... loading ...
دور، کہیں سے آواز آتی ہے، پھر ، پھر ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔کیا یہ دشتِ امکاں پھر نخلِ گماں میں بدل جائے گا؟ اے صبح کے خالق ،یقیں کے رب کیا پھر تیری امت شہرِ گماں کی اندھیر نگری کے حوالے ہو گی؟وہ شخص کہاں گیاجو کندھے پر رومال ڈالے قندھار سے ایسے نکلا تھاکہ اُسے دنیا کی کوئی پروا نہ تھی۔ایک مردِ کہستان نے ایک بندۂ صحرائی کے لئے اپنے اقتدار کو تج دیا تھا۔ پھر ایک لمبی جنگ کا آغاز ہوا۔ جسے مختلف فریقوں نے اپنے اپنے عقیدوں سے الگ الگ نام دیئے۔ بش کے لئے یہ کروسیڈٖ اور پھر لامتناہی انصاف تھی۔مگر مجاہدین کے لئے تو یہ جنگِ بدر سے چلا آتا مسلسل جہاد تھا۔ الفاظ جن سے بانکپن اُدھار لیتے ہیں۔ تاریخ جن سے افتخار پاتی ہیں۔ نسلیں جن سے بقا کا درس لیتی ہیں۔ راتیں جن سے صبح کرتی ہیں۔
دور کہیں سے آواز آتی ہے، پھر ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔ کیا یہ سفر رائیگا ں جائے گا؟ کیا یہ خون تاریخ میں کھیت رہے گا؟ کیا جنگ کے مکمل فاتح اپنے اندر کی جنگ ہار جائیں گے؟ہائے! ہائے یہ کُہستاں کی صد پارہ مسلمانی!ملاعمر آپ کہاں ہیں؟ آپ کہاں چلے گئے؟تاریخ ایک چکر کاٹ کر پھر وہیں آگئی جہاں سے ملاعمر نے آغاز کیا تھا۔ افغانستان ایک بار پھر اپنی تاریخ کو گلے لگانے لگا ہے۔ کاش وہ اخلاق باختہ اور روح فرسا مناظر دیکھنے کو پھر کبھی نہ ملیں جو سوویٹ یونین کی بربادی کے بعد افغان سرزمین پر مجاہدین کی باہم لڑائی سے اُبھرے تھے۔ اپنے اپنے اختیار اور اپنے اپنے حصے کی لڑائی ،جس نے کسی کے حصے میں کچھ باقی نہ رہنے دیا تھا۔ تب ، تب ہی تو ملاعمر نے تاریخ کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔
اندازوں اور اٹکلوں کے آسمان پر افغان حکومت نے بھی ملاعمر کی موت کی تائیدی پتنگ اڑادی ہے۔ مگر ایسے کہ کہیں طالبان کی کی تیز دھاڑتردیدی تار سے کٹ نہ جائے۔سوالات میں گھری طالبان شوریٰ نے اپنے لئے پیچیدگیوں کو مسلسل بڑھایا ہے۔ جسے وہ اپنی فطری سادگی سے ایک لمحے میں ختم کر سکتے تھے۔ مگر افسوس اُن میں کچھ ایسے لوگ گھر کر گئے جن پر قبائلی مزاج کا غلبہ ہے اور جو ازلی صداقتوں کو خاندانی عصبیتوں کے زہر ناک رویوں سے دیکھنے لگے ہیں۔وہ خود پر ایک مصنوعی پراسراریت غالب رکھتے ہیں۔جن کے کاروبار ہیں اور وہ نہایت مشکوک ہیں۔ اتحاد کی وہ لڑی اور کڑی رخصت ہوئی۔ افغانستان کے کہسار دائم جن کا ماتم کریں گے۔ملا عمر اب نہیں رہے۔ تمام آثار، قرائن اور شواہد اِسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کم لوگ جانتے ہیں کہ طالبان کے اندر طویل عرصے سے ایک مشاورت جاری ہے کہ ملاعمر کے جانشین کے طور پر کس نام کو آگے بڑھا یا جائے؟ طالبان اس خطرناک مرحلے سے گزرے بغیر ملاعمر کی موت کی تصدیق نہیں کرسکتے۔چنانچہ اٹکلوں کی اٹھکیلیاں جاری رہیں گی۔جتنے منہ اتنی باتیں۔
تفصیلات کالم کے دامن میں سمیٹی نہیں جاسکتی۔ انشاء اللہ کتاب کے ذریعے منظرِ عام پر آ جائینگی۔ مختصراً عرض ہے کہ ملاعمرکی آخری آڈیو 2007 میں منظر عام پر آئی تھی۔اُنہوں نے مذکورہ آڈیو میں افغان جہاد کے ایک رومانوی کمانڈر ملاداد اللہ منصور پر اپنے شکوک کا اظہار کیا تھا۔ ملاعمر کی پوری زندگی سے دلچسپی رکھنے اورمعلومات سینچ سینچ کر رکھنے کی مشق کے دوران جب اس آڈیو کی سماعت کی گئی تو حیرتوں کے پہاڑ اس خاکسار پر ٹوٹنے لگے۔ پھر طالبان کے اندر ہونے والی کشمکش کی اندرونی کہانی پر ازسرنو دھیان دیا گیا۔ درمیان سے کئی کڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ کتنے لوگ تھے جن کے رومان آخری ہچکیاں لے رہے تھے۔قبائلی عصبیت کے بیج ڈال دیئے گئے تھے۔ اور جو آج بہت پھل پھول گئے ہیں وہی تب اس کھیل کی پشت پر متحرک تھے۔ملاعمر بہت بیمار تھے۔ اُن پر یرقان کا شدید حملہ تھا۔ ایک خاندانی بیماری (جس کی تفصیلات غیرمطبوعہ کتاب میں تحریر کی گئی ہے)کے آثار بھی ظاہر ہورہے تھے۔ دھیرے دھیرے وہ فیصلے کی صلاحیت کھو رہے تھے۔تب اُن کے گرد جن عناصر نے گھیرا تنگ کیاتھا۔ وہ آج فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔پھر گمنامی کا ایک لمبا غوطہ ہے۔ جہاں وہ ایک پیغام رساں کے ذریعے کچھ معاملات کی عمل داری کرتے نظر آتے ہیں۔اس درمیان وہ کچھ لوگوں کی (جن کی سردست نشاندہی کی ضرورت نہیں)محفوظ تحویل میں اپنی زندگی کے صبح وشام کرتے رہے۔یہاں تک کہ اگست 2012 کو اُنہیں اُن کے خاندان کے سپر د کردیا گیا۔ تب وہ بہت بیمار تھے۔ اور اُن کی زندگی کے بارے میں مسیحاؤں کی حتمی رائے لی جاچکی تھی۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق ملاعمر اس بیماری میں جانبر نہ ہوسکے اور اپریل 2013 میں وہ زندگی کی جنگ بالاخر ہار گئے۔ اُن کے صاحبزادے مولوی یعقوب نے اس کی اطلاع طالبان شوریٰ کے دو ذمہ داران کو تب ہی دی تھی۔مگر تین لوگ اس کی پوری تفصیلات سے آگاہ تھے۔ملااختر منصور ، ملا عبدالقیوم ذاکر اورگل آغا۔ یہی وہ تین کردار ہیں جو 2007 سے ذرا پہلے حالات کی تشکیل میں اپنے خاکے کے مطابق بروئے کار آتے رہے۔ بعد کے تمام معاملات ان کے گرد گھومتے ہیں۔ ملاعمر سے نہایت قربت کی شہرت رکھنے والے طیب آغا صورتِ حال سے قطعی بے خبر تھے۔ وہ قطر میں ایک ایسے کھیل میں مصروف ہوگئے جس سے اُن پر شکوک بے حد بڑھ گئے تھے۔ بس یہیں سے بتدریج طالبان تحریک پر ایک قبائلی تسلط کو مستحکم کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئیں۔کچھ عناصر نے جس کا آغاز ملاعمر کے 2007 کے سمعی پیغام سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے تب ہی سے کر دیا تھا۔ آگے کالم کا دریچہ بند ہو جاتا ہے اور تاریخ کا در وازہ کھلتا ہے۔مگر اس دوران ایک اور رجحان بھی نظر آیا جو اس سے پہلے دور دور تک کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔ ملاعمر کے تین سگے بھائی تو زندہ نہ رہے تھے۔ البتہ اُن کے سوتیلے بھائی ابھی زندہ تھے۔ جو کچھ متحرک ہوگئے۔ اس دوران اُنہوں نے مختلف ملکوں کے سفر بھی کئے۔وہ افغانستان کے تزویراتی معاملات میں دلچسپی لینے لگے۔ اِن میں سب سے سمجھدار بھائی عبدالمنان تھے مگر وہ بھی بیماری کے باعث کچھ مجبوریوں سے دوچار تھے۔
ملاعمر کے 2002 تک کُل آٹھ بچوں میں سے سب سے بڑے بیٹے مولوی یعقوب اب ایک نہایت ہی اعلی شہرت کے حامل مدرسے سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔ جن کی عمر ایک اندازے کے مطابق بائیس سال ہے۔ ملاعمر نے اپنی زندگی کے آخری ایّام اُن کے ساتھ ہی گزارے تھے۔ مگر مولوی یعقوب نے اپنی تعلیم پر اس دوران پوری توجہ برقرار رکھی اوراُن امور میں بالکل دخل نہ دیا جو وہ افغانستان کے حوالے سے ہر روز دیکھتے آرہے تھے۔ طالبان شوریٰ کو یہ دیکھنا ہے کہ اودی آنکھوں اور بھورے بالوں کا یہ نہایت خوبرو نوجوان ملاعمر کا جانشین بن سکے گا یانہیں؟یا پھر وہ ملاعمر کی موت کا انکار کرکے ایک ابہام میں معاملات کو جوں کا توں رکھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔وہ کچھ بھی سوچے، اس ابہام اور حالت ِ انکار سے شوریٰ کے لئے نہایت خطرناک نتائج پیدا ہورہے ہیں۔ اس سے طالبان کے اندر ناراض عناصر میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور وہ بتدریج دھڑے بندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ یہ صورتِ حال طالبان کے دشمنوں کے لئے نہایت سازگار ہے۔اس کے بالکل بر عکس ملاعمر کی موت کی خبر کی تصدیق کے بعد کسی جانشین کے اعلان کے ساتھ اس غیر یقینی صورتِ حال کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ پھر طالبان نئی قیادت کے گرد مرکزیت اور اجتماعیت کی دعوت دینے کے اہل ہو جائیں گے۔اگر چہ پھر بھی ایک گروہ قدرے ناراض رہے گا مگر اُس کے اثرات نہایت محدود ہوجائیں گے۔ طالبان شوریٰ کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔کیا اپنے سے کئی گنا بڑھ کر دنیا کی سپر پاؤر کو ہر میدان میں شکست دینے والے طالبان اس اندرونی جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں بہت سے شکوک اُٹھتے ہیں۔تاریخ اُن شکوک کی تائید کرتی ہے۔ہائے! قبائل کی یہ صد پارہ مسلمانی اور پھر قبائلی عصبیت کا تیز رفتار فروغ۔ دشتِ امکاں میں یہ نخلِ گماں کی آبیاری۔۔ دور کہیں سے آواز آتی ہے، پھر ، پھر ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔ اے صبح کے خالق ،یقیں کے رب کیا پھر تیری امت شہرِ گماں کی اندھیر نگری کے حوالے ہو گی؟
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...