... loading ...
ہمارا گردوپیش ہمارے اندر سے پہلے بدلتا ہے۔ اگر انسان نہ بدلے جائیں تو بدلی ہوئی باہر کی ہر چیز بیکا رہے۔ اصل ترقی انسان کی ہوتی ہے، اشیاء کی نہیں۔ ہمارے جدید ذہن نے اشیاء کی ترقی کو انسانی ترقی کے ہم معنی بنا دیا ہے۔ چنانچہ وہ باہر کی بدلی ہوئی چیزوں کو انسانوں پر لعنت ملامت کے لئے ایک حجت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر اصل میں وہ دھوکا دیتے ہیں۔ یہی کچھ حکمران اشرافیہ کا معاملہ بھی ہے۔ وہ انسانی سماج کو درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر چند ترقیاتی کاموں کو اپنے وجود کا جواز بنا لیتے ہیں۔ یہ رویہ آشکار کرتا ہے کہ حکمران اشرافیہ یاتو اپنی اصل ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں یاپھر اپنی اصل ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی اہل نہیں اور وہ چند ترقیاتی کاموں کے پیچھے اپنا مکروہ کردار چھپا لینے میں کامیاب ہے۔
معاشرے کے ایسے ہی “مصنوعی” تصورات نے ہمیں ایک “حقیقی” بحران سے دوچار کردیا ہے اور وہ حقیقی تصورات سے عدم آگہی ہے۔ جس کے باعث ہم کسی بھی مسئلے سے تعلق کی کوئی حقیقی نسبت قائم ہی نہیں کرپاتے۔یہاں تک کہ ترقی کے جدید اوزار سمجھی جانی والی اشیاء سے اپنے فیض پانے والے تعلق کی درست نسبت بھی قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسئلوں سے اپنے تعلق کو بھی نہیں سمجھتے۔ یعنی ہم چیزوں سے اپنی منفعت و ضرر کی نوعیت کا بھی ادراک نہیں کر پاتے۔ اس بنیادی مسئلے سے عدم آگہی نے ہمارے تنقیدی شعور کو بھی بہت سطحی رکھا ہے۔ چنانچہ ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم بہت قابلِ تنقید معاملات کی بھی تنقید میں اُس پست سطح پر ہوتے ہیں جس سے اکثر قابلِ تنقید معاملات کے ساتھ اُلٹا ہمدردی کا تعلق پیدا ہونے لگتا ہے۔ اُس معاشرے میں یہ بحران زیادہ سنگین شکل اختیار کر جاتا ہے جہاں ہر معاملے کا ایک گروہی تناظر ہو۔ جہاں عمومی مسائل کوبھی گروہ میں بانٹ کر دیکھا جاتا ہو۔ جہاں قتل وغارت گری کا بھی ایک متعصبانہ نقطۂ نگاہ ہو۔ جہاں اخلاقی مسائل کو بھی دیکھنے کی ایک جتھابند نفسیات ہو۔ایسے معاشرے تاثر اور تاثیر دونوں ہی سطح پر پست ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس کی ایک مردہ مثال ہے۔
مصنوعی تصورات اور گروہی نفسیات نے ہر مسئلے کے صحیح وغلط کے درست تناظر کو پہلے ہی اپنی اصل حالت میں نہیں رکھا مگر اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی ہمیں درپیش ہے۔ یہاں پر دہائیوں سے ہر چیز کو دیکھنے کا تناظر سیاسی بن گیا ہے۔ اس نے پہلے دو مسئلوں کے ساتھ مل کر معاشرے کے تمام اقداری اخلاقی اور تہذیبی دروبست کو اجتماعی سطح پر ہِلا کر رکھ دیا ہے۔ معاشرے کی ہر چیز کے سیاست کی تحویل میں چلے جانے کا نقصان یہ ہوا کہ سیاسی شعور اطلاعات کی تحویل میں رہنے لگا اور اطلاعات کا انحصار اخبارات اور ذرائع ابلاغ پر ہوتا ہے۔ یہ ناقص ، جانبدار اورسرمایہ پرستی کے شکار ذرائع ہوتے ہیں۔ جنہیں کسی نہ کسی سطح سے ایک خاص سمت میں دھکیلا جاتا ہے۔ چنانچہ معاشرہ اپنی زوال آمادگی میں سیاست کو ہی سب سے بڑی سرگرمی بنانے پر تیار ہوجائے تب بھی وہ معاشرہ ادراک کی سطح پرنہایت پست ہوگا جس کا مکمل انحصار اخبارات اور ذرائع ابلاغ پر ہو۔اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں واقعات کے پیچھے ہر دم مسلسل تغیر پذیر محرکات کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے۔جسے ذرائع ابلاغ اپنے دائرے میں زیرِ بحث لانے کے اہل ہی نہیں۔ اخبارات ناقص اطلاعات کو جانبداری کے ساتھ عوام پر انڈیل دیتے ہیں جس سے عامی تو کیاخواندہ طبقے میں بھی کوئی بڑی نگاہ(وژن) اور کوئی بڑا مقصد پیدا نہیں ہو پاتا۔پاکستان میں یہ حادثہ رونما ہوچکا ہے۔ یہاں پر سیاست کے اُتھلے تناظر کی گھٹیا ترین حالت اس مقام کو چھو چکی ہے کہ جس میں معاشرے کے ارادہ وشعور کو نصب العین کی سطح پر رکھ کر نتائج پیدا کرنے کی امید صفر سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جو سیاست کو بدل کر اور نظام کی بحث سے جڑ کر کسی بڑی تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں ، اُن آنکھوں کا صدقہ اُتارنے کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ وہ آنکھیں کچھ بھی دیکھنے کی صلاحیت کھو چکی ہیں ۔دراصل سیاست بدلنے اور سیاسی نظام بدلنے کی بحث ایک منحوس گرداب ہے جس میں تبدیلی کے ذرائع بھی خود اِسی نظام کے طے کردہ ہیں ۔ لہذا اِن ذرائع کو امید افزا رکھتے ہوئے کسی بھی کامیابی سے عاجز رکھا گیا ہے۔ اس سب سے بڑھ کر نظام کی حامی اشرافیہ نہایت سنگ دل بھی ہے۔چنانچہ یہ سارا سفر گھوم پھر کر واپس آپ کو وہیں لا کر چھوڑدیتا ہے جہاں سے آپ چلے تھے۔ کسی بھی تامل کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ یہ دائروں کا سفر ہے۔ اس کی ناکامی ونامرادی تاریخ سے ثابت شدہ ہے۔
یہاں اس نکتے کو ذہن مین رکھنا چاہئے کہ مغرب میں تبدیلی کوئی بڑا خواب کیوں نہیں بن پاتی ہے جب کہ خود مغرب میں بھی لوگ سیاسی نظام سے ایک تنفر کا جذبہ پالنے لگے ہیں۔ دراصل مغرب نے دہائیوں پر پھیلے سماج کو دیکھنے کا سیاسی تناظر ختم کردیا ہے۔ وہاں ایک بڑا طبقہ اپنی سرگرمیوں میں سیاسی تناظر کا قیدی نہیں رہا۔ چنانچہ اس کامیابی نے اُن کی بیشتر ناکامیوں کو چھپا کر رکھا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر سماج کو دیکھنے کا سیاسی تناظر ہی تبدیل نہیں کیا جاسکا۔
ہمارا مسئلہ سیاست بدلنے کا نہیں معاشرے کو بدلنے کا ہے۔ اور سماجی سرگرمیوں کو سیاسی تناظر سے آزاد کرنے کا ہے۔ جس کے بعد سیاست خود بخود تبدیل ہوجائے گی۔ اگر یہ قوم اپنے سماج کو سیاست کے منحوس اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کمربستہ ہوجائے اور سماج کی حفاظت کو اپنا نصب العین بنا لے تو سیاسی سرگرمیاں خودبخود ہی اپنی اولین حیثیت اور ترجیحی مقام کھودینگی۔ جس کے بعد پاکستان اپنے نظریاتی پیکر کا حسن پا لے گا۔ جو تب ہی ممکن ہے کہ سیاست کی تمام سرگرمیاں معاشرے کے بنیادی مقاصد کی تکمیل کے لئے صرف کی جائیں نہ کہ سماج کی تمام سرگرمیاں سیاست کے لئے وقف کر دی جائیں۔ اس سے ریاست کے تضادات کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ اورآج کل جو مختلف جمعہ، بدھو خیراتی اور شب براتی قسم کی دانشور مخلوق ٹیلی ویژن کی بے ہودہ دنیا نے پیدا کردی ہے وہ خود بخود غیر متعلق ہو کر معدوم ہو جائے گی۔ خود کو بدلے بغیر گردوپیش کو بدلنے کی ہر تحریک ناکامی سے دوچار ہوگی۔ یہ مصنوعیت کی شکار اور فطری ماحول سے دور ہوگی۔ جس میں مصنوعی تصورات راج کر یں گے اور جدید ذہن کی بنائی ہوئی ٹوپی اُس سے برسرِپیکار سروں کو بھی پہننے پڑے گی۔