... loading ...
جاوید محمود
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد کے ایک حملے میں انڈین بحریہ کے افسر سمیت کم از کم 26سیاحوں کی ہلاکت کی نہ صرف انڈیا بلکہ عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ اسے 2019کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سب سے مہلک کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ مارے جانے والے فوجی یا سکیورٹی اہلکار نہیں بلکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سب سے خوبصورت وادی پہلگام میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے عام شہری تھے اور یہی بات اس حملے کو سفاکیت کا رنگ دینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ناپاک اقدام بھی بتاتی ہے جس کا مقصد بظاہر اس متنازع خطے میں زندگی کو معمول پر لانے کی غرض سے انڈین حکومت کی برسوں پر محیط کوششوں کو تار تار کرتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انڈیا کا اس حملے پر رد عمل نہ صرف ماضی کی مثالوں بلکہ اندرونی دباؤ کی بنیاد پر بھی طے ہونے کا امکان ہے۔ ابتدائی طور پر انڈیا کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں دونوں ممالک کی مرکزی سرحدی گزرگاہ یعنی وا ہگہ بارڈر کی بندش سندھ طا س معاہدے کی معطلی اور سفارت کاروں کی بے دخلی شامل ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سخت جواب دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف اس حملے میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی بلکہ پس پردہ رہ کر یہ کاروائی کروانے والے منصوبہ سازوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت سوال یہ نہیں کہ کیا انڈیا کی جانب سے کوئی عسکری رد عمل دیا جائے گا یا نہیں بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ کب کتنا نپا تلا اور کس قیمت پر ہوگا ؟ انڈیا کے عسکری تاریخ دان سری نا تھ راکھون کے مطابق ایک سخت رد عمل کا خدشہ ہے جس کا مقصد نہ صرف انڈین عوام بلکہ پاکستان میں موجود عناصر کو پیغام دینا ہوگا۔ 2016 اور خاص طور پر 2019کے بعد سے سرحد پار فضائی حملوں کی صورت میں جوابی کاروائی کی حد مقرر کی جا چکی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اس بار انڈین حکومت کے لیے اس سے کسی کم پیمانے کی کاروائی کرنا مشکل ہوگا مگر پاکستان بھی ممکنہ طور پر جواب دے گا جیسا کہ اس نے ماضی میں دیا تھا اور اس سب میں واحد خطرہ ہمیشہ کی طرح دونوں ممالک کی جانب سے حساب کتاب کا غلط اندازہ ہوتا ہے۔ سری نا تھ کا اشارہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف 2016اور 2019میں کی گئی دو بڑی سرحد پار جوابی کاروائیوں کی طرف تھا ۔یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں اوڑی حملے کے بعد جس میں 19انڈین فوجی مارے گئے تھے ،انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے پار سرجیکل اسٹرائکس کی تھیں جن میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح 2019 میں پلوامہ میں نیم فوجی دستوں کے کم از کم 40 اہلکاروں کے مارے جانے کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں عسکریت پسندوں کے کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ 1971کی جنگ کے بعد سے یہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کی سرحدی حدوں میں اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا ۔پاکستان کی جانب سے اس کا جواب دیا گیا اور انڈین طیارے کو مار گرایا گیا جبکہ انڈین پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر فریقین نے طاقت کا مظاہرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مکمل جنگ سے گریز بھی کیا۔ اس واقعے کے دو سال بعد 2021میں انڈیا اور پاکستان نے لائن اف کنٹرول پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملوں کے باوجود بڑی حد تک برقرار رہی ۔خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ پہلگام میں ہونے والے تازہ ترین حملے میں بڑی تعداد میں انڈین شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اگر دہلی کسی بھی سطح پر اس معاملے پر پاکستان کے ملوث ہونے کا تعین کرتا ہے یا محض یا فرض بھی کر لیتا ہے کہ پاکستان اس میں ملوث ہو سکتا ہے تو انڈیا کی جانب سے عسکری رد عمل دیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ دشمن کے خلاف ڈیٹرنس بحال ہوگی اور دوسرا فائدہ انڈیا مخالف خطرے میں کمی کی صورت میں ہوگا مگر جوابی کارروائی کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ سنگین بحران سر اٹھا سکتا ہے اور یہاں تک کہ براہ راست تصادم کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی ایلبنی یونیورسٹی کے کرسٹلفر کلنزی کا کہنا ہے کہ خفیہ کارروائیاں قابل قبول ہیں لیکن یہ ڈیٹرنس کی بحالی کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں انڈیا کے پاس دو ممکنہ راستے رہ جاتے ہیں ہونے والی فائرنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیے اجازت دے سکتے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ 2019 کی طرح فضائی حملے یا روایتی کروز میزائل حملوں کا امکان بھی موجود ہے جن میں سے ہر ایک میں جوابی کارروائی کا خطرہ ہے جیسا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد دیکھا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا کی سالمیت کا مطالعہ کرنے والے کرسٹیفرکلیری کے مطابق کوئی بھی راستہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ امریکہ بھی پریشان ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ پاکستان اور انڈیا کی درمیان کسی بھی بحران کی صورت میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ حقیقت فوجی یا سیاسی ہر فیصلے پر حاوی ہوتی ہے۔ سری نا تھ کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار ایک خطرہ اور جنگ کی جانب بڑھنے والے قدموں کے لیے ایک رکاوٹ بھی ہیں جو دونوں اطراف کے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان جوابی کاروائی کر سکتا ہے اور اس کے بعد وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ اب اسے کس جانب جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دوسرے تنازعات میں بھی یہی رجحان دیکھا ہے جیسے اسرائیل اور ایران کے درمیان حملے جس کے بعد کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن خطرہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں ویسی نہیں ہو پائیں گی جیسا سوچا جا رہا ہے۔ مائیکل کو گلمین کہتے ہیں کہ پلوامہ بحران کا ایک سبق یہ ہے کہ ہر ملک محدود جوابی کارروائی کرنے میں ہی سہولت اور آسانی سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کو جوابی کاروائی کے سیاسی اور اسٹریٹیجک فوائد کو سنگین بحران یا تنازع کے خطرے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔امریکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے اور انڈیا 2016 کی طرح محدود سرجیکل اسٹرائک پر غور کر سکتا ہے۔ انڈیا کے نقطہ نظر سے اس طرح کے حملوں کا فائدہ یہ ہے کہ ان کا دائرہ کار محدود ہے ۔اس لیے پاکستان کوجو اب دینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بھی وہ انڈین عوام کو دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ انڈیا نے جواب دیا ہے اور ایک سخت کارروائی کی ہے ۔ان کے مطابق لیکن اس طرح کے حملے پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کاروائی کی دعوت دے سکتے ہیں جس کا استدلال ہے کہ جذباتی رد عمل دیتے ہوئے اس پر بغیر کسی تحقیقات یا ثبوت کے الزام لگایا جا رہا ہے۔ انڈیا جو بھی راستہ اختیار کرے گا اور پاکستان جو بھی جواب دے ہر قدم خطرے سے بھرا ہوا ہے۔ کشیدگی بڑھنے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی کشمیر میں امن کے قیام کی کوشش مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سری نا تھ کے مطابق اس کے ساتھ ہی انڈیا کو ان سکیورٹی ناکامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے یہ حملہ ہوا ۔سیاحتی سیزن کے عروج پر اس طرح کا حملہ ایک سنگین کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے ۔خاص طور پر ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جہاں وفاقی حکومت براہ راست امن و امان کو کنٹرول کرتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کی جانب سے سندھ طا س معاہدے کو معطل کرنے کی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا جس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ 1916 میں عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا یہ معاہدہ کئی جنگوں بحرانوں اور تناؤ کے باوجود قائم رہا لیکن اب پہلی بار انڈیا نے اسے جزوی طور پر معطل کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پانی جیسے بنیادی وسیلے کو بطور دباؤ استعمال کرنے کو تیار ہے ۔اس کی معطلی کو ایک خطرناک پیش رفت کہا جا رہا ہے ۔پاکستان نے بار بار کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مزید ایکسکلیشن کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ مگر اس کے ساتھ پاکستان کے پاس یہ بھی معلومات ہیں کہ انڈیا آنے والے دنوں میں بلوچستان اور خیبر پختو خواں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھانے میں کردار ادا کرے گا۔ اگر انڈیا نے بات چیت کر کے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں ا سکتا ہے جو کہ عالمی برادری کے لیے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔