... loading ...
نہایت نرم اور انتہائی شگفتہ آواز کی منفرد و معروف شاعرہ اداجعفری 22؍ اگست 1924 کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔اور اکیانوے برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 12؍ مارچ 2015 کو انتقال کر گئیں۔ وہ محض تین برس کی تھیں جب اُن کے والد بدرالحسن انتقال کر گئے۔ چنانچہ اُن کی مکمل پرورش اپنے ننھیال میں ہوئی جہاں صرف تیرہ برس کی عمر میں اُنہوں نے شعر کہنے شروع کر دیئے تھے۔خاندانی نام عزیز جہاں تھا مگر اپنے تخلص’’ ادا ‘‘کی مناسبت سے ابتدا میں ادا بدایونی کے نام سے شعر کہے ۔ مگر نور الحسن جعفری سے 1947 میں شادی کے بعد اداجعفری کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔ اُن کے ایک شعری مجموعے ’’شہردرد ‘‘ کو 1968 میں آدم جی ایوارڈ ملا۔دیگر شعری مجموعوں میں ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی، سازِ سخن بہانہ ہے ، غزالاں تم تو واقف ہو، حرفِ شناسائی، موسم موسم اورغزل نما‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کے نام سے اپنی خودنوشت سوانح عمری 1995 میں تحریر کی۔اُنہیں اکادی ادبیات کی جانب سے ’’کمال فن ‘‘کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ادا جعفری کو حکومت پاکستان کی جانب سے 1991 میں اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ امتیاز بھی دیا گیا۔
پاکستانی شاعرات میں اداجعفری سب سے بڑی شاعرہ تھیں۔وہ شاعری میں جدید ادب کی نمائندہ آواز تھیں۔ ترقی پسند تحریک نے جدید ادب میں جن تقاضوں کا شمار کیا ہے اس کا پوری طرح اظہار ادا جعفری کے کلام میں نمایاں ہوا۔ مگر متوازی طور پر اُن کے کلام میں ایک تہذیبی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ زیادہ بہتر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید ادب کے تقاضوں نے جن خواتین کو اپنی طرف متوجہ کیا ، ادا جعفری اُن میں سب سے نمایاں تھیں۔ادا جعفری کی منظر نگاری اور نغمگی خاصی من بھاتی ہے۔ مثلاً:
دل کے تقاضے اُن کے اشارے
بوجھل بوجھل ہلکے ہلکے
ان کا تغافل ان کی توجہ
اک دل اس پر لاکھ تہلکے
ان کی تمنا ان کی محبت
دیکھو سنبھل کے دیکھو سنبھل کے
پل میں ہنساؤ پل میں رلاؤ
پل میں اجالے پل میں دھندلکے
کتنے الجھے کتنے سیدھے
رستے ان کے رنگ محل کے
ماہرینِ فن نے ادا جعفری کے کلام میں علامہ اقبال ، جگر اور فانی کے اثرات کی بطورِ خاص نشاندہی کی ہے۔ یہاں اقبال کے اثر کی ایک مثال صرف ایک شعر سے واضح کی جاتی ہے کہ
کم یاب ہیں لیکن وہ جہاں سوز نگاہیں
بڑھ کر جو کمند انجم وخورشید پہ ڈالیں
عصری شعور اور فنی نزاکتوں سے ہم آہنگ ادا جعفری کے یہاں کچھ اشعار دیکھیں جنہیں بہت پزیرائی ملی
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔
کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ
سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے
رونق کوچہ وبازار سے آگے نہ بڑھو
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِالزام ہی آئے