وجود

... loading ...

وجود

لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی

جمعه 25 اپریل 2025 لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی

میری بات/روہیل اکبر

لاہور پاکستان کا دل ہے اور لاہور کا دل مال روڈ ہے جہاں گورنر ہائوس ، وزیر اعلیٰ ہائوس ،پنجاب اسمبلی ،ہائیکورٹ ،اسٹیٹ بینک ،واپڈا ہائوس،چڑیا گھر، فائیو سٹار ہوٹلز ،الحمرا آرٹ کونسل سمیت بے شمار اہم مقامات ہیں ہیں اور یہ تاریخی مال روڈ گزشتہ 17 روز سے بند ہے۔ اسی طرح لاہور کی دوسری اہم اور خوبصورت جگہ شملہ پہاڑی ہے جہاں پاکستان کا خوبصورت ترین پریس کلب ہے اور یہ دونوں مقامات احتجاجوں اور دھرنوں کی وجہ سے اکثر بند رہتے ہیں ۔میں نے کچھ عرصہ قبل فیصل چوک(چیئرنگ کراس )کو دھرنہ چوک کا نام دیا تھا جہاں آئے روز دھرنے چلتے رہتے تھے۔ آج کل پھر ان دونوں مقامات پر دھرنوں کا تماشا لگا ہوا ہے اور دونوں طرف سے ذلیل ورسوا عوام ہی ہورہی ہے۔ ان دھرنوں سے آج تک کسی حکمران کو کوئی فرق پڑا اور نہ ہی کسی بیوروکریٹ نے اس پر کوئی ایکشن لیا ان حالات میں ایک عدلیہ ہی رہ جاتی ہے جو ہر مشکل وقت میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ خواہ ماحولیات کا مسئلہ ہو یا سڑکوں پرلگائی جانے والی رکاوٹیں ہوں یا مال روڈ کو بند کرنے کا معاملہ ہو، یہ ہماری عدلیہ ہی ہے جس نے مال روڈ پر کسی بھی طرح کے احتجاج پر پابندی لگا رکھی ہے۔
عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کرانا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے جو ابھی تک تو مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور رہی بات حکومت کی اسے کوئی پرواہ ہی نہیں ہے کہ کوئی احتجاج کرے یا خود سوزی کر جائے ۔ان احتجاجی دھرنوں میں دونوں طرف سے نقصان عوام کا ہی ہو رہا ہے اور رہی بات مال روڈ کے کاروباری طبقہ کی انکی تو کمر ہی ٹوٹ چکی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے ۔مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن نے اسی طرح کے دھرنوں سے تنگ آکر احتجاج کرنے والوں پر انڈوں کی بارش کردی تھی۔ اب پھرمال روڈ پر وہی صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے اور کاروباری طبقہ سمیت عام لوگ بھی نکونک آچکے ہیں ۔ابھی تو محکمہ صحت والوں نے اپنے حقوق کے لیے مال روڈ کا گھیرائو کررکھا ہے۔ اس احتجاجی دھرنے میں شامل خواتین اور مرد بھی پریشان ہیں کہ ان کے احتجاج کا کسی کی صحت پر کوئی اثر ہی نہیں پڑ رہا۔ الٹا دھرنے میں شامل لوگوں کو باتھ روم جانے سے لے کر کھانے پینے تک کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ احتجاج کرنے والے اگر اپنے مطالبات کا درست حل چاہتے ہیں تو وزیر اعلیٰ کے گھر یا دفتر کے باہر دھرنہ دیں ،گورنرہائوس کے دروازے پر احتجاج کریں۔ چیف سیکریٹری کا راستہ روکیں تاکہ آپ کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے یا پھر آپ کو سبق سکھایا جائے ان جگہوں پر احتجاج کرنے سے فوری افاقہ ہوگا۔ اس کے علاوہ لاہور میں جس جگہ اور جہاں مرضی احتجاج کرلیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی، لیکن عوام اور آپ دونوں رل جائیں گے جیسا کہ ابھی ہورہا ہے لاہور کی کوئی ایک اہم سڑک بند ہو جائے تو پورا لاہور تقریبا بند ہو جاتا ہے اور عام آدمی پریشانیوں کی دلدل میں پھنسنے کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانیوں میں اضافہ اور کاروباری طبقہ پس چکا ہے، جتنے دھرنے اور احتجاج لاہور میں ہوتے ہیں اتنے پنجاب کے کسی اور شہر میں نہیں ہوتے۔
لاہور جوکبھی باغوں ،بہاروں ،پھولوں اور زندہ دلوں کا شہر تھا جو اپنی تاریخی اہمیت، ثقافت اور معیشت کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن اب یہ شہر دھرنوں اور احتجاجوں کے حوالہ سے جانا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے اور کاروباری طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ سڑکوں کی بندش اور رکاوٹوں کے باعث شہریوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دفاتر، اسکولوں اور کالجوں تک پہنچنا محال ہو گیا ہے جس سے طلباء کی تعلیم اور ملازمین کے کام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ٹریفک جام معمول بن چکا ہے اور لوگوں کو گھنٹوں سڑکوں پر خوار ہونا پڑتا ہے ۔دوسری جانب دھرنوں اور احتجاجوں نے کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تاجروں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ بہت سے چھوٹے کاروبار تو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔ان دھرنوں اور احتجاجوں کی وجہ سے شہر کا امن و امان بھی متاثر ہوا ہے۔ بعض اوقات مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آتی ہیں جس سے خوف و ہراس کی فضا پھیل جاتی ہے۔ شہری اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اوریہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے اس حق کا استعمال اس طرح کریں کہ اپنے ہی جیسے لوگوں کی زندگی کو مفلوج کرکے ہم خوش ہوتے رہیں ۔اس حوالہ سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے شہریوں کی مشکلات کم ہوں اور کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہ سکیں اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام فریقین افہام و تفہیم سے کام لیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں دھرنوں اور احتجاجوں کے متبادل طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی زندگی اور کاروبار متاثر نہ ہوں لاہور کے شہریوں اور کاروباری طبقے کو اس صورتحال سے نجات دلانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات ناگزیر ہیں۔
اپریل 2021 میں تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے باعث لاہور کے 18 مختلف مقامات پر دھرنے ہوئے تھے جس سے ٹریفک سمیت عام آدمی کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا تھا ۔لاہور ہی ایک واحد ایسا شہر ہے کہ جب کسی کا جہاں دل چاہے سڑک کے درمیان کھڑا ہوکر پوری سڑک بند کردے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو اس لیے اگر احتجاج کرنے والے اپنے مطالبات کے حق میں کوئی فوری ایکشن چاہتے ہیں تو براہ مہربانی عام لوگوں کا راستہ بند کرنے کی بجائے حکمرانوں اور افسر شاہی کا راستہ بند کریں تاکہ آپ کو اس کا فوری طور پر کوئی نہ کوئی حل نظر آئے اگر آپ نے خود بھی کھجل ہونا ہے اور ساتھ میںاپنے جیسے لوگوں کو بھی خرابکرنا ہے تو پھر بیٹھے رہیں دھرنا چوک میں جہاں شامیانے بھی لگے ہوئے ہیں اور بجلی سے چلنے والے پنکھے بھی گھوم رہے ہیں رہی بات لیٹرینوں کی اس کے لیے پورای کی پوری مال روڈ حاضر ہے جہاں مرضی اور جیسے مرضی گند ڈالیں نہ پہلے کسی نے پوچھا نہ اب پوچھیں گے اور پھر تھک ہار کر آپ خود ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے ۔رہی بات مال روڈ کے تاجروں کی وہاں ابھی تک تو خیر صلا ہے کیونکہ تاجروں کے صدر سہیل بٹ صاحب بھی حکومت کی طر ح فارم47والے ہیں۔ اس حوالہ سے جاوید بشیر اور فاروق آزاد ہی ہمت کریں تو مال روڈ کی خوبصورتی اور کاروبار بحال ہوسکتا ہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
ترکیہ کا وقف نظام اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ وجود جمعه 25 اپریل 2025
ترکیہ کا وقف نظام اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ

پہلگام حملہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی وجود جمعه 25 اپریل 2025
پہلگام حملہ بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی

لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی وجود جمعه 25 اپریل 2025
لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی

اردوزبان گنگا جمنا تہذیب کی علامت وجود جمعرات 24 اپریل 2025
اردوزبان گنگا جمنا تہذیب کی علامت

''اسرائیل مردہ باد'' ملین مارچ وجود بدھ 23 اپریل 2025
''اسرائیل مردہ باد'' ملین مارچ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر