کردی ہے۔ یوں صحافت اور سیاست کے طالبعلموں کو ایک ہی موضوع پر تفصیلی پسِ منظر مل جاتا ہے۔مثلاً جب ایس ایم ظفر جنرل مشرف کے ریفرنڈم کاذکر کرتے ہیں تو ملک میں ریفرنڈم کی پوری تاریخ کا بھی سرسری ذکر کردیتے ہیں۔ یوں موضوع سے متعلق اُن کی ذاتی معلومات اور تاریخی حوالے سب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں ۔ایسے موضوعات کی ایک پوری فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔مثلااسٹیبلشمنٹ ، وفاقیت کی بحث،جمہوریت ،بنیادی حقوق،صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان اختیارات کا تنازع،سیاسی ڈرامے،اور اٹھارویں آئینی ترمیم وغیرہ۔یہ پہلو بھی خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ کتاب کے حاشیوں اور متن میں چھوٹے چھوٹے سیا سی واقعات کا ذکر نہایت دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ایس ایم ظفر کی کتاب میں اسٹیبلشمنٹ کے عفریت کاذکر بار بارآتا ہے ۔اُن کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کا تعارف اور اُس کے کردار کے حوالے سے رائے بحث کا دلچسپ موضوع بن سکتی ہے جو نئے زاویوں کو منکشف کرے گی۔خود ایس ایم ظفر اِسے ایک نئی کتاب کا موضوع بنا سکتے ہیں ۔
ایس ایم ظفر اگرچہ مسلم لیگ ق کی طرف سے سینیٹر بنے تھے اور بطور سینیٹر وہ مارچ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۲ تک اپنے فرائض ادا کرتے رہے ۔ یہ کتاب اُن نو برسوں پر محیط تقریباً تمام اہم واقعات کا احاطہ کر تی ہے ۔یہی نو برس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ اُتھل پتھل کا عرصہ ہے ۔اِن ہی برسوں میں پاکستانی اپنے رومانوی تصورات کی دنیا سے باہر آئے ۔ جمہوریت پر اُن کے یقین میں اضافہ ہو ا۔ عسکری اشرافیہ کے کردار سے تنّفر بڑھا۔ غیر سیاسی طبقات کی طرف سے قومی مسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوا۔ علمِ سیاست کی اصطلاح میں فشاری گروہوں کی فعالیت بڑھی ۔ سیاستدانوں اور عسکری اداروں پر تنقید میں تیزی آئی۔عوام نے تاریخ کے تمام بوجھ کو اپنے کاندھوں سے اُتارے کی کوشش کی ۔اور حکومت اور عسکری اداروں پر ایک موثر عدلیہ کی کڑی نگرانی کا خیر مقدم کیا۔ یہ سب کچھ مشرف کے دوعہدو ں کی بحث،عدلیہ پر دست درازی،عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے معاملے میں متوازی لہروں کے آس پاس وقوع پذیر ہورہا تھا۔یہ سارے کام اِس طرح ہورہے تھے کہ عوام اور فعال طبقات نے اپنے طور پر محسوس کیا کہ قوم کے سیاسی شب وروز حکمرانوں کے حوالے کر کے اطمینان کے ساتھ نہیں سویا جاسکتا۔ یہ ایک ہمہ گیر بداعتمادی کے دلدلی دور کی خوف ناک شروعات تھیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام واقعات ایسے ہی ثابت ہوئے جس نے حکمرانوں پر عدم اعتماد کے رویئے کو باجواز ثابت کیا ۔ اِسی تناظر میں کتاب آئی ایس آئی کے کردار کو کس طرح موضوعِ بحث بناتی ہے اِس کی ایک جھلک دیکھئے:
’’ ۲۰۰۲ کے انتخابات کے بعد ۱۲ ِ مارچ ۲۰۰۳ کوآئی ایس آئی نے خفیہ اادارہ ہونے اور پسِ پردہ مداخلت کا بھی بھرم توڑ دیا ۔اور نومنتخب سینیٹرز کو دعوت دے کر یہ اعلان کردیا گیا کہ آنے والے سالوں میں پارلیمان کی کارروائیوں میں اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کی پذیرائی کے لئے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل فعال رہے گا۔‘‘
ایس ایم ظفر نے اس الزام کو بھی کہیں رد نہیں کیا کہ مسلم لیگ ق کی تشکیل یا اُس کی صفوں میں اضافہ بھی اِسی آئی ایس آئی کی بدولت تھا ۔ اِسی طرح سترہویں آئینی ترمیم اور ایل ایف اوسے نجات کے لئے ایس ایم ظفر کی کوششوں کادرست اندازا بھی کتاب پڑھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔جس میں جنرل مشرف کے وردی اُتارنے کی وعدہ خلافی کی تفصیلات بھی شامل ہے ۔ ایس ایم ظفر نے اُس کے بعد ہر موقع پر مشرف کو اپنی ملاقاتوں میں وردی اُتارنے پر اصرار جاری رکھا ۔جس کی تفصیلات پڑھ کر خوشگوار حیر ت ہوتی ہے۔ کتاب کے دو اور ابواب خاص طور پر نشاندہی کئے جانے کے قابل ہے۔ایک قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی اور ایک قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق ہے۔نومسلم ایون (مریم) ریڈلے کے بگرام جیل میں قیدی نمبر ۶۵۰ کے ایک پاکستانی خاتون ہونے کے انکشاف کے بعد ایس ایم ظفر نے کس طرح ذاتی دلچسپی لی اور بآلاخر وہ امریکا جاکر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرنے میں کا میاب ہوئے ۔ اُس کی تفصیلات بے حد ولولہ انگیز ہے۔اِسی طرح عبدالقدیر خان میں جنرل مشرف اور اُن کی ٹیم کس غلط طریقے سے بروئے کا ر آئی اور مشرف کس طرح بیرونی دباؤ کے آگے ڈھ پڑے ۔ یہاں تک کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق بھی اِس پورے کھیل کا شرم ناک حصہ بنے رہے ،اور بآلاخر ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ قوم کے سامنے ٹیلی ویژن پر آکر معافی مانگیں۔ ایس ایم ظفر کے نزدیک یہ مسئلے کا حل نہیں تھا ۔ اور اُنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اِس سے منع کر دیا تھا ۔ ایس ایم ظفر کے اس کردارپر جنرل مشرف خاصے ناراض ہوئے اور اُنہوں نے ایک سخت فون بھی اُنہیں کیا ۔ ساتھ ہی چوہدری شجاعت کے ساتھ اُن کی ڈاکٹر قدیر خان سے ملاقات کو روک دیا گیا ۔ اور پھر اُنہیں ٹیلی ویژن کے ذریعے ایک رسواکن منظر کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ تمام تکلیف دہ تفصیلات بھی کتاب کا حصہ ہیں ۔ کتاب میں مشرف کے استعفیٰ کی داستان اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے ابواب بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔ یہ کتاب سیاست اور صحافت کے طلباء کے لئے یکساں طور پر ایک حوالے کی کتاب بن سکتی ہے۔
ایس ایم ظفر کی حالیہ واقعات پر تاریخی حوالوں سے مزّین ۸۵۵ صفحات پر محیط یہ کتاب صرف ذاتی مطالعے پر ہی نہیں بلکہ قومی جائزے پر بھی اُکساتی ہے۔ اتنی عمدہ کتاب میں پروف کی غلطیاں درست کرنے اور اکثر جگہوں پر ازسرنو گراف بندی (paragraphing) کی ضرورت ہے ۔تاکہ اتنی معلومات افزا کتاب کا پُر لطف مطالعہ ناہموار نہ ہو۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...