... loading ...
جاوید محمود
بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ سے چار روز قبل امریکا نے اپنے شہریوں کو پاکستان جانے کے لیے وارننگ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جن علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جانے سے گریز کیا جائے ابھی وارننگ کی گونج تھمی ہی نہیں تھی کہ بلوچستان میں کالعدم بلوچ لبریشن کی جانب سے کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین کو ہائی جیک کرنے اورمسافروں کویرغمال بنانے کی خبر کی بازگشت امریکہ میں سنی گئی ۔امریکہ کے تمام نیوز چینل نے اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پیش کیا اس خبر کے ابتدا سے لے کر اس کے انجام تک امریکہ میں مقیم پاکستانی ذہنی تناؤ کا شکار رہے۔ خیال رہے بی ایل اے پر پہلے ہی پاکستان اور امریکہ پابندی عائد کر چکے ہیں۔
بلوچستان میں عسکریت پسندی کی ابتدا بلوچستان کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی ہو گئی تھی جب ریاست قلات کے پرنس کریم نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اس کے بعد 1960 کی دہائی میں جب نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت بھی صوبے میں ایک چھوٹی عسکریت پسند تحریک اٹھی تھی ۔بلوچستان میں منظم اور ایک فلسفے کے تحت عسکریت پسندی کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا جب بلوچستان کی پہلی منتخب اسمبلی اور حکومت کو معطل کیا گیا اس وقت سردار عطااللہ مینگل صوبے کے وزیر اعلیٰ اور میرغوث بخش بزنجو گورنر تھے۔ جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا ۔
اس وقت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی قیادت میں نواب خیر بخش مری اور شیر محمد عرف شیروف مری کے نام سر فہرست تھے ۔ان دنوں بھی بی ایل اے کا نام منظر عام پر آیا تھا بلوچستان کی پہلی اسمبلی اور حکومت کو صرف 10 ماہ میں برطرف کر دیا گیا تھا اور غوث بخش بزنجو عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری سمیت نیشنل پارٹی کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا تھا جسے حیدرآباد سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر رضوان زیب فرائیڈڈ ٹائمز اخبار میں اپنے مضمون دی رائٹس اف ریزنمنٹ میں لکھتے ہیں کہ صوبے میں حکومت کی برتری کے چھ ہفتے بعد حکومتی فورسز اور قافلوں پر حملے شروع ہو گئے تھے۔ ان کے مطابق جولائی 1974 تک عسکریت پسند کئی سڑکوں کا کنٹرول حاصل کر چکے تھے اور ملک کے دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا تھا ٹرین سروس بھی متاثر ہوئی تھی قلات اورخضدار سے لے کرلسبیلہ تک وسطی بلوچستان میں مینگل حاوی تھے منظرنامہ میں اس وقت تبدیلی آئی جب پاکستان ایئر فورس نے تین ستمبر 1974کو چما لیگ پر حملہ کیا جس میں 125 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے اور 900 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور فوجی آمر ضیاء الحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظرمیں چلی گئی۔ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب دسمبر 2005میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے کوہلو کے دورے کے دوران راکٹ داغے گئے اور اس کے بعد فرنٹیئر کور کے ایک ہیلی کاپٹرپر فائرنگ ہوئی۔ اس وقت نواب خیربخش مری کے افغانستان میں مقیم بیٹے بالاچ مری کا نام بی ایل اے کے کمانڈر کے طور پر سامنے آنے لگا ۔نواب اکبر بگٹی جب پہاڑوں پر گئے تو بالاچ مری ان کے ساتھ رابطے میں رہے۔ 21نومبر 2017کو بالاچ مری افغانستان میں ایک سڑک کے قریب ایک آپریشن کے دوران مارے گئے۔ بی ایل اے کے حملوں میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب مجید بریگیڈ فدائی مشن میں جدت اور شدت پیدا کرنے کی بڑی وجہ بنے اور وہ بلوچ شدت پسندی کو پہاڑوں سے شہروں بالخصوص کراچی تک لے گئے۔ بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبدین کے قریب کیا تھا۔ جس میں چینی کمپنی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ 2013میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کا قیام عمل میں آیا اور بلوچستان بالخصوص گوادر بندرگاہ کو اس کا حصہ بنایا گیا ۔اس کے بعد مسلح جماعتوں نے چینی مفادات کو اپنا ہدف بنانا شروع کر دیا۔ بی ایل اے کے مجید برگیڈ نے سب سے زیادہ پولیس فوج اور چینی باشندوں کو ٹارگٹ بنایا اور ان کا سب سے بڑا آپریشن ٹرین ہائی جیکنگ کا ہے۔ بی ایل اے بلوچ راجی جوئی سنگر یا براس نامی بلوچ شدت پسند تنظیموں کے ایک اتحاد کا بھی حصہ بنی تھی۔ براس کے قیام کا باضابطہ اعلان 10 نومبر 2018 کو کیا گیا تھا جس میں ابتدائی طور پر بی ایل اے بلوچستان لبریشن فرنٹ بی ایل ایف اور بلوچ ریپبلکن گارڈز بی آر جی شامل تھیں حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں درجنوں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ مارچ 2000 سے لے کر اب تک 17491 دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ان واقعات میں اعداد و شمار کے مطابق 22103 سویلین ہلاک ہوئے جبکہ 9405 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 35653 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ۔
المیہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی بلوچوں کے احساس محرومی کا حل تلاش کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں کیا جس کا نتیجہ نکلا ہے کہ علیحدگی پسند تنظیموں نے بیرونی طاقتوں کا سہارا لے کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ امریکہ میں قائم گروپ سکھ فار جسٹس نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے پیچھے بھارتی ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف خفیہ جنگ چھیڑ رہا ہے ۔مودی کا ہندوستان صرف علاقائی خطرہ نہیں ہے بلکہ ایک دہشت گرد حکومت ہے۔ مودی حکومت بین الاقوامی سطح پر پرتشدد تحریک میں مصروف ہے ۔پنو نے کہا کہ بلوچستان ٹرین حملہ بھارت کے جارحانہ دفاعی نظریے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت خفیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ بھارت غیر ملکیوں کو مارنے انتہا پسندی اور سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت آگ کونظر انداز کر کے دھواں پکڑنے میں مصروف رہے۔ بلوچستان میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک بلوچوں کااحساس محرومی کا ختم نہ کیا جائے۔ بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی معدنیات پر بلوچوں کا حق ہے۔ انہیں ان کا پورا کا پورا حق دیا جائے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک سے نکلنے والی نوکریوں پر سب سے پہلا حق بلوچوں کا ہے انہیں اس حق سے محروم کرنے سے علیحدگی پسندی کو آکسیجن مل رہی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بے پناہ قدرتی وسائل رکھتا ہے۔ بشمول معدنی ذخائر جس کا تخمینہ ایک ٹریلین سے زیادہ ہے۔ ان وسائل کی صلاحیت کوذہانت سے کھولنا پاکستان کی معیشت میں انقلاب لانے کی طاقت رکھتا ہے۔ قدرتی وسائل کی دولت دو بھاری تلوار ہے۔ اگر وقت گزرنے کے ساتھ اسے نظر انداز کیا جائے تو یہ فائدہ اور بوجھ دونوں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی دانش مندانہ انتظامیہ اور مساوی تقسیم خطے میں دولت اور ترقی لا سکتی ہے۔ ناخوشگوار تنازات اور بین الاقوامی عدم توازن کے امکانات کو کم کر سکتی ہے۔ صرف قدرتی وسائل ہی ملک کی معیشت کو تقویت دینے میں مدد کر سکتے ہیں ۔ بہترادارے قانون کی حکمرانی اور قابل حکمرانی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بناتی ہے ۔واضح رہے کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہو سکتا ۔بندوقیں گولیاں ان مسائل کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ یہ سنہری موقع ہے کہ بلوچوں کے بنیادی حقوق ان تک پہنچائے جائیں ۔یہی پاکستان کی بقا اور سلامتی کے حق میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔