... loading ...
حمیداللہ بھٹی
اسپین اورڈنمارک گھومنے کے بعدیہ سطور سوئیڈن کے شہر مالمو سے تحریرکررہا ہوں ۔اِس دوران تارکینِ وطن کی جن محافل میں شرکت کا موقع ملاہے ،اُن میں اسلام آباد کے اجتماع کابہت تذکرہ ہواجس میں تائید سے زیادہ تنقیدکاپہلوغالب ر ہا ۔اکثریت متفق نظرآئی کہ اِس سے کچھ خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے اوریہ کہ اِس کامقصددراصل تاکینِ وطن میں پی ٹی آئی کو حاصل مقبولیت کا توڑ کرناتھا۔ المختصراِس بناپریہ پہلا اجتماع تھا جس میں سویلین اور عسکری قیادت دونوں ہی نہ صرف شامل ہوئیں بلکہ ملکی معاملات سے آگاہی دینے کے ساتھ قومی ترجیحات کے حوالے سے تارکین کو اعتماد میں لیالیکن یہ اجتماع کیا ملکی معیشت کے لیے نئے امکانات کو جنم دے گا؟اِس سوال کا ہاں میں جواب درست نہیں ہو گا۔
اسلام آباد کے اجتماع کو تاکینِ وطن کا اِس بناپرنمائندہ نہیںکہہ سکتے کیونکہ پہلی ایک دو لائینوں کے بعد بیٹھے زیادہ تر لوگ حکمران جماعتوں کے عہدیدا ر وکارکن تھے جو نہ صرف خود تارکینِ وطن کے لبادے میں دارالحکومت پہنچ کر ریاستی مہمان بنے بلکہ ہم خیال لوگوں کو اسلام آباد لانے کے لیے بھی متحرک رہے۔ سوئیڈن کے شہر مالمو میں میرے اعزاز میں منعقد ہونے والے عشایئے میں شامل ایک اہم کاروباری نے یہ بتا کر مجھے حیران کردیا کہ کئی پاکستانیوں کی انھوں نے اسلام آباد جانے کی کمپیوٹر پرصرف ٹکٹس بنائیں تاکہ میزبانوں کومطمئن کیا جا سے لیکن وہ پاکستان نہیں گئے تو پھر ایسے اجتماع کوبھلا نمائندہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ جس میں شامل اکثریت کاتعلق حکمران جماعتوں سے ہو۔ اگر فرانس سے آنے والے لوگوں کی بھیجی ٹکٹس کی جانچ پڑتال کرائی جائے تو عدم شرکت کا با آسانی پتہ لگایاجا سکتا ہے۔
اجتماع میںبڑے طمطراق سے اعلان کیا گیا کہ تارکینِ وطن دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آئیں گے مگر راقم کے علم میں جو حقائق آئے ہیں اُن سے ایسے کسی اندازے کی تائید نہیں ہوتی کہ دس ارب ڈالرتوکُجاسرمایہ کاری کے نام پر پانچ ارب روپے ہی لائے جاسکیں گے کیونکہ اول تو شرکا کی اکثریت بیرونِ ملک سے پاکستان نہیں آئی اور جو چند درجن آئے اُن میں بھی سرمایہ کار اورکاروباری کم تھے زیادہ ترمعمولی ملازمت پیشہ یامزدور تھے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ دس ارب سرمایہ کاری کی بات محض زیبِ داستان ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔
یہ درست ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا ہے، خاص طورپرتارکینِ وطن نے گزشتہ ماہ مارچ میں ریکارڈ چار ارب ڈالرزسے زائدکی رقوم پاکستان بھیجیں۔تاریخ میں پہلی بار کسی مہینے چارارب ڈالر کی حدعبورکرناایک منفردریکارڈہے جس کے تناظرمیں اڑتیس ارب ڈالرکا تخمینہ لگایاگیاہے لیکن رقوم بڑھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مارچ کے آخر پر عید کا تہوار تھا۔ تہواروں پرقبل ازیں بھی عام حالات سے زیادہ پیسے بھیجے جاتے ہیں۔ دراصل گزشتہ تین چار برسوں سے ملک کے ابتر معاشی حالات اور بے روزگاری بڑھنے سے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے باہر جانے میں تیزی آئی ہے ۔اِس دوران سمندربُرد ہونے اور دیگر مشکلات کاشکارہوکر سینکڑوں پاکستانی اپنی جانوں سے محروم بھی ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیرونِ ملک جابسنے والوںکی تعداد سواکروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی شامل ہے ۔جوں جوں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ترسیلاتِ زربھی بڑھتی جا رہی ہیں جسے بہرحال حکومت پر اعتماد کہنا درست نہیں بلکہ یہ برین ڈرین ہے جوحکومتی ناکامی کی طرف اِشارہ کرتا ہے جسے برین گین کہنا حقائق کوجھٹلانا ہے۔
ترسیلاتِ زر کی ایک اور وجہ ہنڈی حوالے کی حوصلہ شکنی ہے۔ اِس طرح بینکوں سے رقوم بھیجنے کا رجحان بڑھا ،یوں مستند دستاویزی اعدادو شمار سامنے آئے۔ ترسیلاتِ زر کاکریڈٹ لینے کاحکومتی دعویٰ اِس بناپربھی غیر حقیقی ہے کہ اِس میں حکومت کا کوئی کردارنہیں۔ اگر حکومت کچھ کرنے کی خواہشمندہے تو ذریعہ تعلیم میں اصلاحات لائے تاکہ بیرونِ ملک جانے والے کو ہُنرمند بنانے کے مواقع ملیں اور غیرملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرناآسان ہو۔اِس وقت توحالات یہ ہیں کہ زیادہ ترپاکستانی ہُنر اور غیرملکی زبانوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے بیرونِ ملک جا کر مزدوری کرنے تک محدود ہیں جو آمدن کومحدودکرنے کے ساتھ روز وشب کی مشکلات بنانے کی اہم وجہ ہے۔ مشکل حالات میں پاکستان کے سفارتی مشن بھی ہم وطنوں کی مدد نہیں کرتے ۔مذکورہ بالا مشکلات ختم کرنے سے نہ صرف ترسیلاتِ زر میں اضافہ ممکن ہے بلکہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اکثریت جواِس وقت صرف مزدوری کرنے تک محدود ہے وہ کامیابی کے نئے امکانات تلاش کرسکتی ہے۔
فائلر میں شمار کرنے،زیادہ فارن ایکسچینج بھیجنے پر ہر برس پندرہ سول ایوارڈدینے،مقدمات کی ای فائلنگ،شواہدکی ای ریکارڈنگ جیسی مراعات کا اعلان کرنے کے ساتھ تارکینِ وطن کے بچوں کے لیے وفاقی یونیورسٹیوں میں پانچ جبکہ میڈیکل کالجوں میں پندرہ فیصدکوٹہ رکھنے اور اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو اوورسیزپاکستانی خواتین ملازمت حاصل کرنا چاہتی ہیں اُن کے لیے عمر کی حد پانچ سال سے بڑھا کر دس کردی گئی ہے۔ یہ اعلانات ومراعات بظاہر خوشنما ہیں مگر اِن سے فوائد کی بجائے طبقاتی تفریق میں اضافہ ہو سکتاہے ۔تارکینِ وطن کے اصل مسائل یہ ہیں کہ اُن پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنانے کی حوصلہ شکنی ہو اوراِس کے لیے کوئی نتیجہ خیز طریقہ کاربنایاجائے ،ہوتا یہ ہے کہ کسی نوعیت کی کاروائی کرانا مقصود ہو تو بے گناہ ہونے کے باوجودبیرونِ ملک مقیم افراد کو اِس لیے مشورے جیسے الزامات میں نامزد کردیا جاتا ہے تاکہ اُنھیں پریشان کیا جا سکے مگر یہ قباحت بے داغ کیریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی راہ بند کرتی ہے جس سے بیرونِ ملک رہائش حاصل کرنامشکل ہوجاتاہے۔ جھوٹے مقدمات کاسلسلہ روکنے سے بے داغ کیریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کرناآسان ہوگاکیونکہ کسی کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔ نوجوانوں کو ہُنر مندبنانے اور غیر ملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنے کے اِدارے بناناضروری ہے اِس طرح مستقل بنیادوں پر ترسیلاتِ زرمیں اضافہ ممکن ہے ۔
یہ سب کچھ معاشی استحکام کا پھر بھی نعم البدل نہیں معاشی مشکلات کاحل یہ ہے کہ برآمدات اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری بڑھانے پر توجہ دی جائے ۔آج بھی سچ یہ ہے کہ ملکی سطح پر گرتی ہوئی پیداوار برآمدات بڑھانے میں رکاوٹ ہے ۔حکومتی اقدامات کے باوجود اب بھی عوام مہنگائی کا شکارہیں بے روزگاری الگ عذاب ہے۔ تارکینِ وطن جو سرمایہ پاکستان بھیجتے ہیں وہ بھی تعمیری مقاصد پرصرف نہیں کیا جاتا۔ اکثر بڑے بڑے گھر بنانے پر صرف کردیا جاتا ہے حکومت اگر توجہ دے توترسیلاتِ زرکارُخ چھوٹی صنعتوں کی طرف موڑاجاسکتاہے اِس طرح نہ صرف پیداواری شعبے میں بہتری آئے گی بلکہ روزگارکے نئے مواقع پیداہوں گے جس سے بے روزگاری اور مہنگائی کا مسلہ حل ہو گا جس کے نتیجے میں حکومت پرعوامی دبائو میں کمی آئے گی جو سیاسی استحکام کاموجب ہوسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔