... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں مسلسل حیرت کے جھٹکوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ روس کے ساتھ ان کی قربت کے چرچے عام تھے مگر وہ اسے خوش کرنے کے لیے یوروپ کو ناراض اور یوکرین کو رسوا کردیں گے ایسا کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ روس سے گفت و شنید کے دوران یوکرین کو درکنار کردیا جائے اس کا بھی امکان نہیں تھا اور حماس سے گفتگو کی اسرائیل کو کانوں کان خبر نہ ہو گی وہ تو دویوانے کا خواب تھا ۔ شی جن پنگ کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے کر نریندر مودی کو نظر انداز کردیاجائے اس کا تصور بھی محال تھا۔ اپنے پہلے پارلیمانی خطاب میں پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہندوستان پر تنقید بھی توقع کے خلاف تھی ۔ ایران سے گفت و شنید کے لیے امریکہ کی پیشکش ناممکنات میں شامل تھی کیونکہ اپنی گزشتہ مدت کار میں جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر اپنے ملک کو الگ کرنے کا قدم کسی اور نے نہیں بلکہ خود ٹرمپ نے اٹھا یا تھالیکن یہ معجزہ بھی رونما ہوگیا۔ ایسے میں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تازہ ترین دھماکہ ایران کے اعلیٰ ترین رہنما آیت اللہ خامنہ ای کو جوہری معاہدے پر مذاکرات کے لیے ایک خط بھیجنا ہے ۔ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے خود ایرانی قیادت کو مکتوب لکھ کر اس نازک موضوع پر بات چیت کے پیشکش کرنے کی تصدیق کردی۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ “ایران سے اپنی بات منوانے کے دو طریقے ہیں ان میں سے ایک جنگ یا پھر دوسرا مذاکرات کا راستہ ہے اور وہ ان دونوں میں سے مذاکرات کوترجیح دیں گے ۔ ایسا کرنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ وہ ایران کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے کیونکہ وہ عظیم لوگ ہیں۔ ٹرمپ جیسا خود پسند اگر کسی دشمن کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے تو اس پر تعجب کا ہونا فطری ہے ۔اس گفت و شنید کے حوالے سے ٹرمپ نے توقع کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ (ایران) مذاکرات کریں گے ، کیونکہ یہ خود ایران کے لیے بہت بہتر ہوگا۔ یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جو 2018 میں ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے اچانک دستبردار ہوگیا تھا اور اس کی بحالی کے لیے جوبائیڈن انتظامیہ بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے ۔
اسرائیل اپنے مغربی آقاوں کے طفیل ایک ایٹمی طاقت بن گیا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنی برتری قائم رکھنے کی خاطر امریکہ اور اسرائیل بارہا ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دینے کی دھمکی دے چکے ہیں ۔ ان کے خیال میں اگر تہران ہتھیاروں کی سطح کے قریب یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو خطے میں فوجی تصادم کا خدشہ بڑھ جائے گا حالانکہ اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر 25 ہزار ٹن گولہ بارود برسایا ہے جو دو جوہری بموں کے برابر ہے ۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مبصر صالح عبدالشافی نے پچھلے سال نومبر میں غزہ پر اسرائیلی فورسز کی جانب سے برسائے گئے بموں میں ڈیپلیٹڈ یورینیم استعمال ہونے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے اور یہ الزام لگایا تھا کہ جنگ عظیم دوم میں استعمال ہونے والے بم گولوں سے زیادہ بارود غزہ پربرسایا جا چکا ہے ۔اس طرح گویا غزہ کے اندر اسرائیل کے ذریعہ کی جانے والی تباہ کاری ایٹمی بموں کی تباہی سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس لیے خطے میں فوجی تصادم کے بہانے ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کا سارا نام نہاد اخلاقی جواز اپنی موت آپ مرچکا ہے ۔
ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت ِ کار میں یک طرفہ طور پر امریکہ کو ایران اور عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے سے نکالنے کا فیصلہ کرکے ایران سے اپنے تعلقات تو کشیدہ کرلیے اور اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں بھی عائد کردیں تاکہ ایرانی معیشت کی کمر توڑکر اسے اپنے ایٹمی عزائم سے باز رکھاجائے یا منصوبہ بند کرنے پر مجبور کردیا جائے مگر وہ اپنے ان ناپاک ارادوں میں تو کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اسرائیل کے اشارے پر اس امریکی اقدام سے ایران کا بلاواسطہ بہت بڑا فائدہ ہوگیا کیونکہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت، ایران کو صرف 3.67 فیصد خالصیت تک یورینیم افزودہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ 300 کلوگرام (661 پاؤنڈ) یورینیم کا ذخیرہ رکھنے کی اجازت تھی۔ اس پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی میں کام کرنے کی بھی پابندی تھی۔ معاہدے کے خاتمے نے ایران کو ان پابندیوں سے آزاد کردیا اور (IAEA) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، اب ایران کا یورینیم ذخیرہ 8,294.4 کلوگرام (18,286 پاؤنڈ) تک پہنچ چکا ہے ، جس میں سے کچھ کو 60 فیصد خالصیت تک افزودہ کیا جا چکا ہے ۔ یہ ہتھیاروں کے معیار (90%) سے قریب پہنچنے کے لیے ایک تکنیکی طور پر اہم قدم ہے ۔
ایران کی جانب سے ہتھیاروں کے درجے کے قریب یورینیم کی تیز رفتار پیداوار نے ٹرمپ پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے ۔ وہ متعدد بار ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی آمادگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی پالیسی کے تحت ایران کی تیل کی فروخت پر پابندیاں سخت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے چار ہندوستانی جہاز رانی کی کمپنیوں کو بھی ایرانی تیل پہنچانے کا الزام لگا کر بلیک لِسٹ کردیا۔ اس بے چینی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلے سال 5 اکتوبر (2024) کی شام کو جب ایران کے صوبہ سیمنان کا شہر اردان 4.6 شدت کے زلزلے کا مرکز بنا تو امریکی جیولوجیکل سروے نے انکشاف کیا اس کی زیرزمین گہرائی 10 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ ابتدائی زلزلے کے چند منٹ بعد ہی اسرائیل سے نصف شب کے قریب ایک دوسرے قدرے کم شدت والے زلزلے کی اطلاع آئی۔ ان زلزلوں کے واقعات نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی میں بھی زبردست اضافہ کردیا کیونکہ اس حوالے سے جوہری تجربے کے خدشات اور نظریات کا بازار گرم ہوگیا تھا ۔
سوشل میڈیا پر خفیہ ایٹمی تجربہ کی دلچسپ قیاس آرائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی الحال دنیا ایران کو ایٹمی کلب میں شامل کرنے کی خاطر ذہنی طور پر تیار ہوچکی ہے ۔ سخت ترین پابندیوں کے باوجود بیرونی امداد کے بغیر یہ ایران کا بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ اس ٹکنالوجی پر مغرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کا حوصلہ شاذونادر ہی ہوتا ہے ۔ اس وقت ایکس پر ایک صارف نے لکھا تھا کہ ‘ایران کل رات سے نیوکلیئر تجربہ کررہا ہے ”۔ دوسرے نے لکھا، ”اس ایرانی زلزلے نے واقعی اسرائیل کو خوفزدہ کردیا۔ تل ابیب ایران پر حملہ کرنے کی سوچ رہا کیونکہ اسے ایسا لگتا ہے کہ یہ جوہری ہتھیاروں کا معاملہ ہے ، کوئی ملک جوہری طاقت کے ساتھ گڑبڑ نہیں کرے گا”۔ایک اور پوسٹ نے کہا گیا کہ ‘کل ایران میں 4.5 کا زلزلہ آیا۔ افواہیں ہیں کہ یہ ایک ایٹمی تجربہ تھا۔ فروری 2013 میں شمالی کوریا میں آنے والا زلزلہ جوہری تجربہ ثابت ہوا تھا۔ نومبر 2017 کے ایران میں آنے والے زلزلے کو بھی جوہری ٹیسٹ کا نام دیا گیا تھا”۔گزشتہ سال اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ ایران جہاں چاہے درستگی کے ساتھ وارہیڈ پہنچا نے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
ماضی قریب میں شمالی کوریا کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ ٹرمپ نے اپنی پچھلی مدتِ صدارت میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کو اسی طرح کے خطوط لکھ کر ساری دنیا کو چونکا دیا تھا ۔ اس پر ساری دنیا میں ایک نئی بحث چل پڑی تھی اور اس کے نتیجے میں براہِ راست ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں، مگر سارے شور شرابہ کے باوجود پیانگ یانگ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں اور بین البراعظمی میزائل پروگرام کو محدود کرنے سے متعلق کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ شمالی کوریا کے برعکس ایران طویل عرصے سے یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے ۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایرانی حکام امریکی پابندیوں اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران جوہری بم بنانے کی دھمکیاں بھی دے ڈالتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی سطح پر دو مختلف سمتوں میں کام ہورہا ہے ۔ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلسل ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کی بات کررہی ہے تاہم، اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی گذشتہ ماہ جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا جاچکا ہے کہ ایران نے ہتھیاروں کے معیار کے قریب یورینیم کی پیداوار کو تیز کر دیا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایران کے اس استحقاق کو غزہ کے اندر اسرائیلی مظالم نے مزید مضبوط کردیا ہے ۔ ایران کے پاس ایٹمی اسلحہ کو موجودگی صہیونی حکومت میں موجود انتہا پسند امن کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں پر لگام لگا نے کے لیے ضروری ہے ورنہ وہ پوری دنیا کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لے جائیں گا۔ ٹرمپ نے زیلینسکی سے جو تیسری جنگ عظیم سے جوا کھیلنے کی بات کہی وہ نتین یاہو پر خوب صادق آتی ہے ۔ اسے کو روکنے کے لیے اس کے حریف کا (deterrent) کے طور پر جوہری اسلحہ سے لیس ہونا ضروری ہے ۔ اس بابت طرب صدیقی نے اپنے مشہور شعر میں جو بات کہی ہے حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ وہ کہتے ہیں
اب اسلحہ سازی پہ ہے طاقت کا توازن
یہ فتنہ و شر کے لئے سامان بہت ہیں
(پس نوشت :اس شعر کا مطلب فتنہ و شر روکنے کا سامان بھی ہوسکتا ہے اور یہ معنیٰ درست لگتے ہیں)