... loading ...
وہ فریق اپنی لڑائی میں کبھی بھی سچا نہیں ہو سکتا جو اپنے دشمن سے سیکھتا نہ ہو۔بھارت ایک ایسا ہی ملک ہے جو اپنی پاکستان دشمنی سے ہمیں کچھ سبق بھی دیتا ہے۔ ارون تیواری نے عبدالکلام کی سوانح لکھتے ہوئے ایک عجیب فقرہ تحریر کیا ہے کہ
’’خود میرے لئے اس کتاب کو لکھنا ایک تیرتھ یاترا کی مانند ہو گیا تھا۔‘‘
عبدالکلام 15؍ نومبر 1931کو تامل ناڈو میں پیدا ہوئے اور چند روز پیشتر 27؍ جولائی 2015 کو اُن کا انتقال ہوگیا۔ کیا واقعی تیراسی سالہ عبدالکلام کی زندگی ایک تیرتھ یاترا کی مانند تھی؟ بھارت کے معروف جوہری سائنس دان کو’’ میزائل مین‘‘ کہا جاتا تھا۔اُن کی ہی بدولت بھارت نے 1974 میں پہلا جوہری تجربہ کیا ۔بھارت کی دفاعی تحقیقات میں سب سے بڑھ کراُن کا حصہ تھا۔ عبدالکلام کے زیرِ نگرانی ہی بھارت نے اپنی خلائی دنیا کو محفوظ بنایا۔ ابتدائی سیارچے فضا میں اُچھالے۔ چنانچہ وہ بھارت کے تمام اعلیٰ ترین شہری اعزازت سے نوازے گئے۔ اُنہیں 1981 میں پدم بھوشن اور 1997 میں بھارت رتن کے اعزازات دیئے گئے۔ عبدالکلام کو 25؍ جولائی 2002کو بھارت کے صدر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جہاں وہ 25؍ جولائی 2007تک رونق افروز رہے۔ ایک بھرپور اور کامیاب زندگی گزارنے والے عبدالکلام کی زندگی اُن کے سوانح نگار کو ایک تیرتھ یاترا کی مانند کیوں لگی؟
دراصل دنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا ایک جوہر مشترک ہے کہ وہ بہت معمولی پسِ منظر سے اپنی دنیا بناتے اور گردوپیش کی دنیا بدل دیتے ہیں۔ عبدالکلام کی زندگی کا ایک غیرمعمولی پہلو اُن کا بہت معمولی ہونا تھا۔کون سوچ سکتا تھا کہ ایک معمولی کشتی بان کا بیٹا ایک دن بھارت کی قومی کشتی کو منجدھار سے ساحل پر لے آئے گا؟کیا اخبار تقسیم کرنے والا ایک معمولی بچہ ہندوستان کے منظر پر اس طرح چھا سکتا ہے؟اگر دنیا کو چند بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں کہا جائے تو یہ دنیا ایسے ہی لوگوں کی بدولت ہے۔یہ پہلو ایک عام زندگی کو سرشار کرتا ہے کہ اُن کا معمولی پسِ منظر امکانات کی کتنی بڑی اور غیر معمولی دنیا کی تحریک رکھتا ہے۔ انسان، ذہنوں سے بڑے ہوتے ہیں جیبوں سے نہیں۔محنت اور جستجو کی راہ میں وسائل کی قلت اور مسائل کی کثرت کوئی عذر نہیں ہے۔ عبدالکلام کا بچپن اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میرا بچپن میرے لئے انمول ہے۔‘‘انہوں نے سوال اُٹھایا:
مگروہ کسی دوسرے کے لئے بھی دلچسپ کہاں ہوگا؟مجھے اس پر بہت شبہ تھا کہ کوئی قاری ایک چھوٹی سی بستی کے لڑکے کی مصیبتوں اور کامرانیوں کو جاننے کے لئے اپنا وقت صرف کرے گا۔
تیراسی سالہ عبدالکلام جب اپنی سوانح لکھنے بیٹھے تو اُنہیں اپنے والد کی بچپن میں کہی گئی بات یاد تھی کہ ’’پریشانیاں جب آئیں تو اپنی اذیتوں کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرو، مصیبت ہمیشہ دروں بینی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔‘‘کامیابی کا پہلا زینہ ہی یہی ہے کہ انسان کی نگاہیں بیرون پر نہیں اندرون میں مرتکز ہو۔ تمام بڑے لوگوں میں دروں بینی کی یہ صلاحیت اُن کی عظمت کے تناسب سے ملتی ہے۔یہی عادت انسان کو وہ بال وپر عطا کرتی ہے جس سے وہ اپنے آسمان ڈھونڈتا اور مائلِ پرواز ہوتا ہے۔بچپن میں سارسوں اور بگلوں کو اونچا اڑتا دیکھ کر خود بھی اڑنے کی خواہش پالنے والا معمولی بچہ جب ہندوستان کے افق کو اپنے پروں میں چھپانے لگا تو اپنی زندگی کو تحریر کرتے ہوئے اُسے عنوان بھی ’’پرواز‘‘ کا دیا۔ اُنہیں تعلیم کے لئے اپنا گھر چھوڑتے ہوئے اپنے والد کی مثال ہمیشہ یاد رہی کہ ’’کیا سمندری بگلا دھوپ میں اکیلا بغیر گھونسلے کے نہیں اڑتا۔‘‘عبدالکلا م کی پوری زندگی کی کچھ جھلکیاں اُن کی سوانح عمری ’’پرواز‘‘ (ونگس آف فائر) میں ملتی ہیں۔مگر وہ اس سے بڑھ کر تھے۔مذہب، سائنس ، شاعری نے مل کر عبدالکلام کو گوندھا تھا۔ان تینوں کا اکٹھ اُن کے طرزِحیات کی مکمل تصویر بناتا ہے۔یہ نہایت چھوٹے اور چھچھوڑے لوگوں کی افتادِ طبع ہوتی ہے کہ اُنہیں دو چار لفظ لکھنے یا بولنے آجائیں ، دوچار کتابیں پڑھ لیں تو وہ مذہب کو نشانۂ تنقید بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اُنہیں خدا ، خدا نہیں لگتا اور سائنس خدا لگنے لگتی ہے۔وہ جہالت کی قے کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ سائنس کائنات کا اخبار ہے اور اخبار ، خبر بناتا نہیں ۔ بس خبر دیتا ہے۔ چنانچہ تمام بڑے سائنس دانوں کے ساتھ یہ ماجرا ہوا کہ وہ بآلاخر تھک ہار کر اپنی نارسائیوں کی دہلیز پر سجدۂ عجز بجالائے۔ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہاہے۔ عبدالکلام کا یہ مذہبی ادراک کچھ سوالات کے ساتھ نہایت قابلِ غور ہے کیونکہ یہ خلاء میں گھورنے والے ایک سائنسدان کے غوروفکر کی ایک خاص منہج سے پھوٹتا ہے اور اُسے کبھی اس پر کوئی شک نہیں ہوتا۔
یہ ایک موقع ہے کہ سمجھا جائے کہ بھارت میں صدارتی منصب کی وقعت کیا ہوتی ہے اور بھارتی جمہوریت میں اِ س منصب کے لئے کیا معیارات پیش نظر رہتے ہیں؟ اب تک بھارت میں تیرہ صدور اس منصب پر متمکن رہے ۔جن میں سے چھ نے اپنے اپنے مضامین میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی تھی۔ ذرا ڈاکٹر ذاکر حسین کو یاد کیجئے!جو بھارت کے تیسرے صدر تھے۔ اُنہوں نے لیبر لاء میں ڈاکٹریٹ کی تھی اور اُنہوں نے اپنا مقالہ جرمن زبان میں تحریر کیا تھا۔اس کے باوجود وہ غالب پر ایک سند کا درجہ بھی رکھتے تھے۔اُنہوں نے صرف تیئس برس کی عمر میں اپنے تین دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کالج کی بنیاد رکھی جسے اب جامعہ ملیہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔اگر بھارتی صدور کی زندگیوں میں جھانکا جائے تو وہ ایک خاص تعلیمی پسِ منظر کی حامل نظر آتی ہیں۔بھارتی جمہوریت ایسے افراد کو ’’صدارت‘‘ کے منصب پر فائز کرکے خود جمہوریت کو قابلِ قدر بناتی ہے۔ افسوس ہمارے ہاں صدر کے انتخاب کے لئے معیارات ذرا مختلف ہیں۔بھارت میں بدترین بدعنوانیوں کے قصے سامنے آتے رہتے ہیں مگر وہ اپنی ’’جمہوریت‘‘ کی تقدیس کے لئے کچھ مثالیں بھی پیدا کرتا رہتا ہے ۔صدارتی منصب وہاں ایک ایسی ہی مثال ہے۔ عبدالکلام نے اپنے دورِ صدارت میں اس مثال کو مزید آبرو دی۔ عبدالکلام کے بڑے بھائی تب بھی وہی کام کرتے رہے جب اُن کاچھوٹا بھائی ملک کا صدر بن گیا۔ ہمارے ہاں دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ پورا خاندان اُن سے ملنے صرف ایک ہی بار ایوانِ صدر آسکا جس کے کوئی اخراجات سرکاری کھاتے سے ادا نہیں کئے گئے۔اجتماعی زندگی کو ایسی ہی مثالیں قائم کرکے قابلِ قدر بنایا جاتا ہے۔ ہمارے پاس اس کے بالکل برعکس کہانیاں ہوتی ہیں۔
کیا یہ بہتر نہ تھا کہ عبدالکلام کی موت پر ہمارے سائنسدان خاموش رہتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک عجیب وغریب تبصرہ عبدالکلام کی موت پر فرمایا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود اُن کے ساتھی سائنس دان اُن پر بھی کچھ اِسی نوع کے الزام نما تبصرے کرتے رہے ہیں ۔ کیا ہمارے سائنسدانوں کو یہ اب تک پتا نہیں چلا کہ وہ اسکول کے بچے نہیں جنہیں برابر ٹافیاں دی جائیں توبھی وہ اس پر بھی لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں کہ پہلے اُسے ٹافیاں کیوں دی گئی مجھے کیوں نہیں دی گئی۔ یہ کون سا تصورِ حیات ہے جو دشمنی میں سامانِ حیات تلاشتا ہے۔دشمن سے ہمیشہ مقابلہ نہیں کیا جاتا ۔ گاہے موازنہ بھی کیا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مقابل نہیں ایک دوسرے کے متوازی بھی جیتے اور جی سکتے ہیں۔ زندگی کو حریفانہ نہیں، حلیفانہ آہنگ بھی درکار ہوتا ہے۔ مگر کیا کیا جائے ، ہمارے سائنس دانوں نے’’ عزت ‘‘کو ایک کھیل بنا لیا اور اس سے بھی کھلواڑ کرنے لگے۔ان کا واحد مسئلہ اور مشغلہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا تھا۔ ایک دوسرے کی ناکامیوں کا اپنے اپنے پسندیدہ صحافیوں کے ذریعے پرچار تھا۔بلاشبہ ہم نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں زیادہ بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ہمارے سائنس دانوں نے ہمارے سر فخر سے بلند کئے ہیں۔ مگر کیا ہمیں ایک اچھا انسان بننے کی ضرورت نہیں؟ کیا زندگی کو اس کی سادگی کے بنیادی جوہر کے ساتھ برتنے کی ضرورت نہیں۔ کیا ہماری عظمت ہمیں اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی کے لئے بھی ہمیشہ آمادۂ تحقیر رہیں۔ عبدالکلام کی زندگی دیکھیں تو وہ اس اعتبار سے سب میں بڑے نظر آتے ہیں۔اُنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے بارے میں کوئی پست الفاظ استعمال نہیں کئے۔ سائنسدان بڑے بلکہ بہت ہی بڑے ہوتے ہوں گے مگر مذہبی تعلیمات میں انسان کو بڑابنانے کی محنت کی جاتی ہے۔ ہمیں خود کو اب اس معیار پر بھی پرکھنے کی ضرورت ہے؟مکرر عرض ہے کہ وہ فریق اپنی لڑائی میں کبھی بھی سچا نہیں ہو سکتا جو اپنے دشمن سے سیکھتا نہ ہو۔تو کیا ہوا ، اگر ہمارا دشمن حجم میں ہم سے بڑا ہے ، ہم قدروقیمت میں تو اپنے دشمن سے بڑے بن سکتے ہیں۔