وجود

... loading ...

وجود

منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی

بدھ 12 اگست 2015 منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی

imran-khan

ابھی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ایک طرف رکھیں! اپنی یاد داشتوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ عمران خان کے حوالے سے اُن کے مدح نگاروں نے ہمیں کیا چیز بیچی تھی؟ وہ ایک مثالیت پسند رہنما ہیں ۔ کیسے؟ وہ ثابت نہیں ہوئے۔ وہ ایک عملیت پسند رہنما ہیں۔ جی نہیں وہ یہ بھی ثابت نہیں کرسکے۔ پھر ایک بہترین منتظم کے طور پر اُن کی زبردست صلاحیتوں کا پر چار کیا گیا۔ یہ دعویٰ اپنے معیارپر اسپتال اور نمل کالج سے جانچا نہیں جاسکتا تھا۔ یہ اُصولِ تقابل کے خلاف تھا۔وہ ایک دھرنے کا طے شدہ طریقہ کار پر انتظام تک نہیں کرسکے۔ طاہر القادری اس باب میں اُن سے بہتر ثابت ہوئے۔ اُن کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے جہاں اُنہیں اپنے تمام سیاسی آدرش برتنے کا پورا موقع میسر تھا۔ وہ اب تک وہاں ایک ناکام شخص کے ذریعے ایک ناقابلِ رشک حکومت چلارہے ہیں۔ ایک رہنما کے طور پر اُن کے بس میں یہ بھی نہیں کہ وہ اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو ہی سنبھال سکیں۔ یاد کیجئے !جب بھی عمران خان کی سیاسی ٹیم پر سوال اُٹھے، اُنہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ ٹیم سے کچھ نہیں ہوتا اصل شخص کپتان ہوتا ہے۔ وہ ٹیم کو کھلاتا ہے۔ ابھی تک کے واقعات وحالات سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹیم، کپتان کو کھلا اور پلا رہی ہے۔ جس ٹیم میں ’’پاؤر پلیئر‘‘ ہوتے ہیں وہاں کپتان ایک بے بس آدمی کا نام ہوتا ہے۔ چنانچہ عمران خان کی سیاسی زندگی کا ایک جائزہ یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ اس محاذ پر نمل کالج یا اسپتال کی مانند کوئی ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں کر سکے۔ مثلاً ڈرون کے حوالے سے اُن کی تحریک ناکام ہوئی۔وہ نیٹو کی رسد روکنے کی جو مہم چلاتے رہے وہ عارضی ثابت ہوئی۔ الطاف حسین کے خلاف لندن میں مقدمہ قائم کرنے کا معاملہ ہوا میں معلق رہا۔ وہ کراچی میں اپنی جماعت کی رکن پروفیسر زہرہ شاہد کے مقدمے کی پیروی تک کرنے سے گریزاں رہے۔الغرض اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان کے متعلق ایک درست اور بے باک تجزیہ کیا جائے۔

کہیں نہیں جاتے! ایک بار پھر امریکی صدر نکسن کی کتاب ’’لیڈر‘‘ کے اوراق پلٹتے ہیں۔وہ اپنی مشہور ِ عالم کتاب میں لکھتے ہیں کہ

لیڈر کو اپنے مخالفین سے اتنی کڑی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی جتنی اُسے مصنوعی اور تباہ کن خیالات کا سامنا کرکے کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی چکاچوند سے عوام کو خیرہ اور اُن کے ذہن پراگندہ کردیتے ہیں۔

کیا یہ الفاظ عمران خان کے لئے کسی آئینے کا کام کرتے ہیں؟عمران خان نے اس تمام عرصے میں سوائے اس کے کیا کیا ہے؟اُنہوں نے حکمران اشرافیہ کے خلاف ایک جائز اور حقیقی ردِعمل کو بھی بے آبرو کرکے رکھ دیا ہے۔ اور خود اپنی پرکشش شخصیت کو ایک تھکا دینے والی بیزار طبیعت سے بھر دیا ہے۔جو ریحام خان کی آمد سے بھی خوشگوار نہیں ہو سکی۔اب اُنہیں سننا شیخ رشید کو سننے والی اذیت میں خود کو مبتلا کردینے کے مترادف بن گیا ہے۔ایسا کیوں کر ہوا؟

دراصل عمران خان نے اپنی پوری سیاسی زندگی کی اُٹھان کا جوا عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر کھیلا۔ جس کے سارے پتے اُن کے پاس نہیں، بلکہ’’ اُنگلی والی سرکار‘‘کے ہاتھ اور سینے پر تھے۔ عمران خان کی کُل سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ اب تک اپنا مکمل انحصار عوامی سیاست پر پیدا نہیں کرسکے۔ اُنہوں نے حصولِ اقتدار کے لئے مقتدر راہداریوں میں سرگوشیوں پر انحصار کیا۔ عمران خان کو اب تک یہ سہولت حاصل تھی کہ اُن کے دعووں کا منطقی جائزہ کم کم لیا جاتا رہا۔ اس لئے اُن سے وابستہ’’ کہانیاں‘‘ صحیح و غلط کی پرکھ سے بے نیاز پھیلتی چلی گئیں۔مثلاً اُن کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا کہ اُنہیں متعدد مرتبہ اقتدار کی پیشکشیں ہوتی رہیں۔ مگر اُنہوں نے ’’چور دروازے‘‘ سے اقتدار میں داخل ہوناگوارا نہیں کیا۔ یہ دعویٰ سرے سے غلط ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس حقائق رکھتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور کی کسی پیشکش کو جانچنے کی سہولتیں تو اتنی میسر نہیں مگر مشرف دور میں ہونے والی پیشکش کے درست ہونے کا اندازاہ تو اُس کے حقیقی کرداروں سے براہِ راست مل کر کیا جاسکتا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نجی محفلوں میں اس کے بالکل برخلاف کہانی سناتے ہیں۔ جو اُن کی سابق اہلیہ جمائما کے ساتھ اُن کے ناشتے پر جاکر ختم ہو جاتی ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ دراصل جمائما تب ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ عمران خان ایک رائیگاں سیاسی سفر کررہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ اُس خاتون نے جو واقعی عمران خان سے محبت کرتی تھی اُنہیں پلٹ آنے کا مشورہ دیا۔ مگر عمران خان نے سرابوں کے سفر میں کہیں منزل کا سراغ ڈھونڈ لیا تھا۔ اب اُن کے ایک ہاتھ پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہے اور دوسرے ہاتھ کی طرف ریحام خان۔اُنہیں عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے ایک مستقل ردِعمل طے کرنا ہے اور ریحام خان کے متعلق اُٹھے والے روز روز کے سوالات کو بھی سُلٹاتے رہنے کی اذیت سہنا ہے۔اُنہوں نے اپنے گرد یہ ماحول خود بُنا ہے ، یہ کسی اور کا ’’کارنامہ‘‘ نہیں۔

عمران خان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بات ’’کعبے‘‘ کی کرتے ہیں اور رہتے ’’صنم خانے‘‘ کے ماحول میں ہے۔ اُن کے تمام آدرش اُن کی عملی زندگی میں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ مثلاً وہ اکثر یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ جمائما کے ساتھ اُن کے مسائل کی ذمہ دار نون لیگ تھی۔ اگرچہ نون لیگ کبھی بھی اس محاذ پر ’’بااخلاق‘‘ ثابت نہیں ہوئی۔ مگر عمران خان کی یہ بات بھی بالکل درست نہیں۔اُن کی حقیقی زندگی کے تمام دعوے اور معاملات گہری چھان بین کا تقاضا کرتے ہیں اور ذرائع ابلاغ ’’سطحیت‘‘ کے ناقابلِ علاج مرض میں مبتلا ہے۔ اس سے بڑھ کر عمران خان کی حمایت اور مخالفت دونوں ہی معاملات پر ایک گہرا تعصب بھی پایا جاتا ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں ہر موقف کو ایک گروہی شناخت دے کر آلودہ کرنے کی ایک مہم جویانہ طبعیت بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اکثر حقائق نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ جمائما کا معاملہ بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے۔ جسے کم لوگوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ جمائما دراصل عمران خان کی سیاست سے مایوس ہوئی تھی اور وہ عمران خان کی اس محاذ پر کامیابی کے دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ اُن کا یہ شک نون لیگ کا پیدا کردہ نہیں تھا۔ بلکہ اُس ناشتے کا نتیجہ تھا جو موصوفہ نے جنرل(ر) مشرف کے ساتھ کیا تھا۔ جس میں پرویز مشرف نے جمائما کو عمران خان کی سیاسی نارسائیوں اور عوامی حمایت کی حقیقت کا پورا حال بتایا تھا۔ یہاں تک کہ میانوالی میں عمران خان کی اپنی اور ’’مہیا کردہ‘‘حمایت کا پورا ماجرا بھی بیان کردیا تھا۔ جمائما نے تب عمران خان کے حوالے سے اپنی زندگی پر نظرثانی شروع کردی تھی۔ عمران خان جتنا بھی انکار کریں وہ اس ملک کے وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے اتاؤلے بھی ۔اُن کے اسی اتاؤلے پن کا نتیجہ ’’ دھرنا‘‘بن کر نکلا۔اُن کی اسی نفسیات کے باعث اُنہیں اس جال میں پھانسا گیا۔

یہ دعویٰ غلط نہیں ہے کہ اس کے پیچھے کچھ ’’اداروں‘‘ کے مہم جو عناصر تھے۔ جنہیں حب الوطنی کے ذاتی تصور نے خبطِ عظمت میں مبتلا کردیا تھا۔ اور وہ سیاست دانوں کی نسل کو مملکت کے ایک ناسور کے طور پر دیکھتے تھے۔اُصولی طور پر انتخابات کے عدالتی کمیشن کے جائزے کے بعد دراصل دھرنے کے محرکات پر غور کے لئے ایک کمیشن کا قیام کسی بھی قیمت پر عمل میں لایا جانا چاہئے۔ چاہے اس کے نتیجے میں نوازشریف کو اپنی حکومت ہی کیوں نہ کھونی پڑے۔ مگر نوازشریف ایسا کبھی نہیں کریں گے۔اگر خوش حکمرانی نہ ہو، اور ریاستی وسائل کا من چاہا استعمال واستحصال ایک خبط بن چکا ہو تو پھر’’ دستِ وقت‘‘ پر بیعتِ شوق عقیدہ نہیں ایک مجبوری بن جاتا ہے۔چنانچہ میاں نواز شریف نے اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کا ایک درمیانی راستا نکال لیا ہے۔جو آصف علی زرداری کے دورِ حکمرانی سے زیادہ ’’عاجزانہ اور منکسرانہ‘‘ ہے۔نواز شریف کو اس راستے پر ڈالنے کے لئے بنیادی طور پر عمران خان کام آئے۔ اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دھرنامکمل ناکام نہیں ہوا ۔ بس اس نے عمران خان کے سیاسی عزائم کو پورا نہیں کیا ۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد عمران خان کے لئے اب سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ وہ کچھ ’’عناصر‘‘ کے ہاتھ کی چھڑی بن کر رہنا چاہتے ہیں یا اپنا راستا خود نکالنا چاہتے ہیں؟ اُنہیں نئے سفر پر نئے ’’رختِ سفر‘‘ اور نئے ’’عزم سفر‘‘ کے ساتھ ’’ازسرنو‘‘ اپنے ’’مقصدِ سفر‘‘ کوبھی ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عدالتی کمیشن کی اس طرح کی رپورٹیں بھی اپنا ایک عارضی تاثر قائم کرکے طاق نسیاں پر چلی جاتی ہے۔ یہاں سیاسی قلابازیوں کی گنجائشیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ کیوں کہ یہ معاشرہ ابھی تک اپنی اُصولی اور نظری اُٹھان کے ناگزیر سفر کے لئے تیار تک نہیں ہوا۔ اگر یہاں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کا سیاسی مستقبل اُن کی کسی بھی غلطی یا غلط روی سے داؤ پر نہیں لگتا تو عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی مکمل تباہ نہیں ہوسکتا۔مگر عمران خان اس کے لئے کتنے تیار ہیں؟ اس کا اندازا اُن کے عدالتی کمیشن پر ردِ عمل سے لگایا جاسکتا ہے۔ اُن کے اِسی ردِعمل کی روشنی میں اُن کی شخصیت کی تہہ داریوں میں کچھ مزید جھانکنے کی کوشش آئندہ تحریر میں کریں گے۔ مگر عمران خان کو اصل خطرہ عدالتی کمیشن کی کسی بھی نوع کی موجودہ یا آئندہ کی مسلسل کئی رپورٹوں سے نہیں بلکہ خود اپنے آپ سے ہے۔نکسن نے درست کہا تھا کہ لیڈر کو اصل لڑائی مخالفین سے نہیں بلکہ خود اپنے ہی مصنوعی اور تباہ کن خیالات سے لڑنی پڑتی ہے۔


متعلقہ خبریں


جنرل (ر) فیض کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کیا جائے، عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ وجود - بدھ 21 اگست 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...

جنرل (ر) فیض کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کیا جائے، عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان وجود - اتوار 30 اکتوبر 2022

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان وجود - هفته 17 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان

نئے آرمی چیف کا معاملہ نئی حکومت آنے تک موخر کردینا چاہیے،عمران خان وجود - منگل 13 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ اگر مخالفین الیکشن جیت جاتے ہیں تو پھر سپہ سالار کا انتخاب کر لیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں، نئی حکومت کے منتخب ہونے تک جنرل قمر باجوہ کوعہدے پر توسیع دی جائے۔ ...

نئے آرمی چیف کا معاملہ نئی حکومت آنے تک موخر کردینا چاہیے،عمران خان

اداروں اور جرنیلوں کوعمران کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے،آصف زرداری وجود - پیر 05 ستمبر 2022

سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...

اداروں اور جرنیلوں کوعمران کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے،آصف زرداری

اداروں کو بدنام کرنے کی عمران نیازی کی مہم نئی انتہا کو چھو رہی ہے، وزیراعظم وجود - پیر 05 ستمبر 2022

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اداروں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی عمران نیازی کی انتہائی قابل مذمت مہم ہر روز ایک نئی انتہا کو چھو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حساس پیشہ وارانہ امور کے بارے میں اور مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف اب وہ براہ راست کیچڑ اچھالتے ...

اداروں کو بدنام کرنے کی عمران نیازی کی مہم نئی انتہا کو چھو رہی ہے، وزیراعظم

میں ہر روز زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہوں ، عمران خان وجود - جمعرات 01 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہیرے بڑے سستے ہوتے ہیں، کوئی مہنگی چیز کی بات کرو۔ جمعرات کے روز عمران خان ، دہشت گردی کے مقدمہ میں اپنی ضمانت میں توسیع کے لیے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت میں پیشی کے بعد ایک صح...

میں ہر روز زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہوں ، عمران خان

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل اسلام آباد بنی گالہ چوک سے گرفتار وجود - منگل 09 اگست 2022

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو عاشور کے روز اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اُنہیں اسلام آباد بنی گالہ چوک سے گرفتار کیا گیا۔ شہباز گل کے خلاف تھانہ بنی گالہ میں بغاوت پر اُکسانے کا مقدمہ بھی درج کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز گل کی گرفتاری کے دوران ڈ...

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل اسلام آباد بنی گالہ چوک سے گرفتار

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر