وجود

... loading ...

وجود

خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے!

منگل 29 اپریل 2025 خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے!

جاوید محمود

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد کے ایک حملے میں انڈین بحریہ کے افسر سمیت کم از کم 26سیاحوں کی ہلاکت کی نہ صرف انڈیا بلکہ عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ اسے 2019کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سب سے مہلک کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ مارے جانے والے فوجی یا سکیورٹی اہلکار نہیں بلکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سب سے خوبصورت وادی پہلگام میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے عام شہری تھے اور یہی بات اس حملے کو سفاکیت کا رنگ دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ناپاک اقدام بھی بتاتی ہے جس کا مقصد بظاہر اس متنازع خطے میں زندگی کو معمول پر لانے کی غرض سے انڈین حکومت کی برسوں پر محیط کوششوں کو تار تار کرتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انڈیا کا اس حملے پر رد عمل نہ صرف ماضی کی مثالوں بلکہ اندرونی دباؤ کی بنیاد پر بھی طے ہونے کا امکان ہے۔ ابتدائی طور پر انڈیا کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں دونوں ممالک کی مرکزی سرحدی گزرگاہ یعنی وا ہگہ بارڈر کی بندش سندھ طا س معاہدے کی معطلی اور سفارت کاروں کی بے دخلی شامل ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سخت جواب دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف اس حملے میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی بلکہ پس پردہ رہ کر یہ کاروائی کروانے والے منصوبہ سازوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت سوال یہ نہیں کہ کیا انڈیا کی جانب سے کوئی عسکری رد عمل دیا جائے گا یا نہیں بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ کب کتنا نپا تلا اور کس قیمت پر ہوگا ؟ انڈیا کے عسکری تاریخ دان سری نا تھ راکھون کے مطابق ایک سخت رد عمل کا خدشہ ہے جس کا مقصد نہ صرف انڈین عوام بلکہ پاکستان میں موجود عناصر کو پیغام دینا ہوگا۔ 2016 اور خاص طور پر 2019کے بعد سے سرحد پار فضائی حملوں کی صورت میں جوابی کاروائی کی حد مقرر کی جا چکی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اس بار انڈین حکومت کے لیے اس سے کسی کم پیمانے کی کاروائی کرنا مشکل ہوگا مگر پاکستان بھی ممکنہ طور پر جواب دے گا جیسا کہ اس نے ماضی میں دیا تھا اور اس سب میں واحد خطرہ ہمیشہ کی طرح دونوں ممالک کی جانب سے حساب کتاب کا غلط اندازہ ہوتا ہے۔ سری نا تھ کا اشارہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف 2016اور 2019میں کی گئی دو بڑی سرحد پار جوابی کاروائیوں کی طرف تھا ۔یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں اوڑی حملے کے بعد جس میں 19انڈین فوجی مارے گئے تھے ،انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے پار سرجیکل اسٹرائکس کی تھیں جن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح 2019 میں پلوامہ میں نیم فوجی دستوں کے کم از کم 40 اہلکاروں کے مارے جانے کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں عسکریت پسندوں کے کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ 1971کی جنگ کے بعد سے یہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کی سرحدی حدوں میں اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا ۔پاکستان کی جانب سے اس کا جواب دیا گیا اور انڈین طیارے کو مار گرایا گیا جبکہ انڈین پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر فریقین نے طاقت کا مظاہرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مکمل جنگ سے گریز بھی کیا۔ اس واقعے کے دو سال بعد 2021میں انڈیا اور پاکستان نے لائن اف کنٹرول پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے باوجود بڑی حد تک برقرار رہی ۔خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ پہلگام میں ہونے والے تازہ ترین حملے میں بڑی تعداد میں انڈین شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اگر دہلی کسی بھی سطح پر اس معاملے پر پاکستان کے ملوث ہونے کا تعین کرتا ہے یا محض یا فرض بھی کر لیتا ہے کہ پاکستان اس میں ملوث ہو سکتا ہے تو انڈیا کی جانب سے عسکری رد عمل دیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ دشمن کے خلاف ڈیٹرنس بحال ہوگی اور دوسرا فائدہ انڈیا مخالف خطرے میں کمی کی صورت میں ہوگا مگر جوابی کارروائی کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ سنگین بحران سر اٹھا سکتا ہے اور یہاں تک کہ براہ راست تصادم کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی ایلبنی یونیورسٹی کے کرسٹلفر کلنزی کا کہنا ہے کہ خفیہ کارروائیاں قابل قبول ہیں لیکن یہ ڈیٹرنس کی بحالی کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں انڈیا کے پاس دو ممکنہ راستے رہ جاتے ہیں ہونے والی فائرنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیے اجازت دے سکتے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ 2019 کی طرح فضائی حملے یا روایتی کروز میزائل حملوں کا امکان بھی موجود ہے جن میں سے ہر ایک میں جوابی کارروائی کا خطرہ ہے جیسا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد دیکھا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا کی سالمیت کا مطالعہ کرنے والے کرسٹیفرکلیری کے مطابق کوئی بھی راستہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ امریکہ بھی پریشان ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ پاکستان اور انڈیا کی درمیان کسی بھی بحران کی صورت میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ حقیقت فوجی یا سیاسی ہر فیصلے پر حاوی ہوتی ہے۔ سری نا تھ کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار ایک خطرہ اور جنگ کی جانب بڑھنے والے قدموں کے لیے ایک رکاوٹ بھی ہیں جو دونوں اطراف کے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان جوابی کاروائی کر سکتا ہے اور اس کے بعد وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ اب اسے کس جانب جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دوسرے تنازعات میں بھی یہی رجحان دیکھا ہے جیسے اسرائیل اور ایران کے درمیان حملے جس کے بعد کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن خطرہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں ویسی نہیں ہو پائیں گی جیسا سوچا جا رہا ہے۔ مائیکل کو گلمین کہتے ہیں کہ پلوامہ بحران کا ایک سبق یہ ہے کہ ہر ملک محدود جوابی کارروائی کرنے میں ہی سہولت اور آسانی سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کو جوابی کاروائی کے سیاسی اور اسٹریٹیجک فوائد کو سنگین بحران یا تنازع کے خطرے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔امریکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے اور انڈیا 2016 کی طرح محدود سرجیکل اسٹرائک پر غور کر سکتا ہے۔ انڈیا کے نقطہ نظر سے اس طرح کے حملوں کا فائدہ یہ ہے کہ ان کا دائرہ کار محدود ہے ۔اس لیے پاکستان کوجو اب دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بھی وہ انڈین عوام کو دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ انڈیا نے جواب دیا ہے اور ایک سخت کارروائی کی ہے ۔ان کے مطابق لیکن اس طرح کے حملے پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کاروائی کی دعوت دے سکتے ہیں جس کا استدلال ہے کہ جذباتی رد عمل دیتے ہوئے اس پر بغیر کسی تحقیقات یا ثبوت کے الزام لگایا جا رہا ہے۔ انڈیا جو بھی راستہ اختیار کرے گا اور پاکستان جو بھی جواب دے ہر قدم خطرے سے بھرا ہوا ہے۔ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی کشمیر میں امن کے قیام کی کوشش مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سری نا تھ کے مطابق اس کے ساتھ ہی انڈیا کو ان سکیورٹی ناکامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے یہ حملہ ہوا ۔سیاحتی سیزن کے عروج پر اس طرح کا حملہ ایک سنگین کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے ۔خاص طور پر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جہاں وفاقی حکومت براہ راست امن و امان کو کنٹرول کرتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کی جانب سے سندھ طا س معاہدے کو معطل کرنے کی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا جس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ 1916 میں عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا یہ معاہدہ کئی جنگوں بحرانوں اور تناؤ کے باوجود قائم رہا لیکن اب پہلی بار انڈیا نے اسے جزوی طور پر معطل کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پانی جیسے بنیادی وسیلے کو بطور دباؤ استعمال کرنے کو تیار ہے ۔اس کی معطلی کو ایک خطرناک پیش رفت کہا جا رہا ہے ۔پاکستان نے بار بار کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مزید ایکسکلیشن کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ مگر اس کے ساتھ پاکستان کے پاس یہ بھی معلومات ہیں کہ انڈیا آنے والے دنوں میں بلوچستان اور خیبر پختو خواں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھانے میں کردار ادا کرے گا۔ اگر انڈیا نے بات چیت کر کے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں ا سکتا ہے جو کہ عالمی برادری کے لیے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے! وجود منگل 29 اپریل 2025
خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے!

بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر وجود منگل 29 اپریل 2025
بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر

بھارتی مسلمانوں کی املاک نذرِ آتش وجود پیر 28 اپریل 2025
بھارتی مسلمانوں کی املاک نذرِ آتش

گوادر پر بڑی طاقتوں کی نظریں! وجود اتوار 27 اپریل 2025
گوادر پر بڑی طاقتوں کی نظریں!

پہلگام واقعے کے بعد 1500 کشمیری گرفتار وجود اتوار 27 اپریل 2025
پہلگام واقعے کے بعد 1500 کشمیری گرفتار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر