... loading ...
رفیق پٹیل
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ میں لسانی فسادات کا خطرہ ہے۔ مہاجر قومی مومنٹ کے چیئرمیں آفاق احمد نے حال ہی میں ٹرکوں اور دیگر بھاری گاڑیوں سے ہونے والے حادثات کے خلاف بیانات دیے جس کے بعد وہ گرفتاری اور رہائی کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھرسیاسی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آگئے ہیں ۔اسی وجہ سے لسانی سیاست کے خدشے کا اظہا ر کیا جارہا ہے لیکن آفاق احمد نے اس کی نفی کی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں کی جانب سے آفاق احمد کی گرفتاری کے خلاف بیانات اور خصوصاً لندن سے ا لطاف حسین کی جانب ا ن کی حمایت میں بیانات نے آفاق احمد کو مزید تقویت دی ہے، خود آفاق احمد نے سب کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن فی الحال متحدہ قومی موومنٹ اور آفاق احمد کی قربت کا امکان کم ہے۔ محض آفاق احمد کی خواہش پر کراچی کی تما م سیاسی قوتیں متحد نہیں ہوسکتی ہیں۔ تما م سیاسی جماعتوں کے اپنے علیحدہ مفادات ہیں اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ۔اس شک کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستا ن میں ہر قسم کی سیاست میں پس پردہ قوتوں کا کچھ نہ کچھ عمل دخل رہتا ہے۔ متحد ہ قومی مومنٹ کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ ان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ جس سیاسی اتحادمیں وہ موجود ہیں اس سے باہر نکلنے سے باز رہیں ۔جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو خدشہ ہوسکتاہے کہ آفاق احمد کی قوت بڑھ گئی تو ان کا ووٹ بینک کم ہوجائے گا ۔ا ن حالات میں عوامی حمایت سے مسلسل محرومی کا شکار پیپلز پارٹی کو اس لیے محدود فائدہ ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر سندھ میںلسانی سیاست کے نام پر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرسکتی ہے۔ سندھ میں اس کی ناقص حکمرانی اور سندھ کے عوام کی بدحالی کی و جہ سے اب وہ لسانی تقسیم کا ماضی کی طرزکا سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرسکے گی۔
متحدہ قومی مو ومنٹ پر بھی دبائو ہوگا کہ اپنی پارلیمانی قوت کوپیپلز پارٹی کے خلاف استعمال نہ کرے۔ ا فاق احمد کے لیے بھی کراچی کی سیاسی جماعتیں مشکلات کا پہاڑ کھڑا کرنے کی کوشش کریں گی آفاق احمد کراچی کے ان بھاری بھرکم سیاسی گروہوں کا کیسے مقابلہ کریں گے کوئی واضح حکمت عملی اب تک سامنے نہیں ہے ۔فی الحال آفاق احمد کے لیے متحدہ قومی مومنٹ سے کسی قسم کے سمجھوتے میں مرکزی اور صوبائی حکومت رکاوٹ ہے ۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آفاق احمد کے مطابق وہ کراچی کے عوام کا اتحاد بھی چاہتے ہیں اور وہ اپنی مہاجر سیاست کو بھی بر قرار رکھنا چاہتے ہیں ۔آئندہ ان کی عوامی رابطہ مہم کے لیے بھی بے حد مشکلات ہوسکتی ہے ۔ہو سکتا ہے کہ وہ نیک نیتی سے کا م کر رہے ہوں لیکن تیس سال پہلے کے کراچی اور آج کے کر چی میں بہت فرق ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں اوربزرگ دانشوروں کی ایک مضبوط ٹیم کے بغیر ان کے لیے عوامی سیاست میں کامیابی بہت مشکل ہے۔ ان کے ارد گرد موجود لوگ بھی آفاق احمد کے قریب نئے لوگوں کی آمد کو اپنے لیے خطرہ تصور کرکے رکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں ۔آفاق احمد کو صرف اس لیے محدود برتری مل سکتی ہے کہ جن مسائل پر وہ کھل کرتنقیدکرسکتے ہیں اس پر ایم کیوایم کی حکومت پر تنقید کو دوستانہ تصور کیا جاتاہے۔ مرکز میںمسلم لیگ،پیپلز پارٹی اور متحدہ حکومت کا حصہ ہیں۔ صدر آصف زرداری کو بھی متحدہ قومی موو منٹ کی عہدہ صدارت کے لیے حمایت حاصل تھی ۔پی ٹی آئی کو متحدہ پر الزام کگانے کا موقع مل گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی بی ٹیم ہیں اور وہ فارم 47کے سہارے سیاست کر رہے ہیں۔دھاندلی سے نشستوں پر قبضہ کرکے بیٹھے ہیں۔خود پیپلز پارٹی کے بعض رہنما بھی متحدہ پر یہ الزام عائدکرتے رہتے ہیں۔یہ بھی ایک ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے متحدہ قومی مومنت اور آفاق احمد میں دوری ہے ۔متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما بھی ایک محدود سطح سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔وہ حکومت کا حصہ بن کر رہنے کو اس وقت تک اپنی کامیابی تصور کر تے ہیں جب تک انہیں متبادل نہیں ملتا یا انتخابات قریب نہیں آجاتے جب تک اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے، ان کے لیے حکومت سے علیحد گی کا فیصلہ ممکن نہ ہوگا۔
سندھ میں الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ نے 1986 سے عروج حاصل کرنا شروع کیا تھا لیکن اس کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب الطاف حسین نے فارمیسی اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بنا کر کراچی یونیورسٹی میں فارمیسی میں نشستیں بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں ایک چھوٹے سے گروپ پر مشتمل آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی تھی جسے ابتدا میں پزیرائی نہ مل سکی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے مسلسل جھگڑوں سے تنگ آکر الطاف حسین امریکا چلے گئے تھے ۔اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کو جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی حاصل تھی لیکن کراچی کی سطح پر جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی اور جنرل ضیاء الحق میں اختلافات ہوگئے اور الطاف حسین نے واپس آکر مہاجر قومی مومنٹ کو منظّم کرنا شروع کیا۔ 1986 میں نشتر پارک میں مہاجر قومی موومنٹ کے جلسے نے سیاست میں ہلچل مچادی ۔مہاجر قومی موومنٹ کے تنظیمی ڈھانچے میں زونل آر گنائزر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی اس طرح کراچی شرقی میں اس وقت آفاق احمد کو تنظیمی ذمّہ داری ملی تھی۔ وہ اپنا اثر رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد جب ان کی سیاست میں واپسی ہوئی تو ایک مرتبہ پھر ضلع شرقی میں انہوں نے مہاجرقومی موومنٹ کے نام سے سیاست کا آغاز کردیا تھا اور اس وقت سے اب تک کراچی اور حیدرآباد میں اپنی جماعت کو منظم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنمائوں نے جب الطاف حسین سے علیحدگی حاصل کرلی تو کراچی میں مہاجر سیاست میں بہت بڑی تقسیم پیدا ہوگئی اور متحدہ قومی مومنٹ اور لندن ایم کیو ایم کے درمیان خلیج بڑھ گئی اور کراچی میں موجود متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ئوں کی عوامی پزیرائی بھی سوالیہ نشان ہے ،اس کی ایک وجہ کراچی کے عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل ہیں جس میںمیرٹ کا خاتمہ، لو ٹ مار کے واقعات،حادثات ،ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑکیں،آلودگی ، ٹریفک کا دبائو،بے روزگاری ،بڑھتی ہوئی آبادی ،پانی بجلی کا بحران،منشیات سب سے زیادہ اہم ہیں لیکن اس پرقابو پانے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومت غیر موثر ہے۔ تما م اہم عہدیداراپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں عوامی مسائل پر محض بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا عملی مظاہر ہ نظر نہیں آتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو امیدہو سکتی ہے کہ آفاق احمد کو ئی کرشمہ کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کی ماضی کی سیاست کو واپس لانا بدلے ہوئے منظر نامے میں بہت ہی زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ آفاق احمد اور متحدہ قومی موومنٹ کے سامنے بہت بڑا پہاڑ سامنے کھڑاہے خود پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہونے کے باوجود بہت بڑے بحران کا شکار ہے ۔متحدہ اور آفاق احمد میں بہت زیادہ دوریا ں ہیں، کسی نئے اتحاد کی راہ نظر نہیں آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔