وجود

... loading ...

وجود

ظفر یاب

جمعرات 20 اگست 2015 ظفر یاب

روایت کے مطابق کسی کتاب پر تبصرے کے لئے کتاب پڑھنا ضروری نہیں ۔مگر ایس ایم ظفر کی کتاب کے لئے یہ ممکن نہیں ۔ اگر چہ کتاب اُن کی کہانی خود اُن کی اپنی زبانی ہے ۔ مگر یہ کہانی کچھ اتنی بھی اُن کی نہیں ۔ یہ پورے ملک کی کہانی ہے۔ یہ اقتدارکی راہداریوں میں ہونے والی ’’شر‘‘گوشیوں کی سماعت ہے۔ یہ ایک ایسے سینیٹر کی کہانی ہے جو ملک کے نہایت ہی نازک ایّام میں مقتدر ایوانوں کے رازداں بنے اور پھر اُن ’’رازونیاز‘‘ کو قومی مسائل حل کرنے کی بنیادی جستجو میں بدلتے رہے ۔کہیں وہ کامیاب ہوئے اور کہیں ناکام۔ مگر کہیں بھی وہ پست حوصلہ نہیں دکھائی دیتے۔ الغرض کتاب کیا ہے؟ حکایتوں کی حقیقت اور حقیقتوں کا سُراغ ہے۔تہ بہ تہ تاریخ میں واقعات کا ایک زنجیری سلسلہ۔کچھ ایک دوسرے سے موافق اور کچھ مختلف ، کچھ چَھپے چَھپے اور کچھ چُھپے چُھپے ،کچھ دیکھے ان دیکھے اور کچھ کہے ان کہے۔

یوں تو ریٹائرڈ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی طرف سے کتابیں لکھنے اور لکھوانے کا رجحان خاصا پُرانا ہے ۔ مگر سیاست دانوں کی طرف سے یہ کوششیں قدرے کم کم اور ذاتی ذوق کا نتیجہ رہی ہیں ۔یہ ایک قومی ذمہ داری کے احساس سے آراستہ ایسا ’’فرض‘‘ تاحال نہیں بن سکا جس میں سیاست دان اپنے عہد کے واقعات کو بے کم و کاست بیان کرنے اور اِسے آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے مہیا کرسکیں ۔اکثر کتابیں محض اس خیال سے لکھی گئیں کہ مصنّفین (خواہ سیا ست دان ہو یا پھر جرنیل اور بیورو کریٹ ) خود کو تاریخ کے بوجھ سے بچاناا ور واقعات کی ذمہ داری سے نجات پاناچاہتے تھے۔یہ کوششیں کم ہی دیکھی گئیں کہ لکھنے والے اپنا آپ بھی واقعات کے آئینے میں پیش کر دیں ۔ ایس ایم ظفر کی کتاب اِسی محدود فہرست میں شمار کئے جانے کے قابل ہے جس میں مصنّف اپنے عہدِ بے جمال کی بدصورتیوں کے ذکر سے پہلو نہیں بچاتا ۔ اور اپنی ناکامیوں اور نارسائیوں کی لیپاپوتی نہیں کرتا۔ایس ایم ظفر کی یہ کتاب اُس تاریخی سلسلے کی لڑی میں پروئی ہوئی ایک کڑی ہے جو سیاست دانوں کی سطح پر تاریخ کا قرض اُتارنے کی کوششوں سے بندھی ہے۔ وہ سیاست دان مصنّفین جنہوں نے اپنے اپنے دور کے واقعات کو کتاب کا موضوع بنایا اُن میں چوہدری خلیق الزماں ، چوہدی محمد علی، شیخ مجیب الرحمان ، ذوالفقار علی بھٹو، اصغر خان، شیر باز مزاری ، پروفیسر غفور احمد، سرتاج عزیز اور گوہر ایوب شامل ہیں ۔ لیکن حالیہ دنوں کے تازہ ترین واقعات جوبے خودجنرل مشرف کے دم بخود عہد ِ خجل میں موضوعِ بحث بنائے گئے اُس میں تازہ کوششیں یوسف رضاگیلانی ،جاوید ہاشمی اور بے نظیر بھٹو کی کتابیں ہیں۔ایس ایم ظفر کی کتاب اِسی ذمرے میں آتی ہے۔

ایس ایم ظفر کی کتاب اُن واقعات کا احاطہ کرتی ہے جن میں سے بیشتر کے بہاؤ میں ہم اپنی قومی اور سیاسی زندگی جی رہے ہیں ۔احتیاط پسند طبعیتیں عام طور پر ان منطقوں میں قدم نہیں رکھتیں کہ اس طرح کے حالات میں خود بے نقاب ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔مگر مصنف نے اِس کو پرِکاہ اہمیت نہیں دی۔ یوں کتاب کے اکثر واقعات کو ’’تاریخ‘‘ سے زیادہ ’’خبریں‘‘ کہا جاسکتا ہے۔جسے بہرحال ’’تاریخ‘‘ کے قالب میں از خود ڈھل جانا ہے۔لیکن اِن واقعاتی تاریخ یا خبروں میں یک نوعی انفرادیت پائی جاتی ہے۔ مصنّف نے کسی موضوع کو محض اپنے ذاتی مشاہدات سے بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جہاں موضوع تاریخی معلومات کا متقاضی ہے وہاں یہ ضرورت پوری کردی ہے۔ یوں صحافت اور سیاست کے طالبعلموں کو ایک ہی موضوع پر تفصیلی پسِ منظر مل جاتا ہے۔مثلاً جب ایس ایم ظفر جنرل مشرف کے ریفرنڈم کاذکر کرتے ہیں تو ملک میں ریفرنڈم کی پوری تاریخ کا بھی سرسری ذکر کردیتے ہیں۔ یوں موضوع سے متعلق اُن کی ذاتی معلومات اور تاریخی حوالے سب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں ۔ایسے موضوعات کی ایک پوری فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔مثلااسٹیبلشمنٹ ، وفاقیت کی بحث،جمہوریت ،بنیادی حقوق،صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان اختیارات کا تنازع،سیاسی ڈرامے،اور اٹھارویں آئینی ترمیم وغیرہ۔یہ پہلو بھی خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ کتاب کے حاشیوں اور متن میں چھوٹے چھوٹے سیا سی واقعات کا ذکر نہایت دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ایس ایم ظفر کی کتاب میں اسٹیبلشمنٹ کے عفریت کاذکر بار بارآتا ہے ۔اُن کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کا تعارف اور اُس کے کردار کے حوالے سے رائے بحث کا دلچسپ موضوع بن سکتی ہے جو نئے زاویوں کو منکشف کرے گی۔خود ایس ایم ظفر اِسے ایک نئی کتاب کا موضوع بنا سکتے ہیں ۔

ایس ایم ظفر اگرچہ مسلم لیگ ق کی طرف سے سینیٹر بنے تھے اور بطور سینیٹر وہ مارچ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۲ تک اپنے فرائض ادا کرتے رہے ۔ یہ کتاب اُن نو برسوں پر محیط تقریباً تمام اہم واقعات کا احاطہ کر تی ہے ۔یہی نو برس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ اُتھل پتھل کا عرصہ ہے ۔اِن ہی برسوں میں پاکستانی اپنے رومانوی تصورات کی دنیا سے باہر آئے ۔ جمہوریت پر اُن کے یقین میں اضافہ ہو ا۔ عسکری اشرافیہ کے کردار سے تنّفر بڑھا۔ غیر سیاسی طبقات کی طرف سے قومی مسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوا۔ علمِ سیاست کی اصطلاح میں فشاری گروہوں کی فعالیت بڑھی ۔ سیاستدانوں اور عسکری اداروں پر تنقید میں تیزی آئی۔عوام نے تاریخ کے تمام بوجھ کو اپنے کاندھوں سے اُتارے کی کوشش کی ۔اور حکومت اور عسکری اداروں پر ایک موثر عدلیہ کی کڑی نگرانی کا خیر مقدم کیا۔ یہ سب کچھ مشرف کے دوعہدو ں کی بحث،عدلیہ پر دست درازی،عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے معاملے میں متوازی لہروں کے آس پاس وقوع پذیر ہورہا تھا۔یہ سارے کام اِس طرح ہورہے تھے کہ عوام اور فعال طبقات نے اپنے طور پر محسوس کیا کہ قوم کے سیاسی شب وروز حکمرانوں کے حوالے کر کے اطمینان کے ساتھ نہیں سویا جاسکتا۔ یہ ایک ہمہ گیر بداعتمادی کے دلدلی دور کی خوف ناک شروعات تھیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام واقعات ایسے ہی ثابت ہوئے جس نے حکمرانوں پر عدم اعتماد کے رویئے کو باجواز ثابت کیا ۔ اِسی تناظر میں کتاب آئی ایس آئی کے کردار کو کس طرح موضوعِ بحث بناتی ہے اِس کی ایک جھلک دیکھئے:

’’ ۲۰۰۲ کے انتخابات کے بعد ۱۲ ِ مارچ ۲۰۰۳ کوآئی ایس آئی نے خفیہ اادارہ ہونے اور پسِ پردہ مداخلت کا بھی بھرم توڑ دیا ۔اور نومنتخب سینیٹرز کو دعوت دے کر یہ اعلان کردیا گیا کہ آنے والے سالوں میں پارلیمان کی کارروائیوں میں اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کی پذیرائی کے لئے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل فعال رہے گا۔‘‘

ایس ایم ظفر نے اس الزام کو بھی کہیں رد نہیں کیا کہ مسلم لیگ ق کی تشکیل یا اُس کی صفوں میں اضافہ بھی اِسی آئی ایس آئی کی بدولت تھا ۔ اِسی طرح سترہویں آئینی ترمیم اور ایل ایف اوسے نجات کے لئے ایس ایم ظفر کی کوششوں کادرست اندازا بھی کتاب پڑھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔جس میں جنرل مشرف کے وردی اُتارنے کی وعدہ خلافی کی تفصیلات بھی شامل ہے ۔ ایس ایم ظفر نے اُس کے بعد ہر موقع پر مشرف کو اپنی ملاقاتوں میں وردی اُتارنے پر اصرار جاری رکھا ۔جس کی تفصیلات پڑھ کر خوشگوار حیر ت ہوتی ہے۔ کتاب کے دو اور ابواب خاص طور پر نشاندہی کئے جانے کے قابل ہے۔ایک قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی اور ایک قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق ہے۔نومسلم ایون (مریم) ریڈلے کے بگرام جیل میں قیدی نمبر ۶۵۰ کے ایک پاکستانی خاتون ہونے کے انکشاف کے بعد ایس ایم ظفر نے کس طرح ذاتی دلچسپی لی اور بآلاخر وہ امریکا جاکر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرنے میں کا میاب ہوئے ۔ اُس کی تفصیلات بے حد ولولہ انگیز ہے۔اِسی طرح عبدالقدیر خان میں جنرل مشرف اور اُن کی ٹیم کس غلط طریقے سے بروئے کا ر آئی اور مشرف کس طرح بیرونی دباؤ کے آگے ڈھ پڑے ۔ یہاں تک کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق بھی اِس پورے کھیل کا شرم ناک حصہ بنے رہے ،اور بآلاخر ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ قوم کے سامنے ٹیلی ویژن پر آکر معافی مانگیں۔ ایس ایم ظفر کے نزدیک یہ مسئلے کا حل نہیں تھا ۔ اور اُنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اِس سے منع کر دیا تھا ۔ ایس ایم ظفر کے اس کردارپر جنرل مشرف خاصے ناراض ہوئے اور اُنہوں نے ایک سخت فون بھی اُنہیں کیا ۔ ساتھ ہی چوہدری شجاعت کے ساتھ اُن کی ڈاکٹر قدیر خان سے ملاقات کو روک دیا گیا ۔ اور پھر اُنہیں ٹیلی ویژن کے ذریعے ایک رسواکن منظر کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ تمام تکلیف دہ تفصیلات بھی کتاب کا حصہ ہیں ۔ کتاب میں مشرف کے استعفیٰ کی داستان اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے ابواب بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔ یہ کتاب سیاست اور صحافت کے طلباء کے لئے یکساں طور پر ایک حوالے کی کتاب بن سکتی ہے۔

ایس ایم ظفر کی حالیہ واقعات پر تاریخی حوالوں سے مزّین ۸۵۵ صفحات پر محیط یہ کتاب صرف ذاتی مطالعے پر ہی نہیں بلکہ قومی جائزے پر بھی اُکساتی ہے۔ اتنی عمدہ کتاب میں پروف کی غلطیاں درست کرنے اور اکثر جگہوں پر ازسرنو گراف بندی (paragraphing) کی ضرورت ہے ۔تاکہ اتنی معلومات افزا کتاب کا پُر لطف مطالعہ ناہموار نہ ہو۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر