وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کے عوام آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں!

هفته 26 اپریل 2025 پاکستان کے عوام آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں!

آفتاب احمد خانزادہ

کافکا اپنی کہانی ”Before the Law” میںقانون کو ایک جسمانی جگہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پوری کہانی ایک شخص کے بارے میں ہے جو ایک گیٹ وے سے گزرنے کی کوشش کررہاہے جو اسے قانون میں داخل کردے گا۔”قانون کے سامنے ایک گیٹ کیپر کھڑا ہے ۔ اس گیٹ کیپر کے پاس ملک کاایک آدمی آتا ہے جوقانون میں داخلہ مانگتا ہے لیکن گیٹ کیپر کاکہنا ہے کہ وہ اس وقت داخلہ نہیں دے سکتا ۔ آدمی اس پر غور کر تا ہے اور پو چھتا ہے کہ کیا اسے بعد میں اجازت دی جائے گی ۔ ” یہ ممکن ہے ‘ ‘ گیٹ کیپر کہتا ہے ” لیکن اس وقت نہیں ” چونکہ گیٹ معمول کے مطابق کھلا ہے گیٹ کیپر ایک طرف بڑھتا ہے اس لیے آدمی گیٹ کے اندر جھانکنے کے لیے جھک سکتا ہے یہ دیکھ کر گیٹ کیپر ہنسا اورکہنے لگا اگر آپ چاہیں تو میرے منع کرنے کے باوجود اند ر جانے کی کوشش کریںلیکن خبرداررہو میں طاقتورہوں اور میں دروازے کے رکھوالوں میں سب سے زیادہ حلیم ہوں ۔ ہال سے ہال تک ایک کے بعد ایک گیٹ کیپر ہے ہر ایک آخری سے زیادہ طاقتور ہے تو وہ فیصلہ کرتاہے کہ جب تک اسے داخل ہونے کی اجازت نہ مل جائے انتظار کرنا بہتر ہے ۔گیٹ کیپر اسے ایک اسٹول دیتا ہے اور اسے دروازے کے ایک طرف بیٹھنے دیتا ہے وہاں وہ دنوں اور سالوں تک بیٹھتا ہے وہ داخلے کے لیے بہت کوششیں کرتاہے اور وہ گیٹ کے رکھوالے کواپنی بے صبری سے تھکا دیتا ہے ۔ گیٹ کیپر اکثر اس کیساتھ بہت کم بات چیت کرتا ہے وہ اس سے اسکے گھر اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں سوالات کرتا ہے لیکن سوالات لاتعلقی کے ساتھ ڈال دیئے جاتے ہیں ان کئی سالوںکے دوران آدمی اپنی توجہ تقریباً مسلسل گیٹ کیپر پر مرکو ز کرتا ہے ۔ وہ دوسرے دروازوںکے رکھوالوںکو بھول جاتاہے۔ وہ اپنی بدقسمتی پر لعنت بھیجتا ہے اپنے ابتدائی سالوں میںدلیری اور زور سے ،بعد میں جیسے جیسے وہ بوڑھا ہوتاہے وہ صرف اپنے آپ سے بڑ بڑاتا رہتا ہے۔ اس کا رویہ بچکا نہ ہوجاتاہے لمبے عرصے بعد اس کی بینائی ختم ہونے لگتی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ دنیا تاریک ہے یا اس کی آنکھیں اسے دھوکہ دے رہی ہیں ۔ پھر بھی وہ اپنی تاریکی میں قانون کے دروازے کی چمک سے واقف ہے۔ اب وہ اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب ہے ۔ مرنے سے پہلے ان طویل سالوں میں اس کے تمام تجربات اس کے سر میں ایک نقطہ پر جمع ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا سوال جو اس نے ابھی تک گیٹ کیپرسے نہیں پوچھا تھا۔ وہ اسے اپنے قریب بلاتاہے کیونکہ وہ اب اپنے اکڑے ہوئے جسم کو نہیں اٹھا سکتا ہے گیٹ کیپر کو اس کی طرف جھکتا پڑتا ہے۔” اب تم کیا جاننا چاہتے ہو” گیٹ کیپر نے پوچھا ” تم لاجواب ہو ہر کوئی قانو ن تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے”آدمی کہتاہے ” تویہ کیسے ہوتاہے کہ اتنے سالوں میں میرے علاوہ کسی نے داخلے کی بھیک نہیں مانگی ؟” گیٹ کیپر اس کے کان میں گرج کر بولا یہاں کسی اور کو داخل نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ گیٹ صرف تمہارے لیے بنا یا گیاہے۔ لہذا آخر میں کوئی اور نہیں ہے اور اب میں اسے بند کر نے جارہا ہوں ”۔کافکا کی اس کہانی میں ملک کا نام نہیں ہے لیکن اس شخص کے حالات وواقعات سے صاف لگتا ہے کہ یہ ایک پاکستان کے شخص کی کہانی ہے۔ رکئے یہ پاکستان کے ایک شخص کی کہانی بلکہ پاکستان کے25کروڑ انسانوں کی کہانی ہے۔ ان پچیس کروڑ انسانوں کی کہانی جو ساری عمر خوشحالی ، حقوق ، آزادی ، روزگار ، خوشیوں ، سکون، قانون اور انصاف کے دروازے کے باہر بیٹھے بیٹھے مر رہے ہیں لیکن پوری عمر وہ ان چیزوں کو حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔ ان سے پہلے بھی ان گنت لوگ اس دروازے کے آگے بیٹھے بیٹھے مر چکے ہیں لیکن انہیںبھی اس دروازے میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکی۔ انہیں ان چیزوں تک رسائی حاصل نہ ہوسکی ۔ وہ بھی انتظار کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے اور پھر مر گئے۔ انہیںیا ہمیں اس دروازے میں داخلے کی اجازت ملتی بھی کیسے کیونکہ یہ دروازہ ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ اس دروازے میں عام لوگوں کا داخلہ حرام قرار پایا ہواہے۔ اس دروازے میں صرف اور صرف ہمارے ملک کی ایلیٹ کلاس ہی داخل ہوتی ہے اورہوسکتی ہے۔
کتنے بیوقوف اوراحمق ہیں یہ25کروڑ انسان جو آج بھی داخلے کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ آج بھی اس ہی دروازے پر بیٹھے ہیں ۔ آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظارکررہے ہیں ۔ گیٹ کیپر کے آگے گڑگڑارہے ہیں ۔ دروازے میں داخلے کی بھیک مانگتے مانگتے تھک نہیں رہے ہیں ۔ روز گل سڑ رہے ہیں،فاقوںمیں زندگی گھسیٹ رہے ہیں خون تھوک تھوک کرعمراپنی تمام کررہے ہیں لیکن پھربھی اپنی جھوٹی آس اورامید کو مار نہیں رہے ہیں ۔ روز ایک نئی صبح کاانتظار کرتے ہیں حقیقت اور سچائی کوقبول کرنے کے انکاری بنے ہوئے ہیں ۔ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیںیہ ملک ان کیلئے نہیں بنا تھا۔ یہ ملک صرف چندسو خاندانوں کی عیاشیوں اور عیش و عشرت کے لیے بنا تھا۔ انگریزوں کے غلاموں کے لیے بنا تھا جو آ ج ملک کے آقا بنے پڑے ہیں ۔ اگر تم اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہو تو پھر ان چند سو خاندانوں کی داستان پڑھ لو یا کسی سے سن لو۔ یہ سب کے سب انگریزوں کی مخبری اور جی حضوری کیا کرتے تھے ۔ بدلے میں انہیں جاگیریں عطا کی گئیں سر کے خطاب نوازے گئے ۔ اگراب کوئی بھی شک ہے توکلیموں کی کہانیاں پڑھ لو ۔ یا درکھو تم صرف اورصرف ایندھن ہو ایلیٹ کلاس کی عیاشیوں اور عیش و عشرت قائم رکھنے کا ایندھن، اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہو۔ نہ تمہیں پہلے کبھی انسان تسلیم کیا گیا نہ ہی آج اورنہ ہی آنیوالے کل میں تسلیم کیا جائے گا ۔ کیونکہ اگر تمہیں انسان کادرجہ دیاجائے تو انسانوں کے حقوق ہوتے ہیں انہیں جینے کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان چاہئے ہوتاہے۔علاج ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ کی سہو لیا ت مہیا کی جاتی ہیں ۔ ان سے محبت کی جاتی ہے،ان کی عزت نفس کا احترام کیا جاتاہے۔تم ہی بتائو کہ تم سے امیرو کبیر لوگ محبت کرتے ہیںیا نفرت۔وہ تمہاری زندگیوں کو جنت بنارہے ہیں یادوزخ اور دوزخ بھی ایسی کہ روزاس کی آگ تیز پر تیز کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا کہ تمہاری پر یشانیوں ، مصیبتوں سے نہ توواقف ہیں اورنہ ہی انہیں تم سے کوئی دلچسپی ہے اور ہوبھی کیسے سکتی ہے انہو ں نے نہ کبھی مصیبتوں اور فاقوں کا سامنا کیا ہے نہ ہی تلملاتی ہوئی مائوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بچوں کو مایوسی کے عالم میں دودھ سے خالی چھاتیوں سے لگا تا دیکھا ہے ۔ وہ کیسے بھوک اور فاقوں ،اذیتوں کو جان سکتے ہیں۔ بھوکے پیٹ انتہائی خو د غرض ہوتے ہیں انہیںآج ہی روٹی چاہئے ہوتی ہے۔ وہ سونے کی روٹیوں کا انتظار نہیں کرسکتے ہیں ۔ جو زمین اس میں بسنے والوں کے پیٹ نہیں بھرتی ہے توپھر اس میں بسنے والے اس زمین میں زہر بھرنا شروع کر دیتے ہیں پھرکچھ عرصے بعد زمین سے گندم نہیں بلکہ زہرکی فصلیں اگتی ہیں پھر زمین اور ا نسان دونوں زہریلے ہوجاتے ہیں۔ زہر کسی کا دوست نہیں ہوتااور نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اسکا دل اور نہ ہی ذہن ۔ وہ وہ ہی کا کرتا ہے جو کرتاہے۔ اگر محلوں اور قلعوں میں رہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اوربے وقوف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے عوام آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں! وجود هفته 26 اپریل 2025
پاکستان کے عوام آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں!

پاکستان میں دہشت گردی کی بھارتی منصوبہ بندی وجود هفته 26 اپریل 2025
پاکستان میں دہشت گردی کی بھارتی منصوبہ بندی

ترکیہ کا وقف نظام اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ وجود جمعه 25 اپریل 2025
ترکیہ کا وقف نظام اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ

پہلگام حملہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی وجود جمعه 25 اپریل 2025
پہلگام حملہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی

لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی وجود جمعه 25 اپریل 2025
لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر