... loading ...
ریاض احمدچودھری
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان اور احتجاج کے آرگنائزر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور متعدد مسلم تنظیموں اور عام مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے مرکزی حکومت، اس کی حلیف جماعتوں اور بطور خاص مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پوری قوت سے اپنا یہ موقف پیش کیاکہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ بل وقف املاک کو ہڑپنے اور تباہ کرنے کی ایک گھنائونی سازش ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جائے، لیکن اس کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس احتجاج ومظاہرے میں دلت، قبائل، دیگر پسماندہ طبقات، سماجی و سیاسی قیادت اور سکھوں و عیسائیوں کے مذہبی رہنما بھی شامل ہوں گے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہاکہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا بھی فرقہ پرست طاقتوں کے بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلارہا ہے۔ تمام املاک مسلمانوں کے بزرگوں نے اپنی ذاتی املاک کو مذہبی و خیراتی کاموں کیلئے وقف کیا ہے۔ وقف قانون کے ذریعے ان کا تحفظ ہوتا ہے اور انہیں خرد برد سے بچایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل ہی مرکزی کابینہ نے وقف ترمیمی بل میں14ترامیم سے متعلق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کو منظوری دی ہے۔ یہ منظوری اس بات کا اشاریہ ہے کہ حکومت بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں10مارچ سے شروع ہوگا، اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظور کروانے کی کوشش کریگی۔ مجوزہ ترامیم کے ذریعے نہ صرف یہ کہ وقف بورڈ میں خواتین اور غیر مسلم اراکین کی شمولیت کی راہ ہموار ہوجائے گی بلکہ حکومت کے ساتھ تنازعے کی صورت میں حتمی فیصلے کا اختیار بھی حکومت کے اعلیٰ حکام کے پاس ہوگا۔
بھارت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے خلاف10مارچ کو دہلی کے جنتر منتر پر بڑے پیمانہ پر احتجاجی مظاہرے ا ور دھرنے کا اعلان کیاہے۔مودی کابینہ کی طرف سے وقف قوانین میں14 ترامیم کو منظور کرنے کی خبروں کے بعد بورڈ نے بزور طاقت اس بل کو منظور کرانے کے خلاف احتجاج کرکے اس ظلم وزیادتی کو ملک اور دنیا کے سامنے آشکار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بورڈ نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ضمیر پر دستک دینے اور اپنے احتجاج کو درج کرانے کیلئے مسلم پرسنل لاء بورڈ دہلی میں پارلیمنٹ کے سامنے جنتر منتر پرآج دھرنا دے گا۔ دھرنے میں بورڈ کی پوری قیادت، تمام دینی و ملی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی مرکزی قیادت شرکت کرے گی۔ مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے حزب مخالف کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی موومنٹ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی اس دھرنے میں شریک ہوکر اس ظلم وزیادتی کے خلاف صف آرا ہوں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر دینی و ملی تنظیموں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے وقف ترمیمی بل کی منظوری اور اتراکھنڈ میں سول کوڈ کے نفاذ کی شدید مذمت کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے رہنمائوں نے ایک بیان میں کہا کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل منظور کر کے تمام جمہوری و اخلاقی اقدار اور مسلمانوں کوبھارتی آئین کے تحت حاصل حقوق کو پامال کیا ہے۔ کمیٹی نے کروڑوں کی تعداد میں دی گئی مسلمانوں کی آرا، ان کے جذبات و احساسات کو نظر انداز اور اپوزیشن ممبران کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے متنازعہ بل کو منظور کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بل کی منظوری انتہائی نا مناسب، غیر جمہوری اور مسلمانوں کے حقوق پرڈاکے کے مترادف ہے۔ ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ غیر جمہوری، غیر دستوری اور شہریوں کے بنیادی حقوق پرایک حملہ ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ قانون مسلمانوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں۔
بھارت کے آئین میں مسلمانوں سمیت تمام شہریوں کو اپنا مذہبی عقیدہ رکھنے اور مذہبی تعلیمات پر عمل کر نے کی آزادی دی گئی ہے۔ مسلم پرسنل لا دین اسلام کا جزو لا ینفک ہے، جسے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937کے تحت بھی تحفظ ہے۔مسلم رہنمائوں نے دعویٰ کیا کہ کسی ریاست کو یونیفارم سول کوڈ بنانے کا ہرگز اختیار نہیں ہے، یہ ریاستی حدود سے مجرمانہ تجاوز ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام مسلم تنظیموں نے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو وقف املاک سے کھلواڑ کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت مسلمانوں کے صبر کا امتحان نہ لے اور ملک کوجمہوریت کے بجائے تانا شاہی کی طرف نہ لے کرجائے۔مسلم رہنمائوں نے مودی حکومت پر زوردیا کہ وہ اس ترمیمی بل کو فورا واپس لے بصورت دیگر مسلمان ملک گیراحتجاج کرنے پر مجبور ہو ں گے۔
یہ قانون 1991 میں کانگریس حکومت کے دور میں پی وی نرسمہا راؤ نے پیش کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق، 15 اگست 1947 سے پہلے موجود عبادت گاہوں کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں ایک سے تین سال تک قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ایودھیا کیس عدالت میں زیر سماعت تھا، اس لیے اسے اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے سروے کی اجازت دے کر عبادت گاہوں کے تنازعات کو بڑھا دیا ہے۔ دشینت دوے نے کہا کہ اس سے ملک میں مذہبی تنازعات بڑھیں گے اور عدالت کو اس پر روک لگانی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔