... loading ...
یولن میں کتے کے گوشت کے میلے نے دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا کیا، عالمی ذرائع ابلاغ میں اس کی نمایاں خبریں لگیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب مثبت خبریں نہیں تھیں۔ اگر آپ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کتے کے گوشت کا میلہ کوئی بہت ہی انہونی چیز ہے، یا یہ کوئی غیر انسانی فعل ہے تو آپ کو چین کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔ چین کے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق پڑھیں، جو حیران کن بھی ہیں اور کراہیت آمیز بھی، اور ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے سامنے یولن کے سالانہ میلے کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ ویسے اس میلے پر اب پابندی لگادی گئی ہے۔
چین کے روایتی کھانے کے کانٹے بنانے کی سالانہ 80 ارب جوڑیوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ملک میں ہر سال 20 ملین درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اگر یہ چینی کانٹے، جنہیں چاپ اسٹکس کہا جاتا ہے، دنیا کے سب سے بڑے عوامی چوراہے بیجنگ کے تیان من اسکوائر پر بچھا دیے جائیں تو یہ اسے 360 مرتبہ ڈھانپ سکتے ہیں! شاید یہی وہ ہے کہ چین میں جنگلات کل رقبے کا محض 20.36 فیصد بچے ہیں، جو اہم ممالک میں کم ترین شرح میں سے ایک ہے (ذریعہ)۔
اگر آپ امیر ہیں، تو آپ جو چاہے خرید سکتے ہیں لیکن چین میں امیر ہونے کے اور بھی کئی فائدے ہیں جن میں سے قید کی سزا سے بچ جانا تک شامل ہے۔ ملک کے امیر اور بااثر افراد کسی جرم کی سزائے قید کاٹنے کے لیے اپنے “ہم شکل” افراد کو حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ فعل اتنا عام ہے کہ چین میں ایک کہاوت ہے، ڈنگ چوئی، یعنی “متبادل مجرم”۔ (ذریعہ)
یہ معاملہ کچھ یولن کے کتا گوشت میلے جیسا ہی لگتا ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں شکار بلّیاں ہیں۔ روزانہ 10 ہزار سے زائد بلیاں صرف گوانگ ڈونگ صوبے میں انسانی خوراک بن جاتی ہیں۔ یہ بات جانوروں کے حقوق کے علمبرداروں کے غضب کو بڑھکانے کے لیے کافی ہے اور وہ اس پر کافی مظاہرے بھی کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ بلیوں کو انتہائی ناقص و غلیظ ماحول میں رکھنا اور پھر کھال اتار کر زندہ پکانا ہے۔ (ذریعہ)
چینی اپنے پالتو جانوروں کے بال بھی رنگواتے ہیں تاکہ وہ انہیں دیگر جانوروں جیسا بنا سکیں: مثال کے طور پر یہ گولڈن ریٹریور کتا، جسے نارنجی اور سیاہ رنگ دے کر شیر سے مماثلت دی گئی ہے۔ پھر ایسے کتے بھی ہیں جن کے بال رنگوا کر انہیں پانڈا جیسا بنایا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ کہ یہ نفیس اور مہنگا کام ہی چین میں پالتو جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافے کا سبب ہو؟ جو 1999ء سے 2008ء کے درمیان تقریباً 500 فیصد بڑھ گئے ہیں۔
چین میں ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ فلم وال-ای جیسے روبوٹ رکھنے والے ریستوراں بھی ہیں۔ ان میں سے آنہوئی صوبے میں واقع ہیں جہاں 30 وال-ای روبوٹس گاہکوں سے آرڈر لینے، کھانے پکانے اور پھر اُن کی فراہمی کے کام سرانجام دیتے ہیں۔
لگ بھگ 10 ہزار ڈالرز مالیت کے یہ روبوٹ صارفین کا خیرمقدم بھی کرتے ہیں اور انہیں میزوں تک کھانا بھی پہنچاتے ہیں۔ ساتھ ہی ریستوراں میں پکانے کا کام بھی انہی کے ذمے ہیں۔ لیکن یہ ایک غیر مجاز ریستوراں ہے۔ ایسے ہی عملے رکھنے والے چین میں متعدد دیگر ریستوراں بھی ہیں جو چینی باشندوں میں خاصے مقبول ہیں۔ (ذریعہ)
چین میں دودھ کی مصنوعات کو ہمیشہ خانہ بدوشوں سے جوڑا جاتا ہے، جو چین کے نواح و مضافات میں رہتے تھے اور ماضی میں انہیں وحشی تصور کیا جاتا تھا۔ کئی چینی افراد تو محض اس لیے دودھ کی مصنوعات سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہیں کیونکہ یہ ان خانہ بدوشوں کی خوراک تھی۔ البتہ گزشتہ چند سالوں میں ان کی کھپت میں اضافہ ہوا، لیکن پنیر اب بھی چین کے دسترخوانوں پر نظر نہیں آتا، شاید اس کی بو کی وجہ سے۔ (ذریعہ)
سرد جنگ کے زمانے سے چین خیرسگالی کے طور پر دیگر ممالک کو پانڈوں کے تحفے دیتا آ رہا ہے اور یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔نومولود پانڈا معاہدے کے تحت واپس چین بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ افزائش نسل کرسکے۔ یہ ننھے پانڈے معروف کوریئر کمپنی فیڈایکس کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔ (ذریعہ)
چین میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد غاروں میں رہتی ہے، جن میں سے بیشتر شان سی صوبے میں ہیں۔ یہ غار چینی زبان میں یاؤڈنگ کہلاتے ہیں اور ان میں سے بیشتر پہاڑوں کے پہلوؤں میں ایک طویل محراب دار کمرے کی صورت میں قائم ہیں جن کا داخلہ نیم بیضوی شکل کا ہے۔ ویسے سننے میں غار میں رہنا کوئی بڑی وحشیانہ اور قدیم چیز لگتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کئی غار بہت شاہانہ قسم کی زندگی رکھتے ہیں۔ (ذریعہ)
چین میں عیسائیوں کا ایک ایسا مسلک اب بھی مانتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب بھی زندہ ہیں اور چین میں ایک چینی عورت کے روپ میں جی رہے ہیں۔ “کلیسائے قادرِ مطلق” نامی یہ مسلک تبلیغ کرتا ہے کہ “دوسرا مسیح” ایک عورت ہے جو خود کو ” قادرِ مطلق” کہتی ہے۔ یہ گروہ سخت ناپسند کیا جاتا ہے اور بسا اوقات تو اسے ایک دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا گیا ہے۔ (ذریعہ)
20 سال کے قریب کی عمر تک پہنچنے کے باوجود غیر شادی شدہ رہنے والے عورتوں کو چین میں شینگ نو کہتے ہیں یعنی بچی کچھی عورتیں۔ یہ اصطلاح گو کہ چین میں پیدا ہوئی اور اب بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے لیکن اب ایشیا کے دیگر ممالک اور شمالی امریکہ میں بھی اس عمر تک غیر شادی شدہ رہنے والے عورتوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ (ذریعہ)
ذرا یہ تصویر غور سے دیکھیں، اس فوجی کے کالروں کے اوپر دو سوئیاں نظر آ رہی ہیں؟ یہ چینی افواج کے ایک زیر تربیت سپاہی ہیں اور یہ سوئیاں اس لیے لگائی گئی ہیں تاکہ ان کی ٹھوڑی سیدھی رہے۔ ویسے یہ سوئیاں سپاہی کو تھکاوٹ کی وجہ سے سونے سے بھی روکتی ہیں۔ عوامی پیراملٹری پولیس کے افسران بہت سخت تربیت رکھتے ہیں اور اس کو یقینی بنانے کے لیے ان کی وضع قطع سخت اور بہترین ہوتی ہے۔ ان کے کالروں میں سوئیاں لگی ہوتی ہیں اور پشت پر صلیبیں۔ (ذریعہ)
تاریخ کا طویل ترین ٹریفک جام چین میں رہا ہے جو 12 دن تک جاری رہا۔ بیجنگ کے مضافات میں پھیلے ہوئے اس ٹریفک جام کی طوالت 62 میل تھی۔ ٹریفک جام کے دوران گاڑیاں پورے دن بھر میں ایک میل سے کم فاصلہ طے کر پائیں، یہاں تک ڈرائیوروں کو وقت گزاری کے لیے تاش کھیلتے اور سڑک پر سوتے بھی دیکھا گیا۔ (ذریعہ)
“گٹر تیل” ایک عام اصطلاح ہے، جو پکانے کے اس تیل کے لیے استعمال ہوتی ہے جو مذبح خانوں اور چکنائی کھینچنے والے خاص آلات کے ذریعے گندے پانے کو ری سائیکل کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ متعدد چینی ادارے اور ریستوراں اپنے کھانے ایسے تیل میں پکاتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ چند ادارے تو بطخ کے گوشت کو بکری یا بھیڑ کے پیشاب میں ڈبو کر رکھتے تاکہ اس میں مخصوص خوشبو یا ذائقہ دے سکیں۔ (ذریعہ)
چین کے دارالحکومت بیجنگ کی فضاء اتنی آلودہ اور زہریلی ہوچکی ہے کہ دنیا کے کسی اور حصے میں پے در پے تمباکو نوشی کرنے والا بھی سانس کے امراض کے خطرے کی زد میں اتنا نہیں جتنا کہ بیجنگ کے باشندے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر وقت چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں آلودگی کا یہ عالم ہے کہ یہ فضائی آلودگی خلاء سے بھی نظر آتی ہے، اور دیوارِ چین نہیں آتی۔ (ذریعہ)
ہر موسمِ بہار میں ڈونگ یانگ میں ایسے انڈے بطور خاص فروخت کیے جاتے ہیں جو لڑکوں کے پیشاب میں ابلے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں “کنوارے لڑکوں کے انڈے” کہا جاتا ہے اور ایک خاص سوغات تصور کیا جاتا ہے جس کا شہروں میں خوب لطف اٹھایا جاتا ہے۔ یہ تک کہتے ہیں کہ اس کا صحت پر بہت مثبت اثر پڑتا ہے، جیسا کہ خون کی صفائی اور توانائی میں اضافہ۔ ان کی کشش میں مزید اضافہ یہ کہہ کر کیا جاتا ہے “ذائقہ بہار جیسا”! (ذریعہ)
بھارت کی ایک 72 سالہ خاتون نے زندگی میں پہلی بار ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ دلجندر کور نامی خاتون نے دو سال تک آئی وی ایف علاج کروایا اور اپریل میں ایک لڑکے کو جنم دیا۔ ان کے شوہر کی عمر 79 سال ہے جبکہ ان کی شادی کو 46 سال گزر چکے ہیں۔ یوں دلجندر ماں بننے والی دنیا کی طویل العمر ترین...