... loading ...
عمران خان اپنی ’’چکاچوندی‘‘ سے انقلاب لانا چاہتے تھے۔ حالانکہ یہ خون ِجگر کا تقاضا کرتا ہے۔
ہمیشہ یاد رہنے والے اقبال ؒ نے جمالیاتی وفور میں اُصول بیان کیا:
زندگی کو مقصد ہی نہیں، مقصد کو جذبہ بھی چاہئے۔ جذبات کی بات دوسری ہے مگر جذبے کے بہت سے تقاضے ہیں۔عمران خان ان میں سے کسی ایک کو پورا نہیں کرتے۔ اسی لئے تو اُن کا ہر نغمہ سودائے خام رہتا ہے۔ وہ بھڑکنے کو زندگی سمجھتے ہیں مگر زندگی سلگتے رہنے کانام ہے۔ بھڑکنے سے ناکام دھرنے ہوتے ہیں اور سلگتے رہنے سے انقلاب آتے ہیں۔ بھڑکنے اور سلگتے رہنے کی نفسیات الگ الگ ہیں ۔ اس سے بننے والے آدمی بھی مختلف ہوتے ہیں۔ عمران خان اس امر کے ادراک سے بالکل محروم ہیں۔ پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر آدمی خود کو وہ ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے جو وہ نہیں ہوتا۔ عمران خان، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اس کلئے پر ایک ہی طرح کے لوگ باگ ہیں۔مگر عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف میں ان شخصیات کی مانند ہونے کے باوجود خود کو الگ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ بس یہی بات اُنہیں دوسروں سے زیادہ قابلِ تنقید بناتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان میں ایک رومانویت ہے مگر یہ ناپختگی کے ساتھ انقلاب کی خواہش کا ایک آمیزہ ہے۔ان تینوں عناصر کی ملغوبہ شخصیت کچھ سماجی اثرات تو پیدا کردیتی ہے مگر یہ ایک بڑی تبدیلی کی کوئی تحریک پیدا کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی۔عمران خان کے ساتھ دو بہت بڑے مسئلے یہ ہیں کہ وہ نہ تو انقلاب کا کوئی مطلب سمجھتے ہیں اور نہ ہی اُس معاشرے کو سمجھتے ہیں جس میں وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ جس کے باعث وہ ایک بنیادی نتیجے کا فہم پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ نتیجہ یہ ہے کہ عوام انقلاب کی تاب (افورڈ) نہیں رکھتے اور یہ انقلاب لانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔سماجی سطح پر کچھ اثرات پیدا کرلینا کسی کو بھی انقلاب جتنے بڑے دعوے کے قابل نہیں بنا دیتا۔ایسے اثرات تو کبھی کبھی ایک فلم یا فلمی گانے سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ اثرات نہایت سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں اور خود ہی پانی کی لہروں کی طرح اُبھرتے مٹتے رہتے ہیں۔ سماج کے گہرے سمندر کو اس کی کوئی پروا تک نہیں ہوتی۔عمران خان یہ بات اس لئے نہیں سمجھ پارہے کہ وہ بنیادی طور پر تبدیلی کا ایک نہایت چھوٹا وژن رکھتے ہیں۔اُصول کی سطح پر یہ بات طے ہے کہ انقلاب قیادت کی سطح پر چھوٹے آدمی کے ردِعمل سے نہیں آتا۔ عمران خان نے اپنی اس کم نگاہی (وژن) کے باعث انقلاب اور تبدیلی کو نوازشریف کے بدلنے کے ہم معنی بنا دیا۔انقلاب کبھی بھی نوازشریف یا زرداری وغیرہ کو سامنے رکھ کر نہیں آئے گا۔ یہ چھوٹے پتھر ہیں اس لئے یہ نتائج بھی اتنے ہی چھوٹے پیدا کرتے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک انقلاب بمعنی حکومت بدلنا تھا۔ نوازشریف کو ہٹانے سے انقلاب ہر گز نہیں آ سکتا۔ یہ تو اس سے بھی نہیں آسکتا کہ کسی حادثے کے نتیجے میں خود عمران خا ن اقتدار پر قابض ہوجاتے۔ حکومت بدل کر یا حکومت سنبھال کر تبدیلی نہیں آجاتی۔ حکومت کی تبدیلی بجائے خود حالتِ قائمہ (اسٹیٹس کو) کی ہی ایک شکل ہے۔ یہ عمل بجائے خود حقیقی تبدیلی کو روکتا ہے۔اور ناراض طبعیتوں کو وقتی طور پر سنبھالے رکھنے کا باعث بنا رہتا ہے۔عمران خان خود اس عامیانہ توازن کا ہی ایک حصہ بن کر اُبھرے ہیں اس کے باغی بن کر نہیں۔چناچہ عمران خان کا اپنے آپ پر اعتمادبالکل غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ یہی رومانویت ہے۔
اِسی رومانویت نے عمران خان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا کردیا ہے کہ وہ خود اپنی ہی شخصیت سے بہت متاثر اور مسحور ہوگئے ہیں۔یہ نفسیات کسی بھی آدمی کو بڑا نہیں بننے دیتی۔ پاکستان میں خود تعظیمی کی سب سے بڑی مثال بھٹو تھے۔مگر وہ بھی اپنی تعظیم میں اس قدر آپے سے باہر نہیں ہوئے جتنے کہ عمران ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اپنے پسِ منظر کے علاوہ بھٹو کی کچھ کامیابیاں بھی ایسی تھیں جو اُنہیں اس کیفیت میں مبتلارکھنے کاجواز مہیا کرتی تھیں۔ اپنی مدح سرائی کوئی بڑا عیب نہ بھی ہو تو یہ واضح کردیتا ہے کہ یہ کوئی بڑی شخصیت نہیں۔ اور انقلاب بڑی شخصیت کے بغیر نہیں آتا۔جب وہ آپ کا کپتان یا صیغۂ تکلم واحد کے طور پر ’’میں‘‘ کہتے ہیں تو بہت چھوٹے آدمی کے کوائف پورے کرتے ہیں ۔ لینن نے اپنی زندگی میں جو کچھ بولا اور لکھا ہے وہ تقریباً پینتالیس ضخیم جلدوں پر محیط ہیں۔ اتنے بڑے کام میں وہ جہاں کہیں پر بھی صیغۂ تکلم واحد کا استعمال کرتے ہیں تو وہ نہایت معمولی باتوں پر ناگزیر طور پر کرتے ہیں۔ مثلاً’’ میں ‘‘وہاں گیا تھا۔ یہ تو وہ کہتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں کہتے کہ ’’میں‘‘ یہ کردوں گا۔ڈیگال کو یہ وہم تھا کہ اُس کا براہِ راست خدا سے رابطہ ہے ۔ ابھی ابھی امریکا سے ایک صدر رخصت ہوا ہے جس کا نام بش تھا۔ وہ افغانستان میں کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے اپنے اقدام کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا تھا کہ اُسے خدا نے خود اس کام پر مامور کیا ہے۔مگر ان رہنماؤں کو یہ غلط فہمیاں اپنے اپنے مقامات کے تعین کے بعد لاحق ہوئیں ۔ عمران خان کی غلط فہمیوں کے ایسے بھی کوئی جواز میسر نہیں۔
پاکستان کے لئے نظریاتی جدوجہد کرنے والے افراد ایک موقع پر عمران خان کی چکاچوندی میں ذرا بہہ اور بہک سے گئے تھے۔ اُنہیں جلد اس فریب سے باہر آجانا چاہئے۔ عمران خان کے باب میں سب سے خطرناک معاملہ یہی ہے کہ وہ اسلام اور اقبالؒ کا نام لیتے ہیں۔ وہ اس کے ناقص نہیں غلط ترجمان ہیں۔ یہ پہلو کسی سازشی نظریئے کی پیداوار نہیں ہے کہ مغرب عالمِ اسلام کو جدید بنانے کی مہم میں مسلم معاشروں کے روایتی اور حقیقی بیانئے تبدیل کررہا ہے۔ یہ اسی کانتیجہ ہے کہ اسلام کے روایتی شارحین کی عوامی گفتگوؤں میں تو اسلام ، پیغمبرﷺ اور اصحابِ رسولؓ کے حوالے غائب ہورہے ہیں اور لبرل (آزاد)عناصر کی زبانوں پر یہ حوالے رسان سے بہنے لگے ہیں۔ لبرل ازم کا سب سے خطرناک ہتھیار یہ ہے کہ وہ اسلام کی اصطلاحات میں بات کرے۔ اس وقت لبرل ازم کے حاملین دراصل ’’مولوی‘‘ بننے کے لئے تیار ہیں۔یہ کوئی خوامخواہ کی بات نہیں ہے کہ اللہ ھو کی دُھن پر عورتوں سے رقص کرایا جائے۔ یہ کون سا بیانیہ ہے۔ اس سے قبل اللہ ھو سننے پر عورتیں سروں پر دوپٹا رکھتیں تھیں۔اسلام کی اس جہت سے نمائش دراصل مذہب سے تعلق کے نفسیاتی اور تہذیبی چلے آتے اسالیب کو توڑ دیتی ہیں۔ عمران خان کے ہاں دانستہ یا نادانستہ لبرل اسلام کے اس تصور کی بتدریج پرداخت کی جارہی ہے۔ وہ علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے بھی ایک ایسے ہی فہم کو فروخت کررہے ہیں۔پاکستان کے نظریاتی حلقوں کو اس حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔تبدیلی کے خواہش مندوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عمران خان ہرگز ہرگز وہ شخصیت نہیں جو سماج کے اندر کسی تبدیلی کا محرک بن سکے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاہکار نظم مسجدِ قرطبہ (جو مسجدِ قرطبہ کی تعمیر جتنا ہی بڑا شاندار کارنامہ ہے) کے پہلے بند کے ایک شعر میں بات واضح کردی کہ
برصغیر کے ایک نامور مذہبی رہنما نے لکھا تھا کہ وقت ایک بے رحم صراف ہے جو کھوٹے کو تو مسترد کر ہی دیتا ہے مگر کھرے کو بھی نہایت تامل سے قبول کرتا ہے۔عمران خان ایسے کردار تاریخ میں کم پیدا نہیں ہوئے۔ مورخین جن کا ذکر پسندیدگی کے ساتھ مگر ترس کھا کر، کرتے ہیں۔عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اُن کی شخصیت کی ’’چکا چوندی‘‘ کوئی ’’خونِ جگر‘‘ کا متبادل نہیں بن سکتی۔ اور انقلاب کے تقاضے وہ نہیں خود انقلاب طے کرتاہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا گیا۔سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی سائفر کی تحقیقات کی جائیں تو اسمبلی واپس آ سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے اچھے تعلقات تھے، پتا نہیں یہ کب اور کیسے خراب ہوئے؟ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے، اپوزیشن میں رہ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...
سپریم کورٹ نے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ دے دیا،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عوام نے آپ کو5سال کے لیے منتخب کیا ہے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے،مرحلہ وار استعفو...