... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
وقف کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے مودی سرکار کو جو مرچی لگی اس کا اندازہ نائب صدرجگدیپ دھنکر کے عدالتِ عظمیٰ پر حملے سے کیا جاسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں اپنے کسی نامعلوم فیصلے میں صدر جمہوریہ کے لیے ٣ماہ کے اندرایوان سے منظور ہوکر آنے والے بل پر فیصلہ لینے کی مدت کار طے کردی۔ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ آئین کے مطابق اس طرح کے فیصلے کرنے کا اسے حق ہے ۔ صدر مملکت نے تو اس پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی وزارت قانون نے اسے قابلِ مذمت جانا مگر چائے سے گرم کیتلی کی مصداق نائب صدر بگڑ گئے ۔ ان اندر چھپا جاٹ اس زور سے باہر آیا کہ سنی دیول بھی شرما گیا ۔ موصوف نے فرمایا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جب صدر مملکت کو طے شدہ مدت کار کے اندر فیصلہ لینے کے لئے کہا جا رہا ہے ۔ جناب دھنکر کے الفاظ میں ” ایک حالیہ فیصلے کے اندر صدر جمہوریہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ طے مدت میں فیصلہ کرلیں۔ ہمیں اس تعلق سے بے حد حساس ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم کسے حکم دے رہے ہیں اور کیسے دے رہے ہیں”۔
جگدیپ دھنکر کے مذکورہ بالا انداز سے ایسا لگتا ہے کہ گویا کسی ظلِ الٰہی کی توہین ہوگئی اور ان کا نائب اسے برداشت نہیں کرپایا اس لیے سراپا احتجاج بن گیا حالانکہ صدر مملکت بھی ملک کا ایک شہری ہے ۔ وہ کوئی غیر طبعی (نان بایولوجیکل) مخلوق نہیں ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کا احساس دلانا بلکہ پابند کرنا عدالتِ عظمیٰ تو دور عام شہریوں کا بھی حق ہے ۔ نائب صدرجمہوریہ کا یہ جملہ اس غلامانہ ذہنیت کا عکاس ہے جس میں لوگ خود سے بڑے عہدے دار کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور چھوٹوں کو اپنے سامنے جھکاتے ہیں۔ صدر مملکت کی آڑ میں دھنکر خود کو بھی تنقید و احتساب سے بالاتر سمجھنے کی تلقین کررہے ہیں ۔اس جاگیردارانہ ذہنیت میں بڑے عہدے پر پہنچ کر انسان خود کواعلیٰ اور دوسروں کو ادنی ٰسمجھنے لگتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو قانون یا عدالت سے بالاتر سمجھ کر مبنی بر انصاف فیصلوں کو اپنی اہانت گردانتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ اگر وقف جیسی کسی ایوانی دھاندلی کے خلاف عدالت سے رجوع کیاجائے تو عدلیہ پیمانۂ عدل بالائے طاق رکھ کر اکثریت کی رائے کے آگے جھک جائے ۔
الہ باد ہائی کے جسٹس شیکھر کمار یادونے تو وشو ہندو پریشد کے جلسہ عام میں ایوان پارلیمان کے بجائے اکثریتی فرقہ کی مرضی چلانے کی وکالت کرہی دی ہے ۔ اس کے بعدجب عدالت عظمی کے پینل نے سرزنش کے لیے طلب کیا تو ملازمت بچانے کی خاطربند کمرے میں معافی مانگ لی مگر باہر آکر مکر گئے اور ڈھٹائی سے اپنے موقف پر قائم رہنے کا اعلان فرما دیا ۔ یہ تو ہندوتوانوازوں کی ابن الوقتی اور دوغلاپن ہے۔ نائب صدر مملکت جگدیپ دھنکر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کئی سوالات کیے مثلاً:” یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ملک میں کیا ہو رہا ہے ؟ ”موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک وہیں جارہا ہے جہاں یہ سرکار لے جارہی ہے ۔ خود ان کی ناک کے نیچے مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے والا قانون بنادیا گیا اور چند گھنٹوں کے اندرصدر مملکت نے اپنی دستخط سے اس بل کو قانون میں تبدیل کردیا۔ موصوف کی صدارت میں ایوانِ بالا میں کسانوں کے خلاف قانون بناکر اسے واپس بھی لے لیاگیا۔این آر سی کا قانون منظور ہونے کے باوجود ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ ان واقعات سے نائب صدر جمہوریہ کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ملک کدھر جارہا ہے ؟
جگدیپ دھنکر کے پروچن میں ان زبان سے برسنے والے کانٹوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ موصوف نے فرمایا ”ہم نے یا ہمارے آئین کے معماروں نے اس دن کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ صدر جمہوریہ کو طے مدت میں فیصلہ لینے کرنے کے لئے کہا جائے گا اور اگر وہ فیصلہ نہیں کریں گے تو قانون خود بخود نافذ ہو جائے گا ۔ یہ نہایت تشویشناک بات ہے ۔ ”یہ بات کون نہیں جانتا صدر مملکت سمیت خود وہ بھی حکومت وقت کے اشارے پرکھیل دکھانے والی کٹھ پتلیاں ہیں ۔ اس کے باوجود اگر صدر مملکت کسی قانون پر شش و پنج میں مبتلا ہے تو سرکار کو اسے واپس لے لینا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو جسودھا بین کی طرح اسے معلق رکھنے کا کیا فائدہ؟ دھنکر کی اصل پریشانی تو وقف کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اعتراضات اور تبصروں پر تھی لیکن چونکہ اجلاس کا موضوع دوسرا تھا اس لیے نزلہ کسی اور بات پر اترا۔ ان کے نشانے پر بہر حال عدلیہ ہی تھا۔ اس سے قبل کالیجیم کے معاملے میں بھی وہ عدالتِ عظمیٰ پر سخت تنقید فرما چکے ہیں ۔
نائب صدرِ جمہوریہ جگدیپ دھنکر پیشے سے وکیل ہیں اور پھر سیاستداں بھی ہیں ۔ فی الحال وہ نائب صدر ہونے کے سبب ایوانِ بالا کی صدارت فرماتے ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ انہیں موجودہ سیاسی نظام کے نشیب و فراز کا علم ہوگا مگر ان کا احمقانہ بیان اس حقیقت کی تردید کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ وقف پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر سے اس قدر پریشان نہیں ہوتے ۔ عدالت نے تو سرکاری وکیل کے مطالبے پر چند ہدایات دی ہیں اس سے بھی اگر دھنکر کو پریشانی ہے تو انہیں سالیسیٹر جنرل سے پوچھنا چاہیے کہ آخر انہوں نے یہ تقاضہ کیوں کیا؟ وقف کا معاملہ پچھلے ٧ ماہ سے زیر بحث ہے اس کے باوجود حکومت کے وکیل کا چند غیر متوقع سوالات سے گھبرا جانا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس قانون میں دم نہیں ہے ۔ یہ اتنا کمزور ہے اس کا دفاع ناممکن ہے ۔ سپریم کورٹ کا اگلی تک زیر سماعت قضیہ کے نفاذ پر روک لگا نا فطری ہے ورنہ حکومت تاریخ پہ تاریخ لیتی رہتی اور متنازع قانون کی روشنی میں فیصلے بھی کرتی رہتی۔ سچ تو یہ ہے عدالت نے ابھی تک وقف پر کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن کوئی سابق وکیل فیصلے اور رعایت کے فرق کو نہ جانتا ہو اور اس پر شکریہ ادا کرنے بجائے شکایت کرنے لگے تو اس کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کیا کیا جائے ؟ دھنکر کی حماقت پر یہ شعر صادق آتا ہے ،وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے۔
جمہوریت کی دہائی دینے والے جگدیپ دھنکر ایک ساتھ ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان کو معطل کرنے کے سزا وار رہے ہیں۔مودی اور ان کے یہ بھگت (پیروکار) اختلاف سننے اور اس کو برداشت کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی ہر بات کے آگے نندی بیل کی مانند سرِ تسلیم خم کرلیا جائے ۔ ایسا نہ ہوتا تو موصوف یہ نہ کہتے کہ ہندوستانی آئین کے معماروں نے ایسی جمہوریت کا تصور نہیں کیا تھا، جہاں جج قانون بناتے ہوئے ایگزیکٹیو ذمہ داریاں نبھائیں گے ۔ یہ دیکھنا فکر انگیز ہوگا کہ جج ‘سپر پارلیمنٹ’ کی شکل میں کام کریں گے ۔ نائب صدر دھنکر نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اب جج قانون سازی سے متعلق چیزوں پر فیصلہ کریں گے ۔ وہی ایگزیکٹیو ذمہ داریاں نبھائیں گے ۔ ان کی کوئی جوابدہی بھی نہیں ہوگی، کیونکہ اس ملک کا قانون ان پر نافذ ہی نہیں ہوتا۔ کیا واقعی ایسا ہو گا۔ وقف سمیت سارے قانون ایوان پارلیمان میں بنتے ہیں ۔ عدالت تو بس آئینی درستگی کا جائزہ لیتی ہے ۔ ججوں کو قانون سے اوپر کہنا جھوٹ ہے کیونکہ کئی جج جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔
پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے ذریعہ منظور شدہ وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز پر سپریم کورٹ کے سخت سوالات نے ہندوتوا نوازوں کو چراغ پا کردیا ہے اور اس نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔کسی نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو ”شریعہ کورٹ آف انڈیا” لکھ دیا تو کسی نے سپریم کورٹ کے گنبد کو سبز رنگ میں دکھا کر اس پرچاند اور تارہ نصب کردیا ۔ایک نے کورٹ کے گنبد کو مسجد کا بنادیا۔ نگیندر پانڈے نے اس کے اکثریت مخالف ہونے دعویٰ کرکے پوچھا اس کی طاقت اکثریت کے خلاف ہی کیوں چلتی ہے ؟ سی اے راجیو گپتانام کے ایک یوزر نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سبھی حدوں کو پار کرلیاہے ، ان کا مواخذہ کیا جانا چاہئے ۔ اسی یوزر نے چیف جسٹس کے اس بیان کو بھی شیئر کیا ہے کہ” انگریزوں کی حکومت سے قبل مسجدوں کو رجسٹر کرنے کا انتظام نہیں تھا۔ بہت ساری مسجدیں 13ویں،14ویں اور15ویں صدی میں تعمیر کی گئی توکیا کہ سرکار چاہتی ہے لوگ ان مساجد کے کاغذات دکھائیں”۔
سوشل میڈیا پر بات ا تنی بڑھی کہ ایک صاحب نے مطالبہ کردیا ‘سپریم کوٹھا بند کرو؟’ وہ کہتا ہے سپریم کورٹ کوٹھا بن چکی ہے جو صرف مسلمانوں کے حق میں فیصلے کرتی ہے ۔ کسی نے سیکولرزم کی دہائی دیتے ہوئے لکھا کہ اگر وقف بورڈ جیسا ادارہ سیکولر ہندوستان میں قائم ہوتا تو وہ آئین کا مذاق ہے ۔ اس احمق کو نہیں معلوم کہ ہندووں کو بورڈ میں شامل کرنے کی خاطر مرکزی سرکار نے اسے غیر مذہبی ادارہ قرار دیا ہے۔ رام مندر کے حق میں بلیک میل سے اپنے حق میں نااصانی کرانے والے کل تک سپریم کورٹ کی تعریف کرتے تھے اور مندر کے لیے آستھا یعنی عقیدہ کو بنیاد بناتے تھے لیکن قدرت نے ایک ایسا موقع پیدا کیا کہ یہ خود اپنی تردید کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ان ہندوتوا نوازوں کا ملک کے انصاف پسندوں نے سوشل میڈیا پر منہ توڑ جواب دے کر ان کے گال لال کردئیے ہیں ۔ ان بیچاروں نے تو گویا آخری فیصلے سے قبل ہی ہار مان لی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔