وجود

... loading ...

وجود

خام

بدھ 12 اگست 2015 خام

imran khan

عمران خان اپنی ’’چکاچوندی‘‘ سے انقلاب لانا چاہتے تھے۔ حالانکہ یہ خون ِجگر کا تقاضا کرتا ہے۔

ہمیشہ یاد رہنے والے اقبال ؒ نے جمالیاتی وفور میں اُصول بیان کیا:

نقش ہے سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

زندگی کو مقصد ہی نہیں، مقصد کو جذبہ بھی چاہئے۔ جذبات کی بات دوسری ہے مگر جذبے کے بہت سے تقاضے ہیں۔عمران خان ان میں سے کسی ایک کو پورا نہیں کرتے۔ اسی لئے تو اُن کا ہر نغمہ سودائے خام رہتا ہے۔ وہ بھڑکنے کو زندگی سمجھتے ہیں مگر زندگی سلگتے رہنے کانام ہے۔ بھڑکنے سے ناکام دھرنے ہوتے ہیں اور سلگتے رہنے سے انقلاب آتے ہیں۔ بھڑکنے اور سلگتے رہنے کی نفسیات الگ الگ ہیں ۔ اس سے بننے والے آدمی بھی مختلف ہوتے ہیں۔ عمران خان اس امر کے ادراک سے بالکل محروم ہیں۔ پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر آدمی خود کو وہ ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے جو وہ نہیں ہوتا۔ عمران خان، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اس کلئے پر ایک ہی طرح کے لوگ باگ ہیں۔مگر عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف میں ان شخصیات کی مانند ہونے کے باوجود خود کو الگ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ بس یہی بات اُنہیں دوسروں سے زیادہ قابلِ تنقید بناتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان میں ایک رومانویت ہے مگر یہ ناپختگی کے ساتھ انقلاب کی خواہش کا ایک آمیزہ ہے۔ان تینوں عناصر کی ملغوبہ شخصیت کچھ سماجی اثرات تو پیدا کردیتی ہے مگر یہ ایک بڑی تبدیلی کی کوئی تحریک پیدا کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی۔عمران خان کے ساتھ دو بہت بڑے مسئلے یہ ہیں کہ وہ نہ تو انقلاب کا کوئی مطلب سمجھتے ہیں اور نہ ہی اُس معاشرے کو سمجھتے ہیں جس میں وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ جس کے باعث وہ ایک بنیادی نتیجے کا فہم پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ نتیجہ یہ ہے کہ عوام انقلاب کی تاب (افورڈ) نہیں رکھتے اور یہ انقلاب لانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔سماجی سطح پر کچھ اثرات پیدا کرلینا کسی کو بھی انقلاب جتنے بڑے دعوے کے قابل نہیں بنا دیتا۔ایسے اثرات تو کبھی کبھی ایک فلم یا فلمی گانے سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ اثرات نہایت سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں اور خود ہی پانی کی لہروں کی طرح اُبھرتے مٹتے رہتے ہیں۔ سماج کے گہرے سمندر کو اس کی کوئی پروا تک نہیں ہوتی۔عمران خان یہ بات اس لئے نہیں سمجھ پارہے کہ وہ بنیادی طور پر تبدیلی کا ایک نہایت چھوٹا وژن رکھتے ہیں۔اُصول کی سطح پر یہ بات طے ہے کہ انقلاب قیادت کی سطح پر چھوٹے آدمی کے ردِعمل سے نہیں آتا۔ عمران خان نے اپنی اس کم نگاہی (وژن) کے باعث انقلاب اور تبدیلی کو نوازشریف کے بدلنے کے ہم معنی بنا دیا۔انقلاب کبھی بھی نوازشریف یا زرداری وغیرہ کو سامنے رکھ کر نہیں آئے گا۔ یہ چھوٹے پتھر ہیں اس لئے یہ نتائج بھی اتنے ہی چھوٹے پیدا کرتے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک انقلاب بمعنی حکومت بدلنا تھا۔ نوازشریف کو ہٹانے سے انقلاب ہر گز نہیں آ سکتا۔ یہ تو اس سے بھی نہیں آسکتا کہ کسی حادثے کے نتیجے میں خود عمران خا ن اقتدار پر قابض ہوجاتے۔ حکومت بدل کر یا حکومت سنبھال کر تبدیلی نہیں آجاتی۔ حکومت کی تبدیلی بجائے خود حالتِ قائمہ (اسٹیٹس کو) کی ہی ایک شکل ہے۔ یہ عمل بجائے خود حقیقی تبدیلی کو روکتا ہے۔اور ناراض طبعیتوں کو وقتی طور پر سنبھالے رکھنے کا باعث بنا رہتا ہے۔عمران خان خود اس عامیانہ توازن کا ہی ایک حصہ بن کر اُبھرے ہیں اس کے باغی بن کر نہیں۔چناچہ عمران خان کا اپنے آپ پر اعتمادبالکل غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ یہی رومانویت ہے۔

اِسی رومانویت نے عمران خان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا کردیا ہے کہ وہ خود اپنی ہی شخصیت سے بہت متاثر اور مسحور ہوگئے ہیں۔یہ نفسیات کسی بھی آدمی کو بڑا نہیں بننے دیتی۔ پاکستان میں خود تعظیمی کی سب سے بڑی مثال بھٹو تھے۔مگر وہ بھی اپنی تعظیم میں اس قدر آپے سے باہر نہیں ہوئے جتنے کہ عمران ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اپنے پسِ منظر کے علاوہ بھٹو کی کچھ کامیابیاں بھی ایسی تھیں جو اُنہیں اس کیفیت میں مبتلارکھنے کاجواز مہیا کرتی تھیں۔ اپنی مدح سرائی کوئی بڑا عیب نہ بھی ہو تو یہ واضح کردیتا ہے کہ یہ کوئی بڑی شخصیت نہیں۔ اور انقلاب بڑی شخصیت کے بغیر نہیں آتا۔جب وہ آپ کا کپتان یا صیغۂ تکلم واحد کے طور پر ’’میں‘‘ کہتے ہیں تو بہت چھوٹے آدمی کے کوائف پورے کرتے ہیں ۔ لینن نے اپنی زندگی میں جو کچھ بولا اور لکھا ہے وہ تقریباً پینتالیس ضخیم جلدوں پر محیط ہیں۔ اتنے بڑے کام میں وہ جہاں کہیں پر بھی صیغۂ تکلم واحد کا استعمال کرتے ہیں تو وہ نہایت معمولی باتوں پر ناگزیر طور پر کرتے ہیں۔ مثلاً’’ میں ‘‘وہاں گیا تھا۔ یہ تو وہ کہتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں کہتے کہ ’’میں‘‘ یہ کردوں گا۔ڈیگال کو یہ وہم تھا کہ اُس کا براہِ راست خدا سے رابطہ ہے ۔ ابھی ابھی امریکا سے ایک صدر رخصت ہوا ہے جس کا نام بش تھا۔ وہ افغانستان میں کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے اپنے اقدام کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا تھا کہ اُسے خدا نے خود اس کام پر مامور کیا ہے۔مگر ان رہنماؤں کو یہ غلط فہمیاں اپنے اپنے مقامات کے تعین کے بعد لاحق ہوئیں ۔ عمران خان کی غلط فہمیوں کے ایسے بھی کوئی جواز میسر نہیں۔

پاکستان کے لئے نظریاتی جدوجہد کرنے والے افراد ایک موقع پر عمران خان کی چکاچوندی میں ذرا بہہ اور بہک سے گئے تھے۔ اُنہیں جلد اس فریب سے باہر آجانا چاہئے۔ عمران خان کے باب میں سب سے خطرناک معاملہ یہی ہے کہ وہ اسلام اور اقبالؒ کا نام لیتے ہیں۔ وہ اس کے ناقص نہیں غلط ترجمان ہیں۔ یہ پہلو کسی سازشی نظریئے کی پیداوار نہیں ہے کہ مغرب عالمِ اسلام کو جدید بنانے کی مہم میں مسلم معاشروں کے روایتی اور حقیقی بیانئے تبدیل کررہا ہے۔ یہ اسی کانتیجہ ہے کہ اسلام کے روایتی شارحین کی عوامی گفتگوؤں میں تو اسلام ، پیغمبرﷺ اور اصحابِ رسولؓ کے حوالے غائب ہورہے ہیں اور لبرل (آزاد)عناصر کی زبانوں پر یہ حوالے رسان سے بہنے لگے ہیں۔ لبرل ازم کا سب سے خطرناک ہتھیار یہ ہے کہ وہ اسلام کی اصطلاحات میں بات کرے۔ اس وقت لبرل ازم کے حاملین دراصل ’’مولوی‘‘ بننے کے لئے تیار ہیں۔یہ کوئی خوامخواہ کی بات نہیں ہے کہ اللہ ھو کی دُھن پر عورتوں سے رقص کرایا جائے۔ یہ کون سا بیانیہ ہے۔ اس سے قبل اللہ ھو سننے پر عورتیں سروں پر دوپٹا رکھتیں تھیں۔اسلام کی اس جہت سے نمائش دراصل مذہب سے تعلق کے نفسیاتی اور تہذیبی چلے آتے اسالیب کو توڑ دیتی ہیں۔ عمران خان کے ہاں دانستہ یا نادانستہ لبرل اسلام کے اس تصور کی بتدریج پرداخت کی جارہی ہے۔ وہ علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے بھی ایک ایسے ہی فہم کو فروخت کررہے ہیں۔پاکستان کے نظریاتی حلقوں کو اس حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔تبدیلی کے خواہش مندوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عمران خان ہرگز ہرگز وہ شخصیت نہیں جو سماج کے اندر کسی تبدیلی کا محرک بن سکے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاہکار نظم مسجدِ قرطبہ (جو مسجدِ قرطبہ کی تعمیر جتنا ہی بڑا شاندار کارنامہ ہے) کے پہلے بند کے ایک شعر میں بات واضح کردی کہ

تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب، صیرفیٔ کائنات

برصغیر کے ایک نامور مذہبی رہنما نے لکھا تھا کہ وقت ایک بے رحم صراف ہے جو کھوٹے کو تو مسترد کر ہی دیتا ہے مگر کھرے کو بھی نہایت تامل سے قبول کرتا ہے۔عمران خان ایسے کردار تاریخ میں کم پیدا نہیں ہوئے۔ مورخین جن کا ذکر پسندیدگی کے ساتھ مگر ترس کھا کر، کرتے ہیں۔عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اُن کی شخصیت کی ’’چکا چوندی‘‘ کوئی ’’خونِ جگر‘‘ کا متبادل نہیں بن سکتی۔ اور انقلاب کے تقاضے وہ نہیں خود انقلاب طے کرتاہے۔


متعلقہ خبریں


جنرل (ر) فیض کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کیا جائے، عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ وجود - بدھ 21 اگست 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...

جنرل (ر) فیض کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کیا جائے، عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ

سپریم کورٹ: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر فیصلہ محفوظ وجود - منگل 09 جولائی 2024

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا گیا۔سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا...

سپریم کورٹ: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر فیصلہ محفوظ

رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان وجود - اتوار 30 اکتوبر 2022

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

عمران خان اسمبلی میں مشروط واپسی پر تیار وجود - اتوار 25 ستمبر 2022

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی سائفر کی تحقیقات کی جائیں تو اسمبلی واپس آ سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے اچھے تعلقات تھے، پتا نہیں یہ کب اور کیسے خراب ہوئے؟ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے، اپوزیشن میں رہ...

عمران خان اسمبلی میں مشروط واپسی پر تیار

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان

سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

سپریم کورٹ نے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ دے دیا،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عوام نے آپ کو5سال کے لیے منتخب کیا ہے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے،مرحلہ وار استعفو...

سپریم کورٹ کا  پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر