وجود

... loading ...

وجود

بلوچوں کے حقوق اور دہشت گردی!

منگل 18 مارچ 2025 بلوچوں کے حقوق اور دہشت گردی!

جاوید محمود

بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ سے چار روز قبل امریکا نے اپنے شہریوں کو پاکستان جانے کے لیے وارننگ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جن علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جانے سے گریز کیا جائے ابھی وارننگ کی گونج تھمی ہی نہیں تھی کہ بلوچستان میں کالعدم بلوچ لبریشن کی جانب سے کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین کو ہائی جیک کرنے اورمسافروں کویرغمال بنانے کی خبر کی بازگشت امریکہ میں سنی گئی ۔امریکہ کے تمام نیوز چینل نے اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پیش کیا اس خبر کے ابتدا سے لے کر اس کے انجام تک امریکہ میں مقیم پاکستانی ذہنی تناؤ کا شکار رہے۔ خیال رہے بی ایل اے پر پہلے ہی پاکستان اور امریکہ پابندی عائد کر چکے ہیں۔
بلوچستان میں عسکریت پسندی کی ابتدا بلوچستان کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی ہو گئی تھی جب ریاست قلات کے پرنس کریم نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اس کے بعد 1960 کی دہائی میں جب نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت بھی صوبے میں ایک چھوٹی عسکریت پسند تحریک اٹھی تھی ۔بلوچستان میں منظم اور ایک فلسفے کے تحت عسکریت پسندی کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا جب بلوچستان کی پہلی منتخب اسمبلی اور حکومت کو معطل کیا گیا اس وقت سردار عطااللہ مینگل صوبے کے وزیر اعلیٰ اور میرغوث بخش بزنجو گورنر تھے۔ جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا ۔
اس وقت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی قیادت میں نواب خیر بخش مری اور شیر محمد عرف شیروف مری کے نام سر فہرست تھے ۔ان دنوں بھی بی ایل اے کا نام منظر عام پر آیا تھا بلوچستان کی پہلی اسمبلی اور حکومت کو صرف 10 ماہ میں برطرف کر دیا گیا تھا اور غوث بخش بزنجو عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری سمیت نیشنل پارٹی کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا تھا جسے حیدرآباد سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر رضوان زیب فرائیڈڈ ٹائمز اخبار میں اپنے مضمون دی رائٹس اف ریزنمنٹ میں لکھتے ہیں کہ صوبے میں حکومت کی برتری کے چھ ہفتے بعد حکومتی فورسز اور قافلوں پر حملے شروع ہو گئے تھے۔ ان کے مطابق جولائی 1974 تک عسکریت پسند کئی سڑکوں کا کنٹرول حاصل کر چکے تھے اور ملک کے دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا تھا ٹرین سروس بھی متاثر ہوئی تھی قلات اورخضدار سے لے کرلسبیلہ تک وسطی بلوچستان میں مینگل حاوی تھے منظرنامہ میں اس وقت تبدیلی آئی جب پاکستان ایئر فورس نے تین ستمبر 1974کو چما لیگ پر حملہ کیا جس میں 125 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے اور 900 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور فوجی آمر ضیاء الحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظرمیں چلی گئی۔ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب دسمبر 2005میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے کوہلو کے دورے کے دوران راکٹ داغے گئے اور اس کے بعد فرنٹیئر کور کے ایک ہیلی کاپٹرپر فائرنگ ہوئی۔ اس وقت نواب خیربخش مری کے افغانستان میں مقیم بیٹے بالاچ مری کا نام بی ایل اے کے کمانڈر کے طور پر سامنے آنے لگا ۔نواب اکبر بگٹی جب پہاڑوں پر گئے تو بالاچ مری ان کے ساتھ رابطے میں رہے۔ 21نومبر 2017کو بالاچ مری افغانستان میں ایک سڑک کے قریب ایک آپریشن کے دوران مارے گئے۔ بی ایل اے کے حملوں میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب مجید بریگیڈ فدائی مشن میں جدت اور شدت پیدا کرنے کی بڑی وجہ بنے اور وہ بلوچ شدت پسندی کو پہاڑوں سے شہروں بالخصوص کراچی تک لے گئے۔ بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبدین کے قریب کیا تھا۔ جس میں چینی کمپنی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ 2013میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کا قیام عمل میں آیا اور بلوچستان بالخصوص گوادر بندرگاہ کو اس کا حصہ بنایا گیا ۔اس کے بعد مسلح جماعتوں نے چینی مفادات کو اپنا ہدف بنانا شروع کر دیا۔ بی ایل اے کے مجید برگیڈ نے سب سے زیادہ پولیس فوج اور چینی باشندوں کو ٹارگٹ بنایا اور ان کا سب سے بڑا آپریشن ٹرین ہائی جیکنگ کا ہے۔ بی ایل اے بلوچ راجی جوئی سنگر یا براس نامی بلوچ شدت پسند تنظیموں کے ایک اتحاد کا بھی حصہ بنی تھی۔ براس کے قیام کا باضابطہ اعلان 10 نومبر 2018 کو کیا گیا تھا جس میں ابتدائی طور پر بی ایل اے بلوچستان لبریشن فرنٹ بی ایل ایف اور بلوچ ریپبلکن گارڈز بی آر جی شامل تھیں حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں درجنوں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ مارچ 2000 سے لے کر اب تک 17491 دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ان واقعات میں اعداد و شمار کے مطابق 22103 سویلین ہلاک ہوئے جبکہ 9405 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 35653 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ۔
المیہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی بلوچوں کے احساس محرومی کا حل تلاش کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں کیا جس کا نتیجہ نکلا ہے کہ علیحدگی پسند تنظیموں نے بیرونی طاقتوں کا سہارا لے کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ امریکہ میں قائم گروپ سکھ فار جسٹس نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے پیچھے بھارتی ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف خفیہ جنگ چھیڑ رہا ہے ۔مودی کا ہندوستان صرف علاقائی خطرہ نہیں ہے بلکہ ایک دہشت گرد حکومت ہے۔ مودی حکومت بین الاقوامی سطح پر پرتشدد تحریک میں مصروف ہے ۔پنو نے کہا کہ بلوچستان ٹرین حملہ بھارت کے جارحانہ دفاعی نظریے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت خفیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ بھارت غیر ملکیوں کو مارنے انتہا پسندی اور سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت آگ کونظر انداز کر کے دھواں پکڑنے میں مصروف رہے۔ بلوچستان میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک بلوچوں کااحساس محرومی کا ختم نہ کیا جائے۔ بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی معدنیات پر بلوچوں کا حق ہے۔ انہیں ان کا پورا کا پورا حق دیا جائے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک سے نکلنے والی نوکریوں پر سب سے پہلا حق بلوچوں کا ہے انہیں اس حق سے محروم کرنے سے علیحدگی پسندی کو آکسیجن مل رہی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بے پناہ قدرتی وسائل رکھتا ہے۔ بشمول معدنی ذخائر جس کا تخمینہ ایک ٹریلین سے زیادہ ہے۔ ان وسائل کی صلاحیت کوذہانت سے کھولنا پاکستان کی معیشت میں انقلاب لانے کی طاقت رکھتا ہے۔ قدرتی وسائل کی دولت دو بھاری تلوار ہے۔ اگر وقت گزرنے کے ساتھ اسے نظر انداز کیا جائے تو یہ فائدہ اور بوجھ دونوں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی دانش مندانہ انتظامیہ اور مساوی تقسیم خطے میں دولت اور ترقی لا سکتی ہے۔ ناخوشگوار تنازات اور بین الاقوامی عدم توازن کے امکانات کو کم کر سکتی ہے۔ صرف قدرتی وسائل ہی ملک کی معیشت کو تقویت دینے میں مدد کر سکتے ہیں ۔ بہترادارے قانون کی حکمرانی اور قابل حکمرانی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بناتی ہے ۔واضح رہے کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہو سکتا ۔بندوقیں گولیاں ان مسائل کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ یہ سنہری موقع ہے کہ بلوچوں کے بنیادی حقوق ان تک پہنچائے جائیں ۔یہی پاکستان کی بقا اور سلامتی کے حق میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بلوچوں کے حقوق اور دہشت گردی! وجود منگل 18 مارچ 2025
بلوچوں کے حقوق اور دہشت گردی!

جعلی ویڈیوز کے ذریعے بھارتی میڈیا کا زہر وجود منگل 18 مارچ 2025
جعلی ویڈیوز کے ذریعے بھارتی میڈیا کا زہر

اتحاد و استقامت ۔۔یوکرین اور غزہ کا فرق وجود منگل 18 مارچ 2025
اتحاد و استقامت ۔۔یوکرین اور غزہ کا فرق

اندرکی تاریکیاں وجود پیر 17 مارچ 2025
اندرکی تاریکیاں

ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام وجود پیر 17 مارچ 2025
ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر