... loading ...
ریاض احمدچودھری
امسال بھارت کے 76ویں یوم جمہوریہ پر لندن میں خالصتان کے حامیوں نے ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا اور علیحدہ ملک کے قیام کے حق میں نعرے بازی کی۔ جشن کا آغاز پر بھارت کا پرچم اور ترانہ چلایا گیا اور پھر ہائی کمشنر نے تقریر کی، اس دوران ہائی کمیشن کی عمارت کے باہر خالصتان کے حامی جمع ہوئے اور انہوں نے نعرے بازی کی، شرکا نے بھارتی حکومت پر سکھ رہنماؤں کے قتل کا الزام عائد کیا اور عالمی برادری سے خالصتان کے قیام میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو لندن میں قیام کے دوران احتجاج کا سامناکرنا پڑا۔خالصتان کے حامی سکھوں کی ایک بڑی تعداد نے اس وقت احتجاجی مظاہرہ کیا جب ایس جے شنکر لندن کے چتھم ہاؤس تھنک ٹینک میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد کار میں جا رہے تھے۔ مظاہرین نے خالصتان کے حق میں اور بی جے پی کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ اس دوران بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ گروپ میں سے ایک شخص جے شنکر کی گاڑی کی جانب بھاگا اور پھر پولیس افسران کے سامنے بھارتی پرچم پھاڑ دیا جس کے بعد مذکورہ شخص کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔اس دوران بھارت کے حامی افراد اور خالصتان کے حامیوں کے درمیان کشیدگی ہوئی تاہم نوبت ایک دوسرے کے خلاف نعروں تک ہی محدود رہی، خالصتان کے رہنماؤں نے بھارتی پنجاب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا اور بھارت کی پالیسیوں اور خاص طور پر اقلیتوں کے ساتھ رواں رکھے گئے سلوک پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔جب بھی سکھوں کی خود مختاری یا خالصتان کا مطالبہ اٹھتا ہے، سب کی توجہ بھارتی پنجاب کی طرف مبذول ہوتی ہے۔گرو نانک دیو کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب آج کے پاکستان میں ہے۔ یہ علاقہ غیر منقسم ہندوستان کا حصہ تھا جس کی وجہ سے اسے سکھوں کی مادر وطن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بھارت میں سکھوں کی بغاوت یا مسلح جدوجہد کا دور 1995 میں ختم ہوا۔حالیہ دنوں میں اکالی دل کے رکن پارلیمنٹ سمرن جیت سنگھ مان اور دل خالصہ جمہوری اور پرامن طریقے سے اس کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔امریکہ میں کام کرنے والی تنظیم ‘سکھ فار جسٹس’ نے بھی خالصتان کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، ان تمام تنظیموں کو انڈین پنجاب میں صرف ایک محدود حمایت حاصل ہے۔
خالصتان کا لفظ پہلی بار 1940 میں سامنے آیا تھا۔ اسے ڈاکٹر ویر سنگھ بھٹی نے مسلم لیگ کے لاہور مینیفیسٹو کے جواب میں ایک پمفلٹ میں استعمال کیا۔اس کے بعد، اکالی رہنماؤں نے 1966 میں لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تنظیم نو سے پہلے، 60 کی دہائی کے وسط میں پہلی بار سکھوں کی خودمختاری کا مسئلہ اٹھایا۔ 70 کی دہائی کے اوائل میں چرن سنگھ پنچی اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے پہلی بار خالصتان کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے 70 کی دہائی میں برطانیہ کو اپنا اڈہ بنایا اور امریکہ اور پاکستان بھی گئے۔ 1978 میں چندی گڑھ کے کچھ نوجوان سکھوں نے خالصتان کا مطالبہ کرتے ہوئے دل خالصہ تشکیل دی۔سکھوں کی مسلح تحریک کا پہلا مرحلہ گولڈن ٹیمپل یا سری دربار صاحب کمپلیکس پر حملے کے ساتھ ختم ہوا، جو کمپلیکس کے اندر موجود عسکریت پسندوں کو بھگانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسے 1984 میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے جانا جاتا ہے۔مسلح جدوجہد کے دوران زیادہ تر عسکریت پسندوں نے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا۔ حالانکہ اس آپریشن کے دوران جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے مارے گئے تھے۔انھوں نے خالصتان یا علیحدہ سکھ قوم کے مطالبے کے بارے میں کبھی واضح طور پر بات نہیں کی۔ ‘حالانکہ انھوں نے کہا تھا کہ اگر سری دربار صاحب پر فوجی حملہ ہوتا ہے تو یہ خالصتان کی بنیاد رکھے گا۔’انھوں نے 1973 کی سری آنند پور صاحب قرارداد کے نفاذ پر اصرار کیا جسے اکالی دل کی ورکنگ کمیٹی نے منظور کیا تھا۔
اکالی دل ہندوستان کے آئین اور ہندوستان کے سیاسی ڈھانچے کے تحت کام کرتا ہے۔ آنند پور صاحب کی قرارداد کا مقصد سکھوں کے لیے ہندوستان کے اندر ایک خود مختار ریاست بنانا ہے۔ یہ قرارداد الگ ملک کا مطالبہ نہیں کرتی۔ 1977 میں، اکالی دل نے ایک پالیسی ہدایتی پروگرام کے حصے کے طور پر جنرل باڈی کے اجلاس میں اس قرارداد کو منظور کیا۔اگلے ہی سال اکتوبر 1978 میں، اکالی دل لدھیانہ کانفرنس میں اس تجویز پر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کانفرنس کے وقت اکالی دل کی حکومت تھی۔
خالصتان کا پہلا باضابطہ مطالبہ 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کی یونائیٹڈ فرنٹ پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔اس کا سیاسی مقصد یوں بیان کیا گیا: ‘اس خاص دن پرمقدس اکال تخت صاحب سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے ‘خالصتان’ خالصہ پنتھ کا الگ گھر ہو گا۔ خالصہ اصولوں کے مطابق تمام لوگ خوشی اور مسرت سے زندگی گزاریں گے۔”ایسے سکھوں کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی، جو سب کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں گے۔’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔