... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی دکانوں کو نذرآتش کردیا جس کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی،فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔دکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ قریبی تھانوں سے کمک طلب کی گئی۔حالات بگڑتے ہی پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور بے قابو ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا۔سینئر حکام صورتحال کی نگرانی کے لیے علاقے میں تعینات کر دئیے گئے۔علاوہ ازیں بھارتی ریاست کرناٹک میں وقف بل کیخلاف احتجاج میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ وقف مسلمانوں کا آئینی حق ہے ، اور ہم فاشسٹ طاقتوں کو یہ حق چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے۔شرکا نے نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہے ، ہم آئین کو مسخ نہیں ہونے دیں گے۔بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔ممتا بنرجی نے ایک کھلے خط میں کہا کہ مغربی بنگال کے لوگوں کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے تاکہ وہ ان کے جال میں نہ پھنسیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی اتحاد کا مقصد فسادات بھڑکانا ہے ،وہ انتخابی فائدے کے لیے ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
بی جے پی لیڈر اور نریاولی اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی پردیپ لاریا کا کہنا ہے کہ گاؤں کی ایک لڑکی کو ایک خاص طبقہ کا نوجوان اپنے ساتھ لے گیا، جس سے تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔مدھیہ پردیش واقع ساگر ضلع کے سنودھا علاقہ میں ہفتہ کے روز 2 طبقات میں تصادم نے تشدد والے حالات پیدا کر دیے۔ اکثریتی طبقہ نے ‘لو جہاد’ کا معاملہ بتا کر ہنگامہ شروع کیا، جس کے بعد علاقے میں خوف و دہشت پھیل گئی۔ کچھ مقامات پر توڑ پھوڑ اور آگ زنی کا واقعہ انجام دیا گیا، جس نے اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے درمیان تصادم والے حالات پیدا کر دیے۔ بتایا جاتا ہے کہ شورش پسندوں نے مقامی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور کچھ مکانات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی خبر جب سنودھا تھانہ پولیس کو ملی، تو وہ فوراً جائے وقوع پر پہنچی۔ حالات کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس نے مشتعل بھیڑ کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔حالات بگڑتے دیکھ قریبی تھانوں سے پولیس فورس بلایا گیا۔ مشتعل لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے اور ہلکی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے شورش پسندوں کو کھدیڑا گیا۔مودی سرکار کی جانب سے اتراکھنڈ میں مسلم مدارس پر کریک ڈاؤن جاری ہے، 170 سے زائد مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے 129 مدارس میں زیر تعلیم ہزاروں بچے تدریس سے محروم ہو گئے ہیں۔ اودھم سنگھ نگر، دہرادون اور نینی تال میں بھی پولیس اور انٹیلی جنس کی کارروائیوں سے مسلمانوں میں خوف کی لہر دوڑ کی گئی ہے، ہلدوانی کے علاقے بنبھول پورہ میں 7 مدارس بغیر نوٹس کے سیل کیے گئے۔
مودی سرکار کی سرپرستی میں دھامی حکومت نیا حربہ استعمال کر رہی ہے، مدارس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ ”شدت پسندی کا گڑھ” ہیں، دینی تعلیم کو دہشت گردی سے جوڑ کر بی جے پی حکومت اپنی فرقہ وارانہ سیاست کو چمکانے میں مصروف ہے، بھارت میں مدارس کو بند کرنے کا مقصد مودی سرکار کے ہندوتوا ایجنڈے کو طول دینا ہے، جو غیر قانونی ہے۔ وہ غیر قانونی ہی کہلائے گا لیکن مدارس کی رجسٹریشن کو سیاسی رنگ دینا افسوس ناک ہے، سول رائٹس تنظیموں، کانگرس اراکین اور مسلم رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر بند کرنے کے خلاف شفاف تحقیقات کی جائیں۔کانگریس رہنمائوں اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کی بندش کے پیچھے اصل مقصد مودی حکومت کے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔انتظامیہ کی جانب سے جن مدارس کو سیل کردیا گیا ہے وہ کئی دہائیوں سے فعال تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاست میں فی الحال فعال تقریباً 500 مدارس کو آنے والے دنوں میں بند کیا جا سکتا ہے۔ہلدوانی میں، ضلع انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن اور مقامی پولیس کے حکام پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم نے اتوار کو مسلم اکثریتی علاقے بنبھول پورہ میں ایک خصوصی معائنہ مہم چلائی۔ ٹیم نے بتایا کہ اس نے اداروں کے مناسب رجسٹریشن اور دیگر ریگولیٹری تقاضوں کی تعمیل کی جانچ کی۔ معائنہ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کئی مدرسے رجسٹرڈ نہیں تھے، جس کے نتیجے میں 7 مدرسوں کو سیل کر دیا گیا۔مدارس کو نشانہ بناتے ہوئے، دھامی نے کہا کہ تعلیم کے نام پر بچوں کو شدت پسندی کی طرف لے جانے والے اداروں کو ریاست میں کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ دھامی نے مدرسوں کو سیل کرنے کی کارروائیوں کو “ایک تاریخی قدم” قرار دیا۔ واضح رہے کہ ملک میں سرگرم ہندو قوم پرست لیڈران اور ہندوتوا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مدارس شدت پسندی کیلئے تیاری کے مراکز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔