وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کا ایٹم بم آنکھوں کا کانٹا

منگل 08 اپریل 2025 پاکستان کا ایٹم بم آنکھوں کا کانٹا

جاوید محمود

پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی پاکستان دشمن طاقتوں نے پاکستان کے محسنوں کو ایک ایک کر کے اپنے راستے سے ہٹانا شروع کر دیا، ان شخصیات میں لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام بھی آتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ نصف صدی میں عالمی سلامتی کے حوالے سے عبدالقدیر خان ایک اہم ترین شخصیت تھے ۔ ان کی ذات دنیا کی خطرناک ترین ٹیکنالوجی کے حوالے سے جاری لڑائی جہاں یہ ٹیکنالوجی رکھنے والے اور اس کے حاصل کرنے والے خواہشمند آمنے سامنے ہیں اس کہانی کا ایک اہم محور تھی۔ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جارج ٹیننٹ نے اے کیو خان کو کم از کم اسامہ بن لادن جتنا خطرناک قرار دیا تھا ۔انہوں نے یہ موازنہ اس وقت پیش کیا تھا جب یہ پتہ لگ چکا تھا کہ اسامہ بن لادن 911 حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ڈاکٹراے کیو خان کو مغربی جاسوس دنیا کا سب سے خطرناک انسان قرار دیتے ہیں لیکن اپنے وطن پاکستان میں انہیں ایک قومی ہیرو کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ یہ چیز آپ کو نہ صرف ان کی شخصیت کی پیچیدگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کو کس نظر سے دیکھتی ہے ۔70کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ میں ایٹمی جاسوس بن کر نہیں آئے تھے لیکن وہ ایک جاسوس بن گئے تھے ۔وہ 1970 کی دہائی میں نیدرلینڈ میں کام کر رہے تھے جب ان کے ملک پاکستان نے 1971 کی جنگ میں شکست کے بعد اور انڈیا کی ایٹمی ترقی سے خوفزدہ ہو کر ایٹم یم بنانے کی مہم شروع کی تھی۔ ڈاکٹر خان ایک یورپی کمپنی میں یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز بنانے کے کام میں شامل تھے۔ افزودہ یورینیم کو ایٹمی تونائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اسے ایک حد سے زیادہ افزودہ کیا جائے تو اس سے ایٹمی بم بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دور کے جدید سینٹری فیوجز کے ڈیزائن نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے ملک واپس لوٹ آئے ،جہاں انہوں نے ایک خفیہ نیٹ ورک تشکیل دیا جس میں بیشتر یورپی کاروباری افراد تھے جو انہیں ایٹمی بم اور سینٹری فیوجز کی تیاری کے لیے اہم ترین اجزاء سپلائی کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اکثر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت وہ اس پروگرام کے انتہائی اہم ارکان میں سے ایک تھے مگر انہوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی ایک کہانی تیار کی جس نے انہیں انڈیا کے خطرے کے خلاف پاکستان کی حفاظت کے لیے ایٹم بم تیار کرنے والے قومی ہیرو کا درجہ دیا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اور کیا کام کرتے تھے جس نے انہیں اتنا اہم بنا دیا۔ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے اجزاء فراہم کرنے والے اپنے خفیہ نیٹ ورک کو درآمد سے برآمد کی طرف موڑ دیا اور وہ دنیا بھر میں گھومنے والی ایک شخصیت بن گئے اور انہوں نے کئی ممالک کے ساتھ معاہدے اور سودے کیے۔ ان میں سے بہت سے ممالک کو مغربی ممالک باغی ریاستیں سمجھتے تھے۔ ایران کے شہر نطنز میں ایٹمی پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کی تیاری کا پروگرام جو حالیہ برسوں میں شدید عالمی سفارت کاری کی ایک وجہ بنا رہا ہے اس کا نمایاں حصہ عبدالقدیر کے فراہم کردہ ڈیزائن اور مواد سے بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان ئے ایک درجن سے زائد شمالی کوریا کے بھی دورے کیے تھے ان تمام دوروں کے ساتھ ایک راز ہمیشہ رہا کہ کیا عبدالقدیر خان یہ سب کچھ اکیلے کر رہے تھے یا وہ اپنی حکومت کے احکامات کے تحت کام کررہے تھے خاص طور پر شمالی کوریا کے ساتھ معاہدہ کے معاملے میں کبھی یہ بھی کہا گیا کہ عبدالقدیر خان یہ سب کچھ پیسوں کی لالچ میں کر رہے تھے لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے وہ اپنے ملک کی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں پر مغربی ممالک کی اجارہ داری کو توڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر مغربی ممالک کی اجارہ داری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مغربی منافقت قرار دیا تھا اور سوال کیا تھا کہ چند ممالک کو اپنے تحفظ و دفاع کے لیے یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت کیوں دی جانی چاہیے اور دوسروں کو کیوں نہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ میں پاگل یا بے وقوف انسان نہیں وہ مجھے ناپسند کرتے ہیں اور وہ میرے خلاف ہر طرح کے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں کیونکہ میں نے ان کے اسٹریٹیجک منصوبوں کو خراب کر دیا ہے۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی سکس اور امریکی سی آئی اے نے عبدالقدیر خان کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ انہوں نے ان کے بین الاقوامی دوروں پر نظر رکھنا شروع کر دی۔ ان کی فون کالز کوٹیپ اور پکڑنا شروع کر دیا اور ان کے نیٹ ورک میں گھس گئے اور اس کے لیے انہوں نے اے کیو خان کے نیٹ ورک میں شامل افراد کو بھاری رقوم کی پیشکش بھی کی بعض مواقع پر کم از کم 10 لاکھ ڈالرز تک رقم کی پیشکش کی گئی تاکہ ان کے نیٹ ورک کے ارکان کو اپنا ایجنٹ بنایا جا سکے اور ان کے رازوں کو حاصل کیا جا سکے۔
ایک سی آئی اے اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم ان کے گھر کے اندر تھے۔ ہم ان کے دفاتر میں تھے۔ ہم ان کے کمروں میں تھے۔ 911 کے حملوں کے بعد خطرہ بڑھ گیا تھا کہ دہشت گرد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی مشکل اور پیچیدگی پاکستان سے لپٹنے اور اسے ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ کرنے میں تھی ۔مارچ 2003 میں جب برطانیہ اور امریکہ عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی وجہ سے حملہ کر رہے تھے جن کا بعد ازاں کوئی وجود نہیں نکلا۔ لیبیا کے رہنما کرنل قذافی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہیں اپنے ایٹمی پروگرام کے منصوبے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ ایم آئی سکس اور سی آئی اے کے خفیہ دورے کی وجہ بنا اور جلد ہی اس معاہدے کے عوامی اعلان کے بعد اس نے امریکہ کو ایک اہم موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان پر زور دے کہ وہ عبدالقدیر خان کے خلاف کاروائی کرے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس کے نتیجے میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور انہیں ٹی وی پرا کر اعتراف جرم کرنے پر بھی مجبور کیا گیا ۔انہوں نے اپنی بقیہ زندگی ایک عجیب صورتحال میں بسر کی جہاں وہ نہ آزاد تھے نہ ہی قید ۔انہیں آج بھی پاکستانی عوام کے جانب سے ایٹم بم بنانے پر ملکی ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں بیرونی دنیا کا سفر کرنے اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر وہ کارنامہ انجام دیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن اس کے بدلے میں انہیں جو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی پاکستانی قوم کو اس کا رنج ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم بھارت سمیت پاکستان کے دشمنوںکی آنکھوں کا کانٹا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر