... loading ...
آفتاب احمد خانزادہ
کافکا اپنی کہانی ”Before the Law” میںقانون کو ایک جسمانی جگہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پوری کہانی ایک شخص کے بارے میں ہے جو ایک گیٹ وے سے گزرنے کی کوشش کررہاہے جو اسے قانون میں داخل کردے گا۔”قانون کے سامنے ایک گیٹ کیپر کھڑا ہے ۔ اس گیٹ کیپر کے پاس ملک کاایک آدمی آتا ہے جوقانون میں داخلہ مانگتا ہے لیکن گیٹ کیپر کاکہنا ہے کہ وہ اس وقت داخلہ نہیں دے سکتا ۔ آدمی اس پر غور کر تا ہے اور پو چھتا ہے کہ کیا اسے بعد میں اجازت دی جائے گی ۔ ” یہ ممکن ہے ‘ ‘ گیٹ کیپر کہتا ہے ” لیکن اس وقت نہیں ” چونکہ گیٹ معمول کے مطابق کھلا ہے گیٹ کیپر ایک طرف بڑھتا ہے اس لیے آدمی گیٹ کے اندر جھانکنے کے لیے جھک سکتا ہے یہ دیکھ کر گیٹ کیپر ہنسا اورکہنے لگا اگر آپ چاہیں تو میرے منع کرنے کے باوجود اند ر جانے کی کوشش کریںلیکن خبرداررہو میں طاقتورہوں اور میں دروازے کے رکھوالوں میں سب سے زیادہ حلیم ہوں ۔ ہال سے ہال تک ایک کے بعد ایک گیٹ کیپر ہے ہر ایک آخری سے زیادہ طاقتور ہے تو وہ فیصلہ کرتاہے کہ جب تک اسے داخل ہونے کی اجازت نہ مل جائے انتظار کرنا بہتر ہے ۔گیٹ کیپر اسے ایک اسٹول دیتا ہے اور اسے دروازے کے ایک طرف بیٹھنے دیتا ہے وہاں وہ دنوں اور سالوں تک بیٹھتا ہے وہ داخلے کے لیے بہت کوششیں کرتاہے اور وہ گیٹ کے رکھوالے کواپنی بے صبری سے تھکا دیتا ہے ۔ گیٹ کیپر اکثر اس کیساتھ بہت کم بات چیت کرتا ہے وہ اس سے اسکے گھر اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں سوالات کرتا ہے لیکن سوالات لاتعلقی کے ساتھ ڈال دیئے جاتے ہیں ان کئی سالوںکے دوران آدمی اپنی توجہ تقریباً مسلسل گیٹ کیپر پر مرکو ز کرتا ہے ۔ وہ دوسرے دروازوںکے رکھوالوںکو بھول جاتاہے۔ وہ اپنی بدقسمتی پر لعنت بھیجتا ہے اپنے ابتدائی سالوں میںدلیری اور زور سے ،بعد میں جیسے جیسے وہ بوڑھا ہوتاہے وہ صرف اپنے آپ سے بڑ بڑاتا رہتا ہے۔ اس کا رویہ بچکا نہ ہوجاتاہے لمبے عرصے بعد اس کی بینائی ختم ہونے لگتی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ دنیا تاریک ہے یا اس کی آنکھیں اسے دھوکہ دے رہی ہیں ۔ پھر بھی وہ اپنی تاریکی میں قانون کے دروازے کی چمک سے واقف ہے۔ اب وہ اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب ہے ۔ مرنے سے پہلے ان طویل سالوں میں اس کے تمام تجربات اس کے سر میں ایک نقطہ پر جمع ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا سوال جو اس نے ابھی تک گیٹ کیپرسے نہیں پوچھا تھا۔ وہ اسے اپنے قریب بلاتاہے کیونکہ وہ اب اپنے اکڑے ہوئے جسم کو نہیں اٹھا سکتا ہے گیٹ کیپر کو اس کی طرف جھکتا پڑتا ہے۔” اب تم کیا جاننا چاہتے ہو” گیٹ کیپر نے پوچھا ” تم لاجواب ہو ہر کوئی قانو ن تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے”آدمی کہتاہے ” تویہ کیسے ہوتاہے کہ اتنے سالوں میں میرے علاوہ کسی نے داخلے کی بھیک نہیں مانگی ؟” گیٹ کیپر اس کے کان میں گرج کر بولا یہاں کسی اور کو داخل نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ گیٹ صرف تمہارے لیے بنا یا گیاہے۔ لہذا آخر میں کوئی اور نہیں ہے اور اب میں اسے بند کر نے جارہا ہوں ”۔کافکا کی اس کہانی میں ملک کا نام نہیں ہے لیکن اس شخص کے حالات وواقعات سے صاف لگتا ہے کہ یہ ایک پاکستان کے شخص کی کہانی ہے۔ رکئے یہ پاکستان کے ایک شخص کی کہانی بلکہ پاکستان کے25کروڑ انسانوں کی کہانی ہے۔ ان پچیس کروڑ انسانوں کی کہانی جو ساری عمر خوشحالی ، حقوق ، آزادی ، روزگار ، خوشیوں ، سکون، قانون اور انصاف کے دروازے کے باہر بیٹھے بیٹھے مر رہے ہیں لیکن پوری عمر وہ ان چیزوں کو حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔ ان سے پہلے بھی ان گنت لوگ اس دروازے کے آگے بیٹھے بیٹھے مر چکے ہیں لیکن انہیںبھی اس دروازے میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکی۔ انہیں ان چیزوں تک رسائی حاصل نہ ہوسکی ۔ وہ بھی انتظار کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے اور پھر مر گئے۔ انہیںیا ہمیں اس دروازے میں داخلے کی اجازت ملتی بھی کیسے کیونکہ یہ دروازہ ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ اس دروازے میں عام لوگوں کا داخلہ حرام قرار پایا ہواہے۔ اس دروازے میں صرف اور صرف ہمارے ملک کی ایلیٹ کلاس ہی داخل ہوتی ہے اورہوسکتی ہے۔
کتنے بیوقوف اوراحمق ہیں یہ25کروڑ انسان جو آج بھی داخلے کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ آج بھی اس ہی دروازے پر بیٹھے ہیں ۔ آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظارکررہے ہیں ۔ گیٹ کیپر کے آگے گڑگڑارہے ہیں ۔ دروازے میں داخلے کی بھیک مانگتے مانگتے تھک نہیں رہے ہیں ۔ روز گل سڑ رہے ہیں،فاقوںمیں زندگی گھسیٹ رہے ہیں خون تھوک تھوک کرعمراپنی تمام کررہے ہیں لیکن پھربھی اپنی جھوٹی آس اورامید کو مار نہیں رہے ہیں ۔ روز ایک نئی صبح کاانتظار کرتے ہیں حقیقت اور سچائی کوقبول کرنے کے انکاری بنے ہوئے ہیں ۔ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیںیہ ملک ان کیلئے نہیں بنا تھا۔ یہ ملک صرف چندسو خاندانوں کی عیاشیوں اور عیش و عشرت کے لیے بنا تھا۔ انگریزوں کے غلاموں کے لیے بنا تھا جو آ ج ملک کے آقا بنے پڑے ہیں ۔ اگر تم اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہو تو پھر ان چند سو خاندانوں کی داستان پڑھ لو یا کسی سے سن لو۔ یہ سب کے سب انگریزوں کی مخبری اور جی حضوری کیا کرتے تھے ۔ بدلے میں انہیں جاگیریں عطا کی گئیں سر کے خطاب نوازے گئے ۔ اگراب کوئی بھی شک ہے توکلیموں کی کہانیاں پڑھ لو ۔ یا درکھو تم صرف اورصرف ایندھن ہو ایلیٹ کلاس کی عیاشیوں اور عیش و عشرت قائم رکھنے کا ایندھن، اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہو۔ نہ تمہیں پہلے کبھی انسان تسلیم کیا گیا نہ ہی آج اورنہ ہی آنیوالے کل میں تسلیم کیا جائے گا ۔ کیونکہ اگر تمہیں انسان کادرجہ دیاجائے تو انسانوں کے حقوق ہوتے ہیں انہیں جینے کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان چاہئے ہوتاہے۔علاج ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ کی سہو لیا ت مہیا کی جاتی ہیں ۔ ان سے محبت کی جاتی ہے،ان کی عزت نفس کا احترام کیا جاتاہے۔تم ہی بتائو کہ تم سے امیرو کبیر لوگ محبت کرتے ہیںیا نفرت۔وہ تمہاری زندگیوں کو جنت بنارہے ہیں یادوزخ اور دوزخ بھی ایسی کہ روزاس کی آگ تیز پر تیز کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا کہ تمہاری پر یشانیوں ، مصیبتوں سے نہ توواقف ہیں اورنہ ہی انہیں تم سے کوئی دلچسپی ہے اور ہوبھی کیسے سکتی ہے انہو ں نے نہ کبھی مصیبتوں اور فاقوں کا سامنا کیا ہے نہ ہی تلملاتی ہوئی مائوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بچوں کو مایوسی کے عالم میں دودھ سے خالی چھاتیوں سے لگا تا دیکھا ہے ۔ وہ کیسے بھوک اور فاقوں ،اذیتوں کو جان سکتے ہیں۔ بھوکے پیٹ انتہائی خو د غرض ہوتے ہیں انہیںآج ہی روٹی چاہئے ہوتی ہے۔ وہ سونے کی روٹیوں کا انتظار نہیں کرسکتے ہیں ۔ جو زمین اس میں بسنے والوں کے پیٹ نہیں بھرتی ہے توپھر اس میں بسنے والے اس زمین میں زہر بھرنا شروع کر دیتے ہیں پھرکچھ عرصے بعد زمین سے گندم نہیں بلکہ زہرکی فصلیں اگتی ہیں پھر زمین اور ا نسان دونوں زہریلے ہوجاتے ہیں۔ زہر کسی کا دوست نہیں ہوتااور نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اسکا دل اور نہ ہی ذہن ۔ وہ وہ ہی کا کرتا ہے جو کرتاہے۔ اگر محلوں اور قلعوں میں رہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اوربے وقوف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔